ترکی میں جنگل کا قانون

ترکی میں ریپ کا نیا قانون آجکل پوری دنیا کی توجہ کا مرکز بنا ہوا ہے۔ اس نئے قانون کے مطابق ہر اس شخص کو رہا کردیا جائے گا جس نے کسی کمسن لڑکی کا ریپ کیا ہو اور بعد میں وہ اس سے شادی پر تیار ہوجائے۔ اس بل کی منطق ترکی کی حکومت کے مطابق بچوں کی شادی کی روایات سے نمٹنا ہے۔

اس قانون کے متعلق سمری پارلیمان میں ابتدائی طور پہ پاس ہو چکی ہے۔ اس بل پر بحث کی دوسری نشست منگل کو ہو گی۔ اس قسم کے افسوسناک قانون نے ترکی کے لوگوں کو اس سرد ترین موسم کی پرواہ کئے بغیر سڑکوں پہ آنے پر مجبور کردیا۔ استنبول سمیت کئی شہروں میں اس قانون کے خلاف مظاہرے کئے گئے اور احتجاج کا سلسلہ مسلسل جاری ہے۔ لوگوں کی رائے میں اس طرح کا قانون بنانا ریپ کو قانونی قرار دینے کے مترادف ہے۔ ترکی میں ریپ کے اس قانون پہ اقوامِ متحدہ میں بچوں کے حقوق کے عالمی ادارے میں بھی تشویش پائی جاتی ہے۔ اگر کچھ دیر کے لئے اس قانون کو درست تصور کرلیا جائے تو اس سارے قضیے میں سب سے پہلے تو پوری دنیا کو ریپ کی نئی تعریف وضع کرنے کی فوری ضرورت ہے تاکہ ترکی کے اس قانون سے ہم آہنگ ہونے کے تقاضوں کو بخوبی پورا کیا جاسکے۔

یا پھر سب کو مل کر “اے پی کے” کےرہنماؤں سے یہ سوال کرنا چاہئیے کہ وہ کون سی کمسن بچی ہوگی جو رضامندی سے خود کو ریپ جیسے گھناؤنے فعل کے لئے پیش کرنا چاہے گی، اور جو اسکے بعد باقی ساری زندگی اس قانون کے مطابق اسی ریپسٹ کے ساتھ گزارنا پسند کرے گی۔ ایک طرف تو ریپ کی اس نئی تعریف کا قصہ، دوسری جانب ترکی کے وزیرِ انصاف فرماتے ہیں کہ اس بل کے تحت ریپ کرنے والوں کو رعایت نہیں دی جائے گی۔
حیران ہوں کہ روؤں کہ پیٹوں جگر کو میں
وزیرِ موصوف شاید خود ہی “ریپسٹ اے” اور “ریپسٹ بی” کی کیٹیگری بتا سکیں تو ٹھیک، لیکن ایک عام انسان ان کی دانشمندی تک پہنچنے سے قاصر ہے۔ ترکی کے عوام حیران ہیں کہ یہ کیا قانون بننے جارہا ہے کہ کوئی بھی ریپ کرکے اس بچی سے شادی کرکے خود کو قانونی سزا سے بچا سکتا ہے۔ حکمراں جماعت جو کہ اسلامی سیاست کی علمبردار سمجھی جاتی ہے، 2002 سے ملک میں برسرِ اقتدار ہے۔ اور اعداد شمار ظاہر کرتے ہیں کے خواتین کے خلاف تشدد کے واقعات میں گزشتہ دہائی کے دوران انتہائی اضافہ ہوا ہے۔ صرف 2015 میں تین سو خواتین مردوں کے ہاتھوں ہلاک ہوئیں اور سو سے زائد کے ساتھ ریپ کیا گیا۔ اسی سال فروری میں ہونے والی بیس سالہ اوزگیجان اسلان کے بہیمانہ قتل کی واردات ایک ایسا واقعہ تھی جس نے ہزاروں لوگوں کو سڑکوں پہ آنے پہ مجبور کر دیا تھا۔ اوزگیجان یونیورسٹی میں نفسیات کی طالبہ تھیں، ان کو ڈرائیور نے گھر جاتے ہوئے اغوا کرنے کی کوشش کی۔ جس کا مقابلہ اوزگیجان نے مرچوں والے اسپرے سے کیا مگر اسی بات پہ مشتعل ہوکر انُکو چاقو کے پہ در پہ وار کرکے قتل کردیا گیا۔ اوزگیجان کے بیگ میں مرچوں کے اسپرے کا ہونا اس بات کا ثبوت ہے کہ ترکی میں ایک عورت کس قدر غیرمحفوظ ہے۔ اوزگیجان کے قتل پہ ہونے والے مظاہروں میں شریک ایک ہائی اسکول کی طالبہ کی مطابق
“سڑکیں ہمیں ڈرنا سکھاتی ہیں”
بظاہر یہ ایک چھوٹا سا جملہ ہے لیکن اپنے اندر معنی کی ایک پوری دنیا سمیٹے ہوئے ہے کہ ایک عورت سڑکوں پہ، گلیوں میں، اسکولوں اور کالجوں میں، حتیٰ کے گھروں میں بھی جسمانی، ذہنی اور نفسیاتی استحصال کا شکار ہے۔ اوزگیجان کا قتل ایک ایسا بارش کا قطرہ بنا جس کے بعد ترکی میں خواتین نے جنسی تشدد اور ہراساں کرنے کے خلاف باقاعدہ آواز اٹھانا شروع کردی۔ ترکی میں ٹوئیٹر پہ چلنے والے ہیش ٹیگ “ٹیل دا اسٹوری” راتوں رات مقبول ہوا، جہاں صرف دو دن کے اندر سینکڑوں لوگوں نے اپنے ساتھ پیش آنے والے واقعات شئیر کئے۔جس کے بعد اندازہ ہوا کہ ترکی میں عورتوں کے خلاف ہونے والے جرائم کی حقیقی تعداد کہیں زیادہ ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

عورت کے وجود پہ تسلط کا یہ سفر تو ازل سے جاری ہے۔ لیکن صدیوں کی مشقت اور جدوجہد کے بعد آج اکیسویں صدی میں کم از کم مغرب کی عورت تو کسی حد تک اپنی شخصی آزادی کا دعویٰ کرنے کے قابل ہے۔ لیکن ایک جانب جدیدیت کا زینہ چڑھتی دنیا اور دوسری جانب عورت کے لئے ازلی سوچ کی واپسی ایک بہت بڑا لمحۂ فکریہ ہے۔ طیب اردگان کی حکومت نے جہاں ملک کو معاشی استحکام بخشا ہے، وہیں اسلامی سیاست کے نام پہ اسطرح کے قانون بنا کر یقیناً اپنے زوال کے اسباب کو خود جنم دینے کا باعث بھی بن رہی ہے ۔کیونکہ اس بات پہ تو سب کو یقین ہے کہ ہر عروج کو اک دن زوال ہے۔

Facebook Comments

ثمینہ رشید
ہم کہاں کہ یکتا تھے، کس ہنر میں دانا تھے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست ایک تبصرہ برائے تحریر ”ترکی میں جنگل کا قانون

Leave a Reply