گھٹیا افسانہ نمبر 3۔۔۔۔۔۔فاروق بلوچ

گھٹیا افسانہ نمبر 1۔۔۔۔فاروق بلوچ

گھٹیا افسانہ نمبر 2۔۔۔۔۔۔ فاروق بلوچ

ابھی تو محفل گرم ہو رہی ہے. شراب آدھی باقی ہے. چرس کے بیسیوں سگریٹ پیے جا چکے ہیں. شوگران میں سردی نے اَت مچا رکھی ہے. آگ کا آلاؤ تھمنے نہ پائے، اِس کا انتظام مکمل ہے. ابھی کباب بھی آدھے پڑے ہیں. بار بی کیو والے نے خاصی ہمت دکھائی ہے. نہ مصالحہ کم کہ زبان بےذائقہ نہ مصالحہ زیادہ کہ حلق پہ وار کرے، نہ کچی نہ جلی ہوئی، ایک اک بوٹی جنت سے اتری ہوئی لگ رہی ہے. اچانک میزبان نے میری طرف اشارہ کرکے اشعار سنانے کو کہا. میری زبان کہاں میرا ساتھ دے؟ یہ کیا کر دیا ملک صاحب نے، اِس حالت میں شعر! خیر لڑکھڑاتی ہوئی آواز میں فراق گورکھپوری کا شعر سنا رہا ہوں.

آواز پہ سنگیت کا ہوتا ہے بھرم
کروٹ لیتی ہے نرم لے میں سرگم
یہ بول سریلے تھرتھراتی ہے فضا
ان دیکھے ساز کا کھنکنا پیہم

کہیں سے واہ واہ کی آواز سنائی دے رہی ہے. مجھے کیا معلوم یہ کون ہے. ملک صاحب نے بھی دو منٹ گزارنے کے بعد سبحان اللہ کہا ہے. مجھے بھی فراق صاحب کا دوسرا شعر یاد آ گیا ہے.

ہر ساز سے ہوتی نہیں یہ دھن پیدا
ہوتا ہے بڑے جتن سے یہ گن پیدا
میزان نشاط و غم میں صدیوں تل کر
ہوتا ہے حیات میں توازن پیدا

اب اِس حالت میں کسی کو کیا خاک سمجھ آنی ہے، میں بھی اب بس کرنے والا نہیں. کہہ جو دیا ہے کہ شعر سناؤ تو اب سنو پھر، پنڈت جواہر ناتھ ساقی کا ایک قطعہ سنو

آپ ہیں محو حسن و رعنائی
ہم کو اپنا کیا ہے سودائی
دیکھ راز و نیاز کو ساقی
خود تماشا و خود تماشائی

بس اب چل چلاؤ، آگ کا آلاؤ، شراب اور پلاؤ، چرس کے کش لگاؤ، شعر سنو. آہستہ آہستہ گرنے لگے، لڑکھڑانے لگے ہیں، جانے لگے ہیں، سونے لگے ہیں، میں شعر پہ شعر سنائے جا رہا ہوں. ابھی سر اٹھا کر کیا دیکھتا ہوں. محفل میں صرف ملک صاحب باقی ہیں، دیگر اُٹھ کر جا چکے ہیں.

آج میرے دادا کا سوئم ہے. مجھے معلوم ہی نہیں یہ کیا ہو رہا ہے. کسی نے بتایا کہ دادا کو فوت ہوئے تیسرا روز اِس لیے سوئم ہے. میرا دادا کیوں مرا؟ کیسے فوت ہوا؟ فوت ہونے کا کیا فائدہ ہوتا ہے جو یہ سب کہہ رہے ہیں کہ ہر بندے نے مرنا ہے؟ کہہ رہے ہیں کہ اللہ اُس کا حساب کتاب بہتر فرمائے، آمین. میرے پوچھنے پہ ایک رشتہ دار چچا مسکراتے ہوئے بتا رہا ہے کہ انسان جو کچھ اِس دنیا میں کرتا ہے اللہ اُس کا حساب رکھتا ہے. کیوں؟ میں نے پھر سے پوچھ لیا. چچا پھر مسکرا رہا ہے، نجانے کیوں مسکرا رہا ہے. “اللہ یہ حساب رکھتا ہے کہ کون اچھا ہے کون برا ہے” چچا بتا رہے ہیں. “اللہ یہ حساب کتاب کیوں رکھنا چاہتے ہیں”. چچا نے مسکرا کر مجھے گود میں بٹھا لیا ہے. میرے ہونٹوں پر اپنے ہونٹ رکھ کر چوم رہے ہیں. میں مسکرا رہا ہوں. وہ بتا رہے ہیں کہ اللہ یہ دیکھنا چاہتے ہیں کون اُن کی بات مانتا ہے اور کون نہیں. عجیب بات ہے بھلا ہم کیوں اللہ کی بات مانیں. چچا مسکرا کر میرے گال چوم رہے ہیں بار بار چوم رہے ہیں. میرے بازوں کو دبا رہے ہیں. ساتھ ساتھ بتا رہے ہیں کہ اللہ ہر شے کا مالک ہے اور جو مالک ہوتا ہے وہ حساب  رکھتا ہے. میں نے سوچ کر چچا سے پھر سوال کرنا شروع کر دئیے ہیں. چچا نے کولر سے ٹھنڈا پانی لانے کو کہہ دیا ہے اور میں سوچتے ہوئے چل پڑا ہوں کہ چچا کو اللہ نے سب کچھ بتا رکھا ہے. میں کولر سے پانی بھر ہی رہا ہوں کہ چچا بھی میرے پیچھے پیچھے بیٹھک میں چلے آئے ہیں. پانی کا گلاس چچا کو دیکر پھر سے سوال داغ ہی رہا ہوں کہ چچا نے مجھے بازؤں سے پکڑ کر اٹھا لیا ہے. میں مسکرا رہا ہوں، چچا کے ہاتھوں ہوا میں بلند ہونا اچھا لگ رہا ہے. انہوں نے  گود میں بٹھا کر میرے پیٹ پہ ہاتھ پھیرنا شروع کر دیا ہے. بار بار میرے معصوم سوالیہ چہرے کو چومنا  ذرا عجیب لگ رہا ہے. مجھے گود میں بیٹھنا بھی عجیب سا محسوس کروا رہا ہے. چچا بار بار موت اور اللہ کے بارے میں بتا رہا ہے مگر میں پرسکون نہیں  ہوں اور چچا کی گود سے نکلنا چاہتا ہوں.

میں واقعتاً بور ہو رہا ہوں. اردو کے پروفیسر صاحبان نجانے کہاں کہاں سے کیا کیا نقل مار کے لے آئے ہیں. استاد صاحب اردو میں دخیل غیر زبان الفاظ پر بحث کر رہے ہیں. “جو استعمال، لفظ ، ترکیب، کلمہ ، اردو کے قاعدے یا رواج کے مطابق ہے وہ اردو کے الفاظ کے لیےصحیح ہے. دوسری بات یہ کہ اردو میں غیر زبانوں خاص کر عربی و فارسی کے قاعدے صرف اردو میں موجود عربی و فارسی کے الفاظ پہ لازماً لاگو کرنا قرین انصاف ہے”. میری طبیعت خراب ہو رہی ہے. بھائی کیا چولیں مار رہا ہے. اگر اِن پروفیسر کی بات مان لی جائے تو لفظ “کتاب” کی جنس کے بارے میں سوال ہو تو یہ سند ماننی پڑیگی کہ عربی میں “کتاب” مذکر ہے، لہٰذا اردو میں بھی یہ لفظ مذکر ہوگا/ہونا چاہیے. بالکل ایسے ہی اگر “طشت از بام ہونا” بارے سوال ہو تو یہ استدلال ماننا ہوگا کہ فارسی میں “طشت از بام افتادن” ہے، لہٰذا اردو میں بھی “طشت از بام گر پڑنا” ہونا چاہے. دوسری بات یہ کہ ہمارے یہاں یوں بولتے ہیں، “سارا معاملہ طشت از بام ہو گیا”، جب کہ فارسی میں یہ محاورہ “طشت” کے حوالے سے بولتے ہیں، یعنی یوں کہتے ہیں:”طشت از بام افتاد”۔ ظاہر ہے کہ پروفیسر صاحب کا یہ ضد کرنا غلط ہے کہ اردو میں بھی یوں ہی بولنا چاہیے. ضروری نہیں کہ عربی کا گدھا اردو میں بھی گدھا ہی رہے. لیکن نیچے کرسیوں پہ بیٹھے لوگ پروفیسر صاحب کے لیے تالیاں بجانے میں مصروف ہیں.

نہیں رضیہ میں تمہیں گھر سے بھگانا نہیں چاہتا. ایسا کرنا نہ جرم ہے نہ برائی ہے. لیکن میرے ماں باپ اور تمہارے ماں باپ کے لیے ایک برائی ضرور ہے. تمہارے بہن بھائیوں اور میرے بہن بھائیوں کو ہمارے اِس عمل سے تکلیف پہنچ سکتی ہے. میں تمہیں بھگا کر شادی کر لوں یہ آسان ہے مگر سُکھ کہاں ہے. ہمارے پیچھے والے ہماری وجہ سے دکھی ہوں گے تو ہمیں سکھ کیسے میسر آئے گا. میں رضیہ کو میسج کر رہا ہوں اور تیز تیز چل بھی رہا ہوں تاکہ مسجد سے فجر کی نماز کے مکمل ہونے سے قبل رضیہ کے ہاتھوں سے تیار میٹھی ٹکیاں لے لوں تاکہ کوئی دیکھ بھی نہ لے. میں نے موبائل میسج کرکے جیب میں ڈالا، رضیہ نے کھڑکی سے شاپر پکڑایا ہی ہے کہ جاوید نے میرے سر میں ڈنڈا دے مارا ہے. مجھے یوں لگ رہا ہے کہ جیسے کسی نے سر پکڑ کر کسی شٹر کے نیچے دے دیا ہے. ایک اسد کے منہ سے نکلی گالی سنائی دی اور پستول کی گولی میری دائیں ران میں اتر چکی ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

جاری ہے

Facebook Comments

فاروق بلوچ
مارکسی کیمونسٹ، سوشلسٹ انقلاب کا داعی اور سیاسی کارکن. پیشہ کے اعتبار سے کاشتکار.

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply