2013 کے الیکشن کے بعد سے اب تک سیاسی حقائق

کوئی مانے یا نہ مانے، پیپلزپارٹی کے گزشتہ دور حکومت میں مسلم لیگ نواز نے جہاں حکومت کو اپنی بیان بازیوں اور عجیب و غریب حرکتوں سے خوب تنگ کیا وہیں پنجاب میں کام پر بھرپور توجہ دی کیونکہ یہی واحد صوبہ تھا جہاں نواز لیگ کی صوبائی حکومت موجود تھی۔ہماری قوم واقعی بہت بھلکڑ ہے، لیکن مجھے اچھی طرح وہ دور یاد ہے جب پنجاب میں نواز لیگ، پختونخوا میں عوامی نیشنل پارٹی، سندھ، کشمیر اور گلگت میں پیپلز پارٹی اور بلوچستان میں غالباً ق لیگ و اتحادی حکومت میں تھے۔ تو شہباز شریف کی کارکردگی بلاشبہ سب سے بہترین تھی۔یہ الگ بحث ہے کہ سارا کا سارا سرمایہ لاہور پر لگایا یا کہیں اور، اس دور میں یوسف رضا گیلانی نے بھی ملتان میں کافی کام کروایا تھا۔

جو بات کرنی تھی وہ یہ ہے کہ شہباز شریف نے اپنی کارکردگی سے پورے ملک میں ایسا ماحول بنا دیا تھا کہ باقی صوبوں سے تعلق رکھنے والے اکثر دوست یہ کہا کرتے تھے کہ”یار اگلی بار یہ بندہ ہمیں دے دو”۔میں یہ ہرگز نہیں کہتا کہ کرپشن یا بےایمانی نہیں کی، ضرور کی ہوگی اور کی بھی لیکن بہرحال اپنے حق میں ماحول تو بنوا لیا۔پھر 2013 کے الیکشن سب کو یاد ہوگا کہ آرمی کی نگرانی میں ہوئے۔ ہمارے اپنے پولنگ اسٹیشن پر فوجی جوان تعینات تھے، (واضح رہے کہ اس وقت ہم بھی عمران خان کے جیالے تھے اور محلے کے بڑے بوڑھوں کو پکڑ پکڑ کر بلے پر مہریں لگوا رہے تھے ) اور فوج اگر جانبدار نہ بھی ہو تو کم از کم نواز شریف کے حق میں بالکل نہیں۔پھر نتیجہ آیا تو مسلم لیگ نواز، پیپلز پارٹی اور تحریک تینوں بڑی پارٹیاں بن کر سامنے آئیں اور تینوں کو بالترتیب ایک کڑور چالیس لاکھ، اٹھتر لاکھ اور اناسی لاکھ ووٹ ملے۔جبکہ سیٹوں کے حساب سے پیپلزپارٹی تحریک انصاف سے بازی لے گئی۔

اب کامن سینس کی بات ہے کہ زیادہ سے زیادہ کتنے جعلی ووٹ ڈالے جاسکتے ہیں۔۔۔چلیں یہ بھی مان لیں کہ نواز لیگ کے پچاس لاکھ ووٹ جعلی تھے (جو کہ فوج کی براہ راست نگرانی کی وجہ سے ناممکن ہے) تو پھر بھی اس کے ووٹ باقی دونوں بڑی پارٹیوں سے زیادہ تھے۔حکومت بنی تو شہباز شریف کے ساتھ ان کے بڑے بھائی نے تاریخی زیادتی کی، سب کو یاد ہونا چاہیے کہ شہباز شریف قومی و صوبائی دونوں نشستوں پر کامیاب ہوئے تھے، ان سے قومی اسمبلی کی سیٹ خالی کروائی گئی، حالانکہ عوامی خواہش یہ تھی کہ شہباز شریف ہی وزیر اعظم ہوں۔اس وقت وزیر اعظم کے نام کا اعلان کرنے میں نواز لیگ نے غیر معمولی وقت لیا تھا جس کی وجہ یہ تھی کہ شہباز شریف کو منایا جا رہا تھا۔پھر جب حکومتیں بن گئیں تو پیپلزپارٹی نے سیاسی بلوغت کا ثبوت دیتے ہوئے اپنی پوزیشن تسلیم کی اور کام شروع کیا۔

عمران خان کا سب سے پہلا بیان یہ آیا کہ ہم نتائج تسلیم کرتے ہیں، لیکن پھر نہ جانے کہاں سے انگلی نظر آئی اور وہ رونا پٹنا شروع کیا کہ آج تک جاری ہے۔ چاہیے تو یہ تھا کہ ایک صوبہ جو ملا تھا وہاں ایسا کام کرتے کہ عوام ویسے ہی ان کے گن گاتی جیسے 2013 سے پہلے شہباز شریف کے گائے جاتے تھے، میڈیا کی بھی سپورٹ تھی اور اسٹیبلشمنٹ کی بھی، لیکن بجائے کارکردگی دکھانے کے، میں نہیں میں نہیں کرتے ہوئے سڑکوں پر لیٹیاں لینے لگے۔سراج الحق صاحب نے سیدھا راستہ بارہا دکھایا کہ بھئی عدالت موجود ہے وہاں جاؤ، لیکن عمران خان کو تب ہوش آئی جب کوئی اور عدالت جا چکا تھا، پھر اسی لیے پہنچے کہ کریڈٹ کوئی اور نہ لے جائے۔اب جب عدالت نے فیصلہ دے دیا ہے جو کہ یقینا ً پاکستانی تاریخ کا یادگار ترین فیصلہ ہے، اس کے بعد نواز شریف نے بھی وہی راستہ پکڑا جو عمران خان نے پکڑا تھا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

فیصلہ صحیح ہو یا غلط، قاضی کی توہین یا حکم عدولی کی نہ تو کوئی گنجائش سیکولر آئین میں ہے اور نہ ہی مقدس شریعت اسلامی میں۔لیکن نواز شریف کے غلط طرزعمل کا یہ ہرگز مطلب نہیں کہ عمران خان کو معاف کردیا جائے۔موجودہ نسل کے سامنے پاکستانی سیاست میں ناشائستہ انداز تکلم اور مادر پدر آزاد جلسوں کے جو بیج انہوں نے بوئے ہیں انہیں ایک عرصہ تک یہ قوم کاٹتی رہے گی۔اب نواز شریف اداروں کے ساتھ تصادم کی راہ پر ہیں۔ جبکہ اس سے پہلے عمران خان بھی اعلیٰ اداروں (پارلیمنٹ، سینٹ، ایوان صدر و وزیر اعظم، سپریم کورٹ، پاکستان ٹیلی ویژن) کے ساتھ تصادم اور ان پر حملہ بھی کرچکے ہیں۔
عمران کے جیالے جیو کے صحافیوں کو مارتے تھے اور نواز کے جیالے اے آر وائی کے صحافیوں کو مار رہے ہیں۔دونوں میں صرف اتنا فرق ہے کہ نواز کی عوامی مقبولیت عمران سے دگنی ہے اور بس۔نہ ہی دونوں میں کوئی قائدانہ صلاحیت ہے اور نہ ہی انتظامی (صرف سیاسی حوالے سے بات کر رہا ہوں ورنہ عمران خان ایک کامیاب کپتان رہے ہیں کھیل میں)۔ملک کی بہتری اور بقاء اسی میں ہے کہ اب ان دونوں نالائقوں سے ملک کی جان چھڑائی جائے تاکہ مستقبل میں پاکستانی قوم کسی بڑی آزمائش سے بچ سکے۔

Facebook Comments

طلحہ شہادت
بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد میں بائیوٹیکنالوجی کا طالبعلم ہوں۔ سماجیات، اخلاقیات، سیاسیات، اقتصادیات، روحانیات اور برطانوی سامراج کی باقیات سے گہری دلچسپی رکھتا ہوں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply