تبدیلی۔۔۔۔محمد علی جعفری/نظم

 

عقلوں سے سارے کچو!
سن لو گدھے کے بچو!
منظر بدل گیا ہے
دل بھی دہل گیا ہے
راجہ بھی کرم-چاری
پرجا پہ ظلم جاری
یہ ہے نئی حکومت
سمجھو کچھ اس کی حکمت
عمّال یہ نئے ہیں
گزرے بھی اور گئے ہیں
لیکن ہے ان کی شاہی
وہ سلطنت کے راہی
مقسوم ان کی دولت
باقی ہے ان کی صولت
واں امن کے پجاری
کرتے ہیں آہ و زاری
بس سامنے تمہارے
دولت بھی آدمی بھی
وقعت سے ہوتے خالی
دل میں جو ہیں امالی
ان   کی قبر بنالی
گھبراؤ تم متی پھر
ہیں شاہ کے جلو میں
دانشورانِ ملت!
دانشورانِ ملت ،سب ہیں رہینِ ذلت
اسباب کی ہے قِلت
لیکن ہے ان پہ حِلت
ویران یہ مکاں ہیں
خالی سی یہ دکاں ہیں
عقلو سے سارے کچو
سن لو۔۔۔۔
۔۔۔۔ کے بچو!!!

Facebook Comments

محمد علی
علم کو خونِ رگِِِ جاں بنانا چاہتاہوں اور آسمان اوڑھ کے سوتا ہوں ماسٹرز کر رہا ہوں قانون میں اور خونچکاں خامہ فرسا ہوں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply