سائنس کے باغی۔۔۔۔حفیظ الرحمن رحمٰن

گاؤں سے دور پہاڑوں کے بیچ ہمارا گھر تھا اور ساتھ بڑے دل والے پڑوسیوں کے چھوٹے چھوٹے گھروندے تھے۔جس طرح لوگوں کو محبت ہوجاتی ہے اسی طرح بچپن سے ہمیں سائنس ہوگیا تھا، بلکہ میں پیدائشی سائنسدان تھا لیکن بعد میں بگڑ کر انسان بن گیا۔

بات کچھ یوں ہے کہ جیسے ہی میں اس سیارے پر نمودار ہوا تو پانچ سال تک مسلسل ایک خاص فریکونسی کیساتھ روتا رہا، میرا رونا زمین کا سورج سے روٹھ جانے سے لیکر پھر دونوں کے گلے لگ جانے ( یعنی شام سے صبح ) تک جاری رہتا۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ان  برسوں میں ہمارے محلے میں روئی کافی مشہور تھی، کیونکہ بیچارے پڑوسی صبح تک مجھے برداشت کرنے کیلئے کانوں میں روئی ٹھونس لیتے، ہمیں اگر اس وقت کچھ سمجھ ہوتی تو ضرور انہیں کانوں میں ایلفی ڈالنے کی تجویز دے کر یہ مسئلہ ہمیشہ کیلئے حل کرنے میں انکا ہاتھ بٹادیتے۔
صبح صبح سورج کی کرن پہنچنے سے قبل، مرغ کی  اذان کیساتھ ہی پڑوس کی ساری عورتیں میری ماں کے پاس جمع ہوجاتیں، اور زبیدہ آپا کی طرح مختلف ٹوٹکے بتاکر اپنی سائنس اس پیدائشی سائنسدان پر چیک کروانے کا موقع پالیتی۔ ماں جی بھی تنگ آچکی تھی وہ بھی کافی تجربات کرچکی تھی، لیکن ان کا سائنس میرے رونے کے آگے بے بس تھا۔

خیر وقت کو تو گزرنا تھا، اگر ٹھہر جاتا تو ضرور محلے والوں کو یہ محلہ چھوڑنا پڑتا۔ ہم بھی رونے والے دور سے ذرا نکل گئے اور سکول جانا شروع کردیا، اب سائنسی شرارتیں بھی عروج پر تھیں۔ نالیوں میں مختلف جسامت کے پتھر پھینک کر پانی کی چھینٹوں سے لطف اندوز ہونا، مرغیوں کے انڈے چراکر ریت میں چھپانا، بکریوں کے کان میں چیخیں مارکر انکی برداشت معلوم کرنا، گرم میدان پر پانی ڈال کر چل دینا وغیرہ۔
زندگی کی خوفناک و خاموش راتیں اور تازہ و چہچہاتی سحریں گذرتی گئی، ہم بھی ساتھ ساتھ بڑھتے گئے۔ سکول میں سائنس کا مضمون پڑھنے کو ملا تو میرا سائنسی بخار 102 کو کراس کرنے لگا، لیکن کتابوں کے سائنسی نظریات اور میرے ذاتی تجربات کی آپس میں نہ بن سکی۔ دونوں ایکدوسرے سے کافی مختلف تھے۔

سائنس کا کہنا تھا کہ کسی شے پر قوت لگادی جائے تو اس میں حرکت پیدا ہوتی ہے، میں نے دیوار پر کئی دھکے لگاکر دیکھا لیکن ہلنے کا نام ہی نہیں لے رہی تھی۔
سائنس کے مطابق ٹھوس شے کو حرارت دیکر مائع میں تبدیل کیا جاسکتا ہے، ہم نے انڈے کو توے پر ڈال کر گرم کیا تو وہ مائع سے ٹھوس بن گیا۔
دھویں کو سائنس کی قانون کشش ثقل کے خلاف اوپر جاتے ہوئے دیکھا تو حیرت کی انتہا نہ رہی۔
تب سے کتابی سائنس پر سے اعتبار اٹھنے لگا، ہم اقتدارِ سائنس کی کرسی سے پھسلنے لگے، سائنس ہماری نظر میں ایک مجرم کی طرح اپنی ساکھ کھونے لگی، اور ہم ایک ناکام عاشق کی طرح سائنس کو دل کی گلی چھوڑتے ہوئے دیکھتے رہ گئے۔
اب ہم باغی بن گئے، سائنس کے باغی۔

Advertisements
julia rana solicitors

اسباب بغاوت سائنس میں ایک سبب ہمارے سائنس کے معلم بھی تھے، جو کہ گاندھی کی طرح گول چشمہ لگائے ہوتے لیکن ہمیں کبھی بھی اچھے نہ لگے۔۔۔۔کیونکہ گاندھی کے برعکس انکا نظریہ عدم تشدد کی بجائے عزم تشدد کا تھا۔وہ کمرہ جماعت میں داخل ہوتے ہی ہماری ذہنی استطاعت ناپنا شروع کردیتے، اور کمی کو پورا کرنے میں ڈنڈے کی طاقت کے قائل تھے۔ اور ہم تھے کہ ڈنڈوں کے سایے تلے جینا پسند نہیں کرتے تھے۔ اس لئے سائنس کے باغی ہوگئے اور انسان کے تخیلاتی مجموعہ یعنی ادب میں اپنا گھونسلا بنانے لگے۔۔۔
خدا کرے کہ یہاں گاندھی کے چشموں والے انسان کا سامنا نہ ہوں۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply