خدارا، لعنتیں مت سمیٹیے۔۔ذیشان نورخلجی

یوں محسوس ہوتا ہے محرم 1442ھ کا چاند طلوع ہوا اور پھر عاشورہ تک ہی پہنچ پایا تھا کہ ہم نے اسے کھینچ تان کر واپسی کی راہ دکھا دی ہے اور یہ گرتا پڑتا چودہ سو سال پیچھے 35 ھ میں لوٹ گیا ہے۔ جب کچھ جاہل لوگ جتھوں کی صورت میں ریاست مدینہ پر حملہ آور ہوئے تھے۔
لیکن اب کی بار وہ امیر المومنین سیدنا عثمانؓ بن عفان کی طرح، ریاست کے حکمران پر حملہ آور ہونے کی نیت سے اکھٹے نہیں ہوئے۔ بلکہ اس بار مقابل بھی انہی جیسے کچھ مسلمان مذہبی گروہ ہیں۔
جی ہاں، یہ ریاست مدینہ ثانی ہے۔ جہاں نفرتوں اور مسلکوں کی آگ کچھ ایسی تندہی سے بھڑکائی گئی ہے کہ آج اس کے شعلوں سے چہرے دہکنے لگے ہیں۔ بڑی محنتوں اور مشقتوں سے ہم نے اس پودے کو سینچ سینچ کر تن آور درخت بنایا تھا اور اب پھل کھانے کا وقت ہوا چاہتا ہے۔ اور پھل تو صرف اسی کے حصے میں آئے گا نا، جو زندہ بچے گا۔
حالات کی ستم ظریفی دیکھیے یا اسے امت کی بدقسمتی کہہ لیں کہ ریاست مدینہ ثانی میں ہر دو گروہ مسلمان ہیں۔ 35ھ کی طرح یہاں نہ تو کوئی کافر ہے اور نہ ہی منافق۔ اور اس دفعہ تو عبداللہ بن سباء جیسا بھی کوئی نہیں، کہ سارا ملبہ جس پر گرا کر اپنا دامن بچا لیا جائے۔
ان کا خدا بھی ایک ہے، نبی بھی اور قرآن بھی ایک۔ پھر جانے ان کے من میں کیا سمائی ہے کہ یہ ایک دوسرے کو کافر ثابت کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ اور تگ و دو میں ہیں کہ اس کار خیر میں حصہ لے کر زیادہ سے زیادہ لعنتیں سمیٹ لی جائیں کہ کیا خبر لعنتوں کا یہ موسم بہار پھر کب دیکھنا نصیب ہو۔
اور یہ سب لوگ ہماری طرح کوئی سادہ لوح، عام سے مسلمان بھی نہیں ہیں بلکہ اچھے خاصے مذہبی تعلیم یافتہ افراد ہیں۔
یہ لوگ میرے نبی ﷺ کے دین کے علمبردار تھے۔ لیکن اب محسوس ہوتا ہے نفرتوں اور لعنتوں کے سب سے بڑے سوداگر یہی مذہبی جتھے ہیں۔
کیا میرے نبی ﷺ کی تعلیمات یہی تھیں؟ کیا میرے نبی ﷺ کی تلوار اپنے ہی ماننے والوں پر چلتی تھی؟
یقین مانئیے، میرے نبی ﷺ تو محبتیں بانٹنے والے تھے۔ وہ تو سلامتی والا دین لے کر آئے تھے۔
آپ کہتے ہیں نا، قرآن کو ہم خواص سے زیادہ کوئی نہیں جانتا تو اٹھائیے قرآن اور میرے نبی ﷺ کا اسوۂ دیکھ لیجیے۔ میرے نبی ﷺ نے تو کبھی کسی کو برا بھلا نہیں کہا تھا۔ وہ تو علی الاعلان کافروں کے ساتھ بھی اخلاق سے پیش آیا کرتے تھے۔ میرے نبی ﷺ نے تو طائف کے ظالموں واسطے بھی ہدایت کی دعا کی تھی۔ قرآن تو کہتا ہے مجھے پڑھنے سے دل موم ہو جاتے ہیں۔ لیکن آپ احباب، جنہوں نے ساری زندگی قال اللہ و قال الرسول پڑھنے میں گزار دی ہے، آپ کے دل جانے کیوں پتھر کے ہو گئے ہیں؟
گستاخی معاف، لیکن کیا آپ بھی آیات قرآن پر عمل کرنے کی بجائے، اہل یہود کی طرح صرف بیچنے پر ہی لگے ہوئے ہیں؟ جو قرآن سے آپ کے دل ہی نرم نہ ہو سکے اور آپ لوگ اپنے ہی مسلمان بھائیوں پر چڑھ دوڑے۔ قرآن تو کہتا ہے مسلمان، مسلمان کے لئے نرم خو ہوتا ہے جب کہ کافروں کے لئے سخت تر۔ لیکن آپ تو اپنے جیسے کلمہ گو مسلمانوں کے لئے دانت تیز کئے بیٹھے ہیں۔
خدارا، یہ روش ترک کیجیے۔ ورنہ جس راستے پر آپ چل نکلے ہیں یہاں صرف بربادی ہی بربادی ہے۔ میرا اور آپ کا دین فلاح کا ہے لیکن یہ جو راستہ آپ اپنائے بیٹھے ہیں یہ فلاح کا نہیں ہے۔ فتویٰ فتویٰ کھیلنے والے معزز عالم دین کا حال تو آپ نے دیکھ ہی لیا ہے کہ ایک دن خود اسی آگ میں جل گئے۔ آپ کے پاس ابھی وقت ہے۔ سنبھل جائیے ورنہ لعنت کی یہ آگ آپ کے مقابل کو ملعون کرے نہ کرے آپ کو ایک دن لازمی ملعون کر دے گی۔
واضح رہے، میرے مخاطب کسی مخصوص فرقہ یا گروہ کے لوگ نہیں ہیں بلکہ ہر دو طرف کے نابغے جو اس فساد فی الارض کو جہاد اور کار خیر اور پتا نہیں کیا کیا اصطلاحیں گھڑ کر سر انجام دے رہے ہیں صرف انہی کے حضور گستاخی کا مرتکب ہوں۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply