فرض کفایہ۔۔۔۔۔عارف مصطفٰی

میں جو الجھتا پھرتا دکھتا ہوں
مخالف لہروں سے لڑتا رہتا ہوں
سماعتوں پہ بوجھ بنتا ہوں
ذلتیں بھگتتا ہوں بدنام ہوتا ہوں
تم کیا سمجھتے ہو
مجھے خبر نہیں کیا
نامقبول ہونا
بہت سی بارگاہوں کا مردود ہونا
کتنا خسارے کا سودا ہے
اس میں نقصان فقط اپنا ہی ہوتا ہے
ایسا دریدہ دہن کب کسی کا محبوب ہوتا ہے
لیکن کروں بھی تو کیا
سارا فساد میری تنقیدی سوچ کا ہے
حقائق کی جانچ اور اصلیت کی کھوج کا ہے

بہت ہی لاعلاج سا ہے میرا مرض
ہرسانس کو میں سمجھتا ہوں قرض

میرا وجدان نقابوں کے پیچھے
مکروہ چہروں کو دیکھ لیتا ہے
اور اسی لیئے پھر یہ ہوکے رہتا ہے
کہ میری بصارت جب بھی
نا مطلوب منظر دکھاتی ہے
بونوں کو دیو بنتا دکھاتی ہے
شیطانوں کو سادھو سا دکھاتی ہے
میری بصیرت اسی وقت حرکت میں آتی ہے
کیونکہ قسم کھا رکھی ہےمیں نے
کسی باطل سے نہ دبنے کی
ظلم کے سامنے نہ جھکنے کی
سر اٹھا کے چلنے کی
سنو میں تم سےدور سہی
الگ پھر بھی نہیں
سوچتے تم بھی یہی ہو
پر مانو گے نہیں

میں دراصل تم ہو اور تم دراصل میں ہوں
مجھے اندر ہی پاؤگے گر ڈھونڈو کہاں ہوں
تمہارے ضمیر کی آواز ہوں میں
ہرایک من میں بجتا ساز ہوں میں

بس کچھ فرق ہے تو یہ کہ
تم خود سے چھپتےہو
بڑی کوشش سے بچتے ہو
اپنے اندر اٹھتے شوریدہ سرسوالوں سے
انکے ابلتے کھولتے پگھلتے جوابوں سے

Advertisements
julia rana solicitors

مجھے لیکن ایسا کرنا نہیں آتا
گواہی کے وقت
خاموش ہونا چپ رہنا نہیں آتا
لیکن یاد رکھو ۔
میرا بولنا
جذبوں کو رویوں کو
معیار کی میزان پہ تولنا
تم سب کی جانب سے اک فرض کفایہ ہے
لاریب ۔ زندگی حرف حق ہے باقی مول مایا ہے

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply