• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • معصوم گھریلو ملازمین پر تشدد کے واقعات ایک قومی المیہ ۔۔۔ خواجہ حبیب

معصوم گھریلو ملازمین پر تشدد کے واقعات ایک قومی المیہ ۔۔۔ خواجہ حبیب

زمانہ جاہلیت میں زرخرید غلام مالک کی رعیت میں ہوتے تھے جسے ان پر جسمانی تشدد اور ہر قسم کے سلوک کا اختیار ہوتا تھا مگر ان زرخرید غلاموں کے برعکس آج کے ملازمین و مزدور لوگ مملکت کے آزاد شہری ہیں۔ اکثر آجرین اور عام لوگ انہیں بھی غلاموں سے تعبیر کرتے ہیں جو کہ مطلقاً غلط ہے۔ ملازمین اپنی مرضی اور شرائط پر نوکری کرتے ہیں اور جب چاہے چھوڑ کر جا سکتے ہیں مگر غلام اپنی مرضی کا مالک ہوتا تھا نہ ہی اس کی کوئی شرائط ہوتی تھیں، جس نے خرید لیا بس اسی کے احکامات بجا لانا اس پر فرض ٹھہرتا تھا۔ 

نبی پاک نے غلاموں پر تششد نہ کرنے اور ان سے بہتر سلوک اور انہیں خود جیسا کھانا اور لباس مہیا کرنے کی تاکید کی اور انہیں آزاد کرنے کی ایک تحریک برپا کر دی مگر آج ان کے نام لیوا امتی الٹا آزاد لوگوں کو مختلف ہتھکنڈوں سے “غلام سا” بنا کر ان سے غیر انسانی سلوک کرتے ہیں جس سے پوری دنیا میں پاکستان مزاق و تنقید کا نشانہ بنتا ہے۔ 

غلامی ختم کرنے کا جو بیڑہ پیغمبرِ اسلام ﷺ نے اٹھایا تھا اس کو منطقی انجام پر پہنچانے والے دراصل وہی ہیں جن کی تاریخ اس ضمن میں سیاہ ترین تھی۔ بدترین تاریخ کے حاملین امریکیوں نے پہلے اپنے ملک میں اور پھر پوری دنیا میں غلامی کی فرسودہ و قدیم رسم کا خاتمہ کیا اور یونائیٹڈ نیشن کے چارٹر کا اجراء کروایا جس کی رو سے “ہر فرد چاہے کسی بھی رنگ و قبیلے یا قوم کا ہو، حقوق اور وقار میں آزاد اور برابر ہے۔ ہر فرد زندگی، آزادی اور اپنی حفاظت کا حق رکھتا ہے”۔ تمام ممبر ممالک اپنے آئین میں اس حق کی ضمانت دیتے ہیں۔ 

ایسی ہی ضمانت پاکستان کے آئین میں بھی موجود ہے مگر یہاں آئین و قانون کی عدم تعمیل کے سبب غلامی کے دوسرے طریقے پروان چڑھے ہیں۔ شکاری پھندا لے کر بیٹھے ہیں شکار پکڑنے کیلیے، آزاد لوگوں کو غلام بنانے کے لیے۔ ان میں سے ایک طریقہ تو بھٹہ لیبر کو یرغمال بنا کر بیگار پر کام لینے جیسا ہے۔ مجبور و لاچار مزدور ایک بار بسبب مجبوری سفاک بھٹہ مالکان سے قرضہ لے بیٹھے تو وہ قرضہ پھر کبھی اتر نہیں پاتا۔ ایک وقت آتا ہے پورا خاندان لگ کر بھی کام کرتا ہے تو قرضہ موا پھر بھی وہیں کا وہیں ہی رہتا ہے۔ کئی لوگ سسک سسک کر مر جاتے ہیں تو کچھ کے زندہ جلائے جانے کے بھی واقعات ریکارڈ ہوئے ہیں۔ 

جدید غلامی کی دوسری صورت ممنوعہ چائلڈ لیبر کی ہے جس میں مجبور و لاچار والدین کے بچے مافیا کے ایک ہاتھ سے دوسرے اور پھر تیسرے ہاتھ سے ہوتے ہوئے آجر گھرانے تک پہنچتے ہیں جہاں تمام مرد و زن، کیا چھوٹا کیا بڑا، کام والے بچے سے ظلم اور ناروا سلوک روا رکھتے ہیں، بات بات پر تھپڑ جڑے جاتے ہیں، مکے اور لاتیں برسائیں جاتی ہیں اور جب ذہنی تسکین نہیں ہوتی تو سلاخوں اور ڈنڈوں سے بھی پیٹا جاتا ہے۔ بات اموات تک جا پہنچتی ہے مگر کچھ لے دے کر معاملہ نمٹا لیا جاتا ہے۔ قانونی کاروائی تو محض مشقِ لاحاصل ہے جس سے عبرت تو کیا ہو، قانونی موشگافیاں کھل کر سامنے آ جاتی ہیں جو سول سوسائٹی، این جی اوز اور وکلاء ٹیم کا خوب منہ چڑاتی ہیں۔ 

اب تک قومی سطح پر منظرِ عام پر آنے والے ملازم بچوں پر تشدد کے ایسے کیسز میں ملتان کی مخدوم فیملی کے ہاتھوں کم سن کی موت اور دیگر شہروں میں وکیل اور جج والے کیسز کافی مشہور ہوئے جن کے بعد اب ملٹری افسر کا کیس بھی سامنے آیا ہے۔ یوں یہ ہمارا ہمہ گیر قومی رویہ بن چکا ہے جس سے کسی شعبۂ زندگی کو استشنی حاصل نہیں۔ راولپنڈی کے اس کیس میں گیارہ سالہ کنزا نام کی بچی پر تشدد ثابت ہوا ہے۔ 

بچی کی تصاویر اور ویڈیو کلپس الیکٹرانک و سوشل میڈیا پر دکھائے جا رہے ہیں جن سے مزکورہ اعلی تعلیم یافتہ فیملی کی سفاکیت عیاں ہوتی ہے۔ معصوم بچی سے ایسا غیر انسانی سلوک جہاں مجرموں کی تعلیم و گھریلو تربیت پر ایک بہت بڑا سوال ہے وہیں اخلاقی و مزہبی اقدار کے فقدان اور ان کی دماغی حالت کی بھی چغلی کھا رہا ہے۔ 

ورکشاپ کے چھوٹوں کی نسبت تعلیم یافتہ پروفیشنلز کے گھروں میں کام والے بچوں پر تشدد کے پے در پے واقعات اور انکی شدت یہ ظاہر کرتی ہے کہ پڑھے لکھے لوگ بھی حقیقت میں کتنے بڑے جاہل اور سفاک ہو سکتے ہیں۔ 

آزاد ملازم و مزدور لوگ زرخرید غلاموں کی نسبت کہیں بہتر سلوک کے مستحق ہیں جبکہ پھول سے بچے تو اس سے بھی کہیں زیادہ عفو و درگزر اور شفقت و راحت کے حق دار ہیں۔ معصوم بچوں کی معمولی سی غلطیوں کی اتنی سفاکانہ سزا؟ اور پھر بھی ان کا اصرار ہے کہ یہ دنیا بھر سے اچھے مسلمان ہیں؟ عجب زعم ہے بھئی!

ہم عربوں کا رونا تو بہت روتے ہیں کہ پاکستانی لیبر پر سراسر زیادتیاں کرتے ہیں اور پھر اسی سانس میں ورکرز سے بہتر سلوک کرنے اور ان کو شہریت دینے والے یورپی ممالک پر تنقید بھی اپنا حق سمجھتے ہیں۔ یہی یورپی ممالک کوشاں ہیں کہ ہمارے ملک میں معاشرہ اس نہج پر بالغ النظر ہو کہ بچوں کو لیبر پر لگانے کی بجائے انہیں سکول بھیجے اور ان کی بہتر نگہداشت اور تعلیم کو یقینی بنائے۔ جب ہم یہ کام خود نہیں کریں گے تو مغرب کی پروردہ این جی اوز کریں گی اور پھر صاف ظاہر ہے انہیں جگہ جگہ پرایا لُچ تلنے کا موقع بھی ملے گا۔ قوم کے اجتماعی گریبان میں کوئی جھانکنے والا نہیں ہے کہ قومی ضمیر ملاحظہ کر پئے اور اندازہ لگا پائے کہ یہ قوم کس قدر منافقانہ رویوں اور کس طرح کی تنزلی اور ترقی معکوس کا شکار ہو چکی ہے؟

بچوں کے تحفظ کے عالمی کنونشن پر چونکہ پاکستان نے بھی دستخط کر رکھے ہیں لہذا آئین ان پر مکمل عملدرآمد کا پابند بناتا ہے۔ مقامی قوانین میں امتناعِ چائلڈ لیبر کا قانون تو موجود ہے مگر مزید قانون سازی اور پھر بھرپور اطلاق کی اشد ضرورت ہے۔ کیا ہی بہتر ہوتا کہ بچوں کے حقوق کے عالمی چارٹر سے قبل ہی ہم نبی مکرم کی تعلیمات کے مطابق اپنے چھوٹوں کے حقوق پر نہ صرف نگہبان ٹھہرتے بلکہ اس شعور کی طرف باقی دنیا کی بھی راہنمائی کرتے۔ اقوام متحدہ کے بیشتر چارٹرز ہوں یا کنونشنز، ہم نہیں تو اغیار تو انہی تعلیمات و اسباق سے ہی قوانین اخذ کر رہے ہیں۔ اب لاچار ہمیں انہی پر بخوبی اطلاق کرنا ہو گا جن پر ہم پہلے سے دستخط کر چکے ہیں۔ 

Advertisements
julia rana solicitors london

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply