شکریہ راحیل شریف

سپاہ سالار اعلیٰ جناب راحیل شریف کی ریٹائرمنٹ کی تصدیق آئی سی پی آر نے کردی، جنرل راحیل شریف نے الوداعی ملاقاتیں بھی شروع کر دیں!
یہ خبر میری زندگی کی اب تک کی سب سے بڑی ایسی خبر ہے جس سے غمگین بھی ہوں اور خوش بھی!
دل تھوڑا سا بوجھل اس وجہ سے ہے کہ میرے وطن کا سپاہ سالار اعلیٰ ریٹائر ہورہا ہے، پروفیشنل لائف میں جب کوئی سینئر ریٹائر ہوتا ہے تو اس کے جاتے وقت دکھ اور خوشی کا ایک ایسا احساس ہوتا ہے جس کو الفاظ میں بیان کرنا ذرا مشکل ہوتا ہے! لیکن دل کے ملال کے ساتھ خوشی اس بات کی ہے آج مادر وطن میں ایک خوبصورت روایت پروان چڑھنے جاری ہے!

ہماری ملکی تاریخ روایات سے نہیں سانحات سے بھری پڑی ہے! مثالیں قائم کرنے کے بجائے بحران پیدا کئے جاتے رہے ہیں! جانے والوں کو خدا حافظ کہنے اور آنے والوں کو خوش آمدید کہنے کہ جگہ سازشیں رچی جاتی رہی ہیں! مادرِ وطن کے اداروں کو مضبوط کرنے کے بجائے افراد مضبوط کیا جاتے ہیں! آج ایک سپاہی ہم سب کے لئے عظمت کی داستان رقم کرنے کی تیاری میں ہے! اس نے اپنے گھرانے کے شاندار ماضی کو مزید چار چاند لگا دیئے! وہ شہداء کے خاندان سے تعلق رکھنے والا غازی ہے!

پاکستان کے سیاسی مسخروں نے ہر ممکن کوشش کی کہ کس بھی طرح سول حکومت کے خلاف بندوق سپاہی کے کندھے پر رکھ کر چلائی جائے!
2014 کے دھرنے میں باقاعدہ دعوت دی جاتی رہی اور اسلام آباد لاک ڈاؤن کی مہم جوئی میں بھی یہی خیال پیش نظر تھا کہ کوئی خاکی مدد آنے پہنچے گی! لیکن جب ہر طرف سے مایوس ہوئے تو اسی میں عافیت جانی کہ اب سپریم کورٹ میں جائے پناہ تلاش کی جائے! میرے کہنے کا خدانخواستہ یہ مطلب بھی نہیں کہ ہماری جمہوری حکومتیں قرون اولیٰ کی مثالیں پیش کرتی رہی ہیں اور کررہی ہیں!
نظام کا تسلسل!
نظام کی خامیوں کو سامنے لاتا ہے!
اور پھر اس کی خامیوں کو درست کیا جاسکتا ہے!

پیپلز پارٹی سے بیسیوں اختلاف کئے جا سکتے ہیں لیکن اقتدار کی جمہوری منتقلی کا کریڈیٹ ان کو جاتا ہے۔ مسلم لیگ ن سے ہزارہا اختلاف کے باوجود کہنا پڑے گا کہ کئی نشیب وفراز کے باوجود سول ملٹری تعلقات کی یہ کامیابی ہے کہ کئی مواقع میسر تھے کہ مارشل لاء لگا دیا جاتا لیکن آرمی نے سول حکومت پر اعتماد کیا!

سپاہ سالار اعلیٰ جنرل راحیل شریف نے اپنے پیچھے آنے والے سالار اعلیٰ کے لئے عظیم روایات چھوڑی ہیں۔ ایک راستہ متعین کردیا ہے کہ صرف اور صرف اپنی آئینی حدود کے اندر رہ کر ہی عظمت قائم کی جاسکتی ہے۔ آج شاید ہی کوئی پاکستانی ہو جو سپاہ سالار اعلیٰ جنرل راحیل شریف کو عزت و احترام کی نگاہ سے نہ دیکھتا ہو۔ ماضی میں کئی سالار اعلیٰ گزرے جن کے ہاتھ میں فوج کی کمان بھی تھی اور سول حکومت کی زمام اقتدار بھی، لیکن وہ سب کے سب آخرکار متنازعہ ہی کہلائیں گے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

سپاہ سالار اعلیٰ راحیل شریف کی باعزت رخصتی ہمارے سیاستدان کے لئے بھی ایک اعلیٰ مثال ہے۔ فوج سے طاقتور ادارہ تو کوئی نہیں۔ جب اس کا چیف تین سال پورے کرنے کے بعد رخصت ہونے جا رہا ہے تو جناب آپ لوگوں کو کون سی تکلیف ہے؟ آپ کیوں نہیں اپنی اپنی جماعتوں میں تبدیلی لاتے؟ کیا آپ کی جماعتوں میں آپ کے سوا کوئی قابل نہیں؟ صرف آپ ہی عقل کُل ہیں؟ جب میں نویں جماعت کا طالب علم تھا تو سنا تھا کہ عمران خان نے ایک سیاسی جماعت بنائی ہے، آج تک عمران خان ہی اس کے سپریم کمانڈر ہیں۔ ابا مرحوم نے بتایا تھا کہ مفتی محمود کے انتقال کے بعد جمیعت علمائے اسلام کے امیر مولانافضل الرحمن بنے تھے، لیکن اب تو ابا مرحوم کو بھی گزرے ہوئے ایک مدت ہوگئی، مولانا آج تک قائد و سالارِ ملت ہیں۔ مسلم لیگ ف۔ چ۔ عین۔ ش۔ پ۔ ل۔ الف اور پھر ن، اور ن بھی جب بنی تھی تب حسن و حسین شریف آف شور کمپنیوں کی اے بی سی سیکھ رہے تھے؛ اب تو آف شور کا شور سپریم کورٹ تک آن پہنچا، لیکن چیف صرف بڑے میاں جی ہی ہیں! پیپلز پارٹی بھی قائد کی شہادت تک قائد کی تبدیلی نہیں لاسکی۔ لے دے کر ایک جماعت اسلامی ہی ہے جس کی امارات کی تبدیلی کا سنا بھی تھا اور الحمد للہ دیکھا بھی!
صرف جمہوریت جمہوریت کہنے سے کچھ نہیں بدلے کچھ بدلنا ہے تو خود کو بدلو!
#شکریہ_راحیل_شریف!

Facebook Comments

راجہ کاشف علی
سیاسی اور سماجی تجزیہ نگار، شعبہ تعلیم سے وابستہ

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply