چھوٹا گوشت/کلثوم رفیق

پیاز ٹماٹر بھی ختم ہو رہے ہیں۔۔۔ لیتی جاؤں۔۔۔ آصف نے بھی آج جلدی آجانا ہے۔۔۔ آج آصف کی پسند کا کھانا بن جاۓ تو۔۔۔۔ پر آصف کو تو۔۔۔۔۔!
کیسے دے رہے ہو پیاز۔۔۔؟
باجی سستے ہیں اب تو ریٹ ہی گر گیا۔۔۔ لے جائیں۔۔ ایک سو چالیس روپے کلو۔ باجی بہت اچھے پیاز ہیں یہ دیکھیں۔۔۔۔ اس نے پیاز پکڑ کر دکھایا۔
چلو دے دو۔۔ دو کلو۔۔ درمیانہ سائز دینا۔۔۔ بہت بڑے نہ ہوں اور بہت چھوٹے بھی نہیں۔۔۔ یہ نکال دو۔۔ میں نے ایک پیاز باہر پھینکا۔۔
جیسے آپ کہیں۔۔۔ کوئی مسئلہ نہیں جی۔۔
اچھا یہ ٹماٹر۔۔۔؟
یہ بھی لے جائیں۔ ۔ باجی سو روپے کلو۔۔۔ دیکھیں کوئی نرم یا گلا ہوا نہیں ہے۔۔
اچھا یہ بھی کردو۔۔ ایک کلو۔۔
باجی دو کلو کر دوں۔۔۔ بہت اچھا ٹماٹر ہے۔۔۔؟
نہیں۔۔۔ بہت ہے۔۔۔ بس بیس روپے کی ہری مرچ اور دھنیا ڈال دو۔۔
یہ لیں باجی۔۔۔
میں نے شاپر پکڑ کر۔۔ بیگ سے پیسے نکال کر دئیے۔ مہینے کے شروع میں تو کچھ دن بہتر ہی گزر جاتے ہیں۔
بیف اور مٹن کی دوکان ساتھ ہی تھی۔۔۔
بیف لے لوں۔۔ دو کلو۔۔۔ بچوں کے لئے چپلی کباب بن جائیں گے۔۔۔۔
۔۔۔۔پر آصف کو تو۔۔۔۔۔۔۔۔۔! بیف بھی اٹھارہ سو میں دو کلو آۓ گا۔۔۔۔
چکن ہی لے لوں۔۔ ۔ بچے تو ویسے ہی چکن شوق سےکھاتے ہیں ۔ ۔۔۔
بھائی۔۔ یہ ایک کلو چکن تو بنا دو۔۔۔ کیا ریٹ ہے آج۔۔۔؟
باجی۔۔۔ چھ سو روپے۔۔۔ آپ کو پانچ سو اسی لگا دوں گا۔۔
اچھا ٹھیک ہے۔۔ بنا دو۔۔ ایک کلو۔۔۔
باجی۔۔۔۔ صافی سات سو کا بن رہا ہے۔۔۔۔ دے دوں باجی؟؟
اچھا دے دو۔۔۔ دے دو۔۔ جلدی کرو۔۔
میں نے سات سو پکڑایا۔۔۔ پتا نہیں یہ کہاں سے آگئے بریلر۔۔۔۔ ساری دنیا بریلر کھا کھا کر بریلر بنی پڑی ہے۔ ۔ اور اب تو سستا بھی نہیں رہا۔۔۔۔ اور آصف کو تو ویسے ہی۔۔۔۔۔۔۔
آگے پھر گوشت والا بیٹھا تھا۔۔۔۔ سارا دن محنت کرتے ہیں آصف۔۔۔۔ پھر انھیں تو پسند بھی۔۔ ۔۔
بھائی۔۔۔ یہ ایک کلو مٹن دے دو۔۔۔ جلدی سے۔۔۔۔ یہ اس جگہ سے کاٹ دو۔ ۔۔
مٹن کونسا سستا ہے۔۔۔ دو ہزار ریٹ ہے۔۔۔۔ ایک بوٹی اوپر ڈال کر کہتے ہیں۔۔۔ باجی بائیس سو کا ہو گیا۔۔
باجی۔۔۔ تھوڑا سا زیادہ ہے۔۔ دے دوں۔۔؟
یہ دکاندار بھی ناں۔ ۔۔
میں نے شاپر پکڑ لیا۔۔۔ اب کون بحث کرے پہلے ہی دیر ہو رہی ہے ۔
کتنے پیسے۔۔۔؟
باجی پچیس سو دے دیں۔۔۔
اس مہنگائی نے بھی ناں پاگل ہی کر دیا ہے۔۔۔۔ سر کی طرف کھینچو تو پاؤں ننگے۔۔۔ جو پاؤں کی طرف ڈالو تو سر ننگا۔۔ کہیں چادر فٹ ہی نہیں ہوتی۔ ۔۔۔
کھجور۔۔۔۔۔۔آصف کو تو کھجور بہت پسند۔۔۔ختم ہو رہی ہے۔۔۔۔۔
یہ والی کھجور کیسے دے رہے ہو؟
باجی۔۔یہ ڈبہ ساڑھے پانچ سو کا۔
توبہ۔۔۔آدھ کلو بھی نہیں ہوں گی۔۔۔اچھا دے دو۔
کھجور والے کو پیسے دے کر بھاگی۔۔۔آصف کے آنے کا وقت ہو رہا ہے اور ابھی جاکر سالن پکانا ہے۔۔۔۔ شکر ہے کہ آج آصف کی پسند کا کھانا بنے گا۔۔۔۔
ابھی آصف آۓ نہیں تھے۔۔میں نے الماری کھول کر عنابی رنگ کا جوڑا نکالا یہ رنگ آصف کو پسند ہے۔ہم عورتیں بھی ناں۔۔۔۔جوں جوں وقت گزرتا ہے خود کو اپنے شوہر کے رنگ میں ہی رنگ لیتی ہیں۔یہی سوچتی
میں غسل خانے میں گھس گئی۔زرا فریش ہو لوں۔۔۔آصف کے آنے کا وقت ہو رہا ہے۔
میں نے جلدی جلدی گوشت دھو کر پیاز لہسن ٹماٹر اور مسالے ڈال کر ککر چولہے پر چڑھایا۔۔۔۔
پیاس لگ رہی تھی۔۔۔ تبھی بیل ہوئی۔۔۔ لگتا ہے۔۔ آصف آگئے۔۔۔۔ چلو جب تک نماز پڑھ کر آئیں گے۔۔ کھانا تیار ہو جائے گا۔۔ آج آۓ بھی تو جلدی ہیں۔۔۔
میں پانی کا گلاس پکڑ کر باہر ہی آگئی۔۔۔۔ آصف آگئے تھے ۔
چارپائی پر میری ساس پاؤں پسارے بیٹھی تھیں۔۔۔
ساتھ ہی کرسی پر ایک خاتون بیٹھی تھی۔ عمر میں مجھ سے کوئی دس بارہ سال چھوٹی ہی لگ رہی تھی۔۔۔ میں جاکر چارپائی پر بیٹھی تو اماں نے پاؤں سکیڑ لیے۔۔۔۔ میں نے سلام دعا کے بعد سوالیہ نظروں سے دیکھا ۔ ۔۔۔ اور ساتھ ہی پانی کا ایک گھونٹ بھرا۔۔۔۔
آصف بھی ادھر ہی چلے آۓ۔

“یہ کنول ہے۔۔۔ میں نے اس سے نکاح کیا ہے ”
آصف نے مجھے اطلاع دی۔۔۔۔ گلاس میں پانی کانپنے لگا۔
میری ساس نے میری پشت پر مضبوطی سے ہاتھ رکھا اور سہلایا۔۔ یوں جیسے میرے اندر اٹھتا سارا ابال وہ اپنی ہتھیلیوں میں جذب کر لینا چاہتی ہو۔
اور میں نے جیسے خود سے کہا۔

julia rana solicitors london

“لے جھلئے۔۔۔۔ تو اوکھی سوکھی ہوکر آصف کے لیے مٹن لیتی پھرتی تھی۔۔۔ اور آصف تو خود ہی ترو تازہ جوان گوشت لے آیا۔”

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply