• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • بغداد کی ال شابندر کافی گھرمیں بغدادیوں سے ملنا۔۔۔۔۔سلمی اعوان/قسط 4

بغداد کی ال شابندر کافی گھرمیں بغدادیوں سے ملنا۔۔۔۔۔سلمی اعوان/قسط 4

نجف اشرف اور کوفے میں ڈاکٹر حمیدی دولانی سے ملنا۔۔۔۔۔سلمٰی اعوان/قسط 3

Advertisements
julia rana solicitors london

یہ کربلا معلی سے بغداد کیلئے واپسی کا سفر تھا۔گاڑی میں بیٹھنے سے قبل میں نے صبر و رضا کے پیکر امام عالی مقام و ذی شان کے روضہ مبارک کے چمکتے گنبد کو الوداعی نظروں سے دیکھا اور دھیرے سے کہا۔
”آپ کا شکریہ۔آپ نے بُلایا۔دیدار کروایا۔مجھے تو کبھی اِس دید کی آس امید ہی نہیں تھی۔“
تاحد نظر پھیلے صحرا کو دُور ملگجے آسمان سے بغل گیر ہوتے دیکھتے،ہواؤں کے بگولوں کے سراٹے مارتی پُھنکاروں کو محسوس کرتے، خس  و خاشاک کو یہاں وہاں چھلانگیں مارتے اور گرتے دیکھنا سب بہت دلچسپ تھا۔
مجھے اپنے کمرے کی ساتھی خواتین یاد آئی تھیں جنہوں نے مجھ جیسی آوارہ گرد خاتون کو محبتوں سے الوداع کہا تھا۔جو میرے گھر جانے پر خوش تھیں۔انہیں تو ابھی ایران کا سفر درپیش تھا۔
افلاق کو خوشی تھی کہ اُس نے میرے ناں ناں کرنے کے باوجود مجھے بورسپہBorsippa دکھا ہی دیا۔
”آپ کو نہیں پتہ سیاحتی نقطہ نگاہ سے یہ کتنی اہم چیز ہے؟گو اسکی ابھی تک تشہیر زیادہ نہیں ہوئی۔عام لوگوں کوتو پتہ ہی نہیں کہ یہ عظیم بابلی دیوتا مرڈک کے بیٹے نبوNabuکی جائے عبادت تھی اور مذہبی طور پر اس کی کتنی اہمیت تھی؟
”چلو اچھا ہوا میں بھی اسے نہ دیکھ پاتی تو افسوس رہ جانا تھا۔مڑ  کر دوبارہ کب آنا نصیب ہے؟“
میری آنکھوں کے سامنے بورسپہ کے منظر رقص کرنے لگے تھے۔ آسمان اور زمین پر اس وقت شام کا حُسن پھیلا ہوا تھا۔اردگرد کے ماحول کی ویرانی،گونجتا سناٹا اور سورج کی زرنگاری نے بڑے عجیب سے منظروں کی آمیزش سے گندھے نظاروں کے سنگ متوجہ کیا تھا۔ دور سے اونچے تہہ در تہہ چبوتروں پر کھڑے دو مجسمے باہم ہم آغوش نظر آتے تھے۔دراصل یہ کبھی بلند مینار تھا۔کِسی دم دار ستارے کے ٹوٹنے اور اِس سے ٹکرانے کی وجہ سے پگھل کر یہ شکل اختیار کرگیا ہے۔
”چلو اِس نے جو شکل اختیار کی ہے وہ اچھی ہے۔یہ زگورت Ziggurat سٹائل ہی تھا۔کبھی ہونگی چھ سات منزلیں اب تو ٹیلا سا نظر آتا تھا۔افلاق نے مجھ سے اوپر چڑھنے اور تصویر بنانے کا پوچھا۔میں نے ہنستے ہوئے کہا۔
”تم چاہتے ہو یہاں میری قبر بن جائے۔بس میں نے دیکھ لیا ہے۔مجھے اس کے اندر بھی نہیں جانا۔“
بغداد پہنچ کر مجھے ہجری ہوٹل میں ٹھہرنا تھا۔اس چار ستارہ ہوٹل کا انتظام افلاق نے کیا تھا۔یہ دجلہ کے دہانے پر واقع کاظمیہ کے علاقے میں تھا۔جس سے بہرحال میں کافی واقف ہوچکی تھی۔میں نے بھی دل میں کہا تھا۔
”چلو یہ زبردستی کی عیاشی کرلوں۔وگرنہ تو جس طرح میں رہی تھی اُس نے حشر کرڈالا تھا۔
آج کی شام مجھے بغداد پریس کلب جانا تھا۔بغدادی صحافیوں سے ملنا تھا۔کاش میری ملاقات اُس جیالے لڑکے منتدرل زیدی سے ہوسکتی جو بیچارہ جیل کاٹ رہا تھا۔
افلاق نے مُجھے اپنے چچا کے گھر کی آفر کی تھی۔الحریت میں چھوٹا سا گھر جو صرف دو کمروں پر مشتمل تھا۔ایک کمرے میں چچا چچی اور دوسرا افلاق کے پاس تھا۔کربلا سے واپسی پر میں سیدھی انکے گھر آئی تھی۔اپنی جان کیلئے خاصی کمینی ہونے کی وجہ سے میں نے ایک پل کیلئے سوچابھی کہ چلو اِس کی دعوت قبول کر لیتی ہوں۔مگر دوسرے لمحے  سارے خاندان کو اپنے دو پیسے بچانے کیلئے مصیبت میں ڈالنے کا سوچتے ہی انکار کردیا۔
یہ بھی کیسا عجیب اتفاق تھا کہ افلاق نے بہت بار چاہا اور کہا کہ چچی اور چچا آپ سے ملنا چاہتے ہیں۔آپ دوپہر یا رات کو گھر چلئیے۔مگر بات وہی دانے پانی کی۔اُن کی ہنڈیا میں میرے نام کی کوئی چیز پکتی توجاتی۔کبھی رات دیر ہوجاتی اور کبھی میرا تھکن سے بُرا حال ہوتا اور کبھی دوپہر کو آرام کیلئے میں قریب ترین مسجد کو زیادہ مناسب سمجھتی۔
میرکاروان سے افلاق مل چکا تھا۔ایک دن مزید مجھے بغداد رہنا تھا۔اگلے دن شام کو میری بغداد سے روانگی تھی۔مجھے ٹکٹ کہاں سے لینا تھا؟اُس کا انتظام بغداد میں جس شخص کے ذمہ تھا اُس کا نام و پتہ اور رابطہ نمبر سب مجھے دے دیا گیا تھا۔
الحریت کا علاقہ کاظمیہ میں تھا۔کہیں دو منزلہ،کہیں یک منزلہ گھر۔گلی کافی کشادہ تھی۔ایک سرے پر ہمارے ہاں کی طرز پر جھولے والا جھولے میں محلے کے بچوں بالوں کو جُھولے جُھلا رہا تھا۔لوہے کے تین مضبوط پائپوں کی تکونی صورت راڈوں میں نیلے،پیلے بدرنگے ڈبوں میں بچے بچیاں بیٹھے اوپر نیچے جھول رہے تھے۔ہنس رہے تھے۔بے فکری کے دن دھوپ گرمی ہر احساس سے بے نیاز۔
چھوٹے سے آنگن میں کجھور کا درخت کجھوروں سے بھرا ہواتھا۔ابھی شاید اُتاری نہیں گئی تھیں۔سامنے کے رُخ پر باورچی خانہ تھا۔ایک طرف چھوٹا سا مہمان خانہ۔آگے برآمدہ اور پیچھے دو کمرے۔گھر میں اتنی صفائی ستھرائی تھی کہ چھوٹا ہونے کے باوجودبہت اچھا لگ رہا تھا۔کمرے میں چھوٹی سی کھڑکی پر بڑا سا ہرے رنگ کا پردہ لٹک رہا تھا۔ہرے رنگ کا میٹ بچھا ہوا تھا۔دیواروں کے ساتھ روئی کے بھرے ہوئے لانبے ڈھائی تین فٹ چوڑے سرخ اور نیلے پھولوں والے گدے بچھے ہوئے تھے۔کونے میں رکھی میز پر ٹی وی چل رہا تھا۔
تھوڑی دیر میں زوحیل کریم آگئی۔افلاق کی چچی۔عبایا پہنے حجاب اوڑھے سُرخ و سفید سی ہنستے ہوئے اُس نے میرے دونوں گالوں پر باری باری بوسے دئیے۔
افلاق نے بتایا تھا کہ وہ ساتھ والے گھر گئی ہوئی تھی۔اُن کی بیٹی کی منگنی ہوئی ہے۔مبارکباد دینی تھی۔
پانی آیا۔تھوڑی دیر بعد قہوہ آیا۔پلیٹ میں بے حد گرم خبض(تنوری نان کہہ لیں) پر پگھلی کریم جس پر شمال کے پہاڑوں کا بے حد لذیز شربتی شہد بکھرا ہوا تھا۔میری آنکھیں چمکیں اور ہاتھوں نے فی الفور بُرکی توڑتے ہوئے اُسے شہد اور کریم میں ذرا کوٹا۔ہائے کیا لذت تھی؟قہوے کا ساتھ میں گھونٹ۔ہمارے دیہاتوں جیسا جہاں گرما گرم تنوری روٹی مکھن کے پیٹرے پر راب(گڑ بننے سے ذرا پہلے کا حاصل ہونے والا مواد)سے کھائی جاتی ہے۔تھوڑے سے فرق سے ایک سا کلچر۔
مجھے قہوہ پینے میں اتنا لُطف و سرور کبھی نہیں محسوس ہوا تھاجتنا میں نے اس وقت محسوس کیا تھا۔شاید یہ خالصتاً گھریلو ماحول کی قربت کا اثر تھا۔چھوٹے چھوٹے گھونٹ بھرتے ہوئے افلاق کی چچی سے آنکھوں کے اشاروں سے باتیں کرنا کہیں سمجھنا،کہیں نا سمجھنا،افلاق کا ترجمہ کرنا،کھلکھلاکرہنسنا سب مجھے مزہ دے رہے تھے۔
ٹی وی پر عراقی نیشنل سمفنی آرکسٹرا کا کوئی پرانا ریکارڈ کیا پروگرام چل رہا تھا۔رِک(Riq)اور ڈرم بجانے والے لڑکوں کی وجاہت بے مثال اورگٹار بجاتی لڑکیاں بھی کتنی خوبصورت اور دل آویز سی تھیں۔میں تو انہیں ہی دیکھے چلی جارہی تھی۔
آرام کیا خاک کرنا تھا۔لوڈشیڈنگ کا حال ہمارے ملک جیسا ہی ہے۔ذرا سی اُونگھ آتی تو آنکھ کھل جاتی۔زوحیل میرے قریب ہی بیٹھی ایک رسالہ پڑھ رہی تھی۔پوچھا تو پتہ چلا کہ خواتین کا پرچہ ہے جو قاہرہ سے چھپتا ہے۔کہانیاں معاشرتی قسم کی ہی تھیں۔میں نے قدیم شعرا کے بارے میں بات چیت کی کوشش کی تو جانی کہ زوحیل صرف ان کے ناموں سے آشنا ہے یا اُس کلام سے جو گایا گیا ہے۔ہاں البتہ وہ دُنیا میخائل اور نازک الملائیکہ سے خوب واقف تھی۔”عاشقات اللیل“ اُس کا ایک مجموعہ بھی اُس کے پاس تھا جسے وہ اپنی الماری سے نکال کر فوراً لے بھی آئی تھی۔آزاد نثری نظم کی خالق
شاعری کو نیا رنگ،نیارُخ،نئی فکر اور نئی سوچ دینے والی خوبصورت آواز اور خوب رو چہرے والی شاعرہ جو 2007میں دنیا سے رخصت ہوگئی۔
کاش مجھے اپنے قاہرہ قیام کے دوران معلوم ہوتا کہ وہ قاہرہ میں ہے تو میں اُسے پوچھ پوچھ کر ڈھونڈنے نکل کھڑی ہوتی۔میں بھی عجیب عورت ہوں۔
پانچ بجے قہوہ پینے کے بعد گھر سے نکلے اور یہ کہوں گی کہ اُس سارے دن کا ماحصل اُن دو گھنٹوں کا دورانیہ تھاجو میں نے المتنابی سٹریٹ کی ال شابندر کافی شاپ میں گزارے تھے۔میں المتنابی سڑیٹ کی باقاعدہ سیرکربیٹھی تھی۔افلاق سے سُن سُن کرروز متاثر تھی کہ علم کا گہوارہ ہے یہ بازار۔پھر ایک دوپہر میں آرام کرنے کی بجائے اُسے دیکھنے نکل پڑی کہ مسجد اس کے ہمسائے میں تھی مگر ال شابندر کافی گھر نہ دیکھ سکی۔آج افلاق اِس تاریخی کافی ٹی ہاؤس میں لے آیا تھاجسکی کھڑکیوں سے دجلہ لشکارے مارتا ہے۔
دومنزلہ عمارت بالکونیوں اور آ ہنی چھجے دار شیڈوں کے ساتھ کونے پر گولائی کی صور ت پھیلی ہوئی تھی۔
دیوار کے ساتھ جڑی سیٹیں، چوبی ڈیزائن دار خم کھاتے صوفے آمنے سامنے دھرے،اُن پر بیٹھے دل کش عراقی مرد کہیں پینٹ قمیضوں اور کہیں توپ میں ملبوس اخبار پڑھتے،کہیں قہوہ پیتے،کہیں کونے میں نرد کھیلتے نظر آئے تھے۔
جب ہم داخل ہوئے۔ افلاق نے باآواز بلند”الباکستان الباکستان“ کی تکرار کرتے ہوئے عربی میں یقینا میرے متعلق کچھ کہا ہوگا۔میں نے دیکھا تھا پورا کمرہ جیسے متوجہ ہوکر میرے چہرے پر جم گیا تھا۔میں نے مسکراتے ہوئے انگریزی میں اپنے بارے بتایا۔
بیٹھنے کے تھوڑی دیر بعد چھوٹی سی نفیس پلیٹ میں دھری قہوے کی گلاسی پیش کی گئی جو درمیان سے کِسی نازنین کی پتلی کمر کی طرح بل کھاتی تھی۔
باتیں شروع ہوئیں۔ظاہر ہے صدام ہی کی بابت پہلی بات ہوئی۔
کونے سے ایک نوکیلی آواز ابھری۔”ارے اُس نے تو اگلے سو سال بھی ہماری جان نہیں چھوڑنی تھی۔“
”مگر اب کیا ہورہا ہے؟“میں نے بھی فوراً سوال داغ دیاتھا۔
میرے قریب بیٹھے ایک نوجوان نے پل نہیں لگایا اور فی الفور بول اٹھا”اب جو ہو رہا ہے یہ اِن حرامزادوں کی بدنیتوں کی وجہ سے ہُورہا ہے۔کب تک یہ خانہ جنگی کا بازار گرم رکھیں گے۔ایک دن تو انشاء اللہ ایسا آئے گاہی جب لڑتے مرتے ایک دوسرے کا گلا کاٹتے اِن عقل کے اوندھوں کو سمجھ آجائے گی۔ اُس بدبخت کے زمانے میں تو آپ ہمہ وقت سولی پر لٹکے رہتے تھے۔ سگے رشتوں تک اعتماد نہیں رہا تھا۔“
میرے سامنے بیٹھے ایک عمر رسیدہ شخص نے متانت سے کہا تھا۔”سچی بات ہے ہم اگر صدام کی دفع دوری چاہتے تھے تو ہمیں یہ کب گوارہ تھا کہ یہ منحوس آکر ہمارے سروں پر بیٹھ جائیں۔مگر کیا کریں جی ذلیل حکمران کی حماقتوں نے ہمیں یعنی عام آدمی کو تو مروا دیا نا۔“
میرے عقب سے ایک بھاری سی آواز سنائی دی۔
میں نے رُخ پھیر کر دیکھا سُرخ و سفید سا بوڑھا بڑی شتہ انگریزی بول رہا تھا ”میں الرشید سٹریٹ میں ایک قدیمی سیلون کا مالک ہوں۔امریکی سپاہی میرے ہی سیلون میں باقاعدگی سے آتے ہیں مگر کیا مجال کہ وہ ہتھیار اپنے جسموں سے پل بھر کیلئے الگ کریں۔بے شک کٹنگ خراب کروا لیں۔نہ انہیں ہم پر اعتماد ہے اور نہ ہی ہمیں اُن پر۔وہ بھی ڈرتے ہیں کہ اُسترے بلیڈ سے کھیلتے کھیلتے ہم کہیں انہی سے اُن کا گاٹا نہ کاٹ دیں اور ہم بھی خوف زدہ رہتے ہیں کہ گودوں میں رکھی بندوقوں کا رُخ پل جھپکتے میں ہماری طرف نہ ہوجائے۔“
ایک اور نے لقمہ دیا۔”انہوں نے صدام کو تو ہٹا دیا مگر ملک برباد کردیا۔وہ ہمارے لئیے نہیں اپنے مقاصد کیلئے آئے ہیں۔اور ساتھ ہی گالیوں کی بوچھاڑ تھی۔وہ ہمیں آزادی دلانے نہیں بلکہ حملہ آور بن کر ہمارا تیل لوٹنے آئے ہیں۔“
ایک اور آواز گونجی تھی۔”صدام شیعاؤں کا تخم مارنا چاہتا تھااور یہ شیعاؤں کو آگے رکھ کر ان کے کندھوں سے بندوقیں چلوا رہے ہیں۔سُنی شیعہ فساد ہی ان کی تر جیح ہے۔“
آوازوں میں سے ایک اور آواز ابھری تھی۔”چھوڑیئے آپ تو جہاں سے آئی ہیں وہ بھی ایسے ہی حالات کا شکار ہے۔
میں نے فوراً اس آواز کی طرف توجہ کی تھی اور مسکراتے ہوئے کہا تھا۔”آپ نے کتنی صحیح بات کی ہے۔یہ درد تو مشترکہ ہے۔“
پھر جیسے جسم و جان میں رچے ہوئے گُھلے ہوئے دردوں میں سے کچھ کراہیں باہر نکلیں۔آغاز میں اکثریت کا خیال تھا کہ ان کے ملک پر امریکیوں کا قبضہ بہت فائدہ دے گا۔ان کے پاس بہت دلائل تھے۔مگر اب سبھوں پر حقیقت آشکار ہوگئی ہے۔لوگوں کو اپنے خاندانوں کے مالی حالات خراب ہونے،لوڈشیڈنگ،صاف پانی،فیول،صحت اور تعلیم جیسے مسائل کے تباہ ہونے کا دُکھ ہے۔
قہوے کی دوسری پیالی میرے ہاتھوں میں تھما دی گئی تھی۔
میں دیواروں کو دیکھتی تھی۔عراق کی جدوجہد کی تاریخ بلیک اینڈ وائٹ تصویروں کی صورت فریموں میں قید وہاں ایک ترتیب سے لگی ہوئی تھی۔
کچھ غم کتنے سانجھے ہوتے ہیں۔
پھر جیسے دو تین منچلوں نے گیت گانا شروع کر دیا۔مجھے بے اختیار نیلم احمد بشیر یاد آئی تھی۔ایسی ہی منچلی سی، کہیں خاص،کہیں عام کِسی بھی جگہ وہ تان کیا اٹھاتی سیما پیروز اور حزیں انجم جہاں اور جیسی ہیں کی بنیاد پر فوراً اُسکی ہم آہنگ ہوجاتیں۔وہ سماں بندھتا کہ محفل شرابور ہوجاتی۔
کچھ ایسا ہی حال یہاں تھا۔میں سمجھ نہیں رہی تھی مگر ماحول میں جو ترنم اور دردسا گھلا ہوا تھا۔ وہ سمجھ نہ آنے کے باوجود محسوس ہوتا تھا۔ ا فلاق انگریزی میں مجھے بتا رہا تھا۔یہ بغداد کا نوحہ ہے۔میں بغداد ہوں۔میرا نام بغداد ہے۔افلاق نے مجھے اگلے دن اِسکا انگریزی ترجمہ دیا۔پڑھئیے اِسے۔
بغداد میرا نام ہے
قیمتی پتھروں سے سجے اور سیاہ سونے سے بھرے ہوئے
میرے محل
دجلہ کے پانیوں کا بہاؤ جیسے شیشے کے تختے
ہزاروں خلفاء میری تاریخ کے صفحات
وہ جنہوں نے مجھے عظمت و وقار کا شہر کہا
مجھے روشنیوں کا منبع قرار دیا
خدایا وقت کتنی جلدی گزر گیا
او خدا کیسے ہر شے مٹ جاتی ہے
بغدا د ہے میرا نام
میں تو ٹینکوں کی آگ میں گر پڑا ہوں
میری شہزادی شہرزاد کا چہرہ گہنا گیا ہے
بھول جاؤ
بھول جاؤ مجھے
میں تو اپنی سرزمین پر
بلڈوزوں کے سائے میں
سانس لیتا ایک بھکاری ہوں
بغداد ہے میرا نام
اور جب میں وہ وہاں سے اٹھی تھی میرے اندر نے بے اختیار کہا تھا۔”پروردگار کب اِن راندہ درگاہ قوموں کو حیات نو ملے گی۔کب؟ کب میرے مولا۔
پیدل چلتے ہوئے قدیمی شہر کے گلی کوچوں سے گزارتے، عراقی اپر کلاس کے چجھے دار بالکونیوں کے طرحدار ڈیزائنوں اور انگوروں کے خوشوں کی طرح ساتھ ساتھ جڑے گھروں کو دکھاتے افلاق مجھے ایک ڈھابہ قسم کے ریسٹورنٹ میں لے آیا تھاجہاں جگر اور دل گرل کیلئے کبابوں کی صورت کھاتے ہوئے میں نے بہت لُطف اٹھایا تھا۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply