بندوق اور حوصلے کی جنگ ۔۔رشید یوسفزئی

‎‎بندوق اور حوصلے کی جنگ ۔۔رشید یوسفزئی/آزادی کی  جنگ میں غفار خان صمد خان اور میرزا علی خان وزیر ایک ہی قطار میں کھڑے ایسے حریت پسند تھے جو پختونوں کو ایک خودمختار وحدت میں متحد کرنا چاہتے تھے، جہاں پر ان کا مستقبل محفوظ ہو، لیکن دوسری طرف انگریز کا مقصد پختونوں کی طاقت کو تقسیم کرنا تھا۔ کیونکہ ہندوستان کی  شمال مغربی سرحد کے پار افغانستان تھا جو پختونوں کا وطن مولود تھا اور اس کے آگے سوویت روس تھا جو سرمایہ دار دنیا کیلئے سب سے بڑا خطرہ تھا، جس کو ختم کرنے کیلئے پختونوں کو تیار کرنا تھا۔

‎روس لامحالہ افغانستان سے ہوکر آتا، جس سے پختونوں کا خونی، جذباتی اور تاریخی رشتہ تھا، اس لئے مذہبی جنون کو استعمال میں لانے کے ساتھ ساتھ پختون قوم پرستی کو بھی مرنے نہیں دیا گیا تاکہ وہ اپنے رشتوں کی عزت اور حرمت کی خاطر سر دھڑکی بازی لگاتے ہوئے استعماری منصوبے کیلئے لڑے۔ قوم پرستی کے نام پر کس کو کب کیسے استعمال کیا گیا کسی اور دن کیلئے اٹھا رکھتے ہیں، کیونکہ آج ہم ان تین پختون کوہ پیکروں پر بات کرتے ہیں جن کے ذکر کے بغیر جدید پختون تاریخ کو سمجھنا ناممکن ہے۔

‎ اسلحے کی جنگ ختم ہوئی لیکن ذہنی بارود ابھی تک سلگ رہا ہے۔ اب اہم یہ ہے کہ جدا کئے گئے باچا خان، خان شہید اور میرزا علی خان کے بچے دوبارہ کیسے اکٹھے کیے جائیں؟ وہ جو بارود کے بنے ہوئے ہیں ان کو شانت کرکے کیسے عدم تشدد کے راستے پر یکجہتی کی منزل تک لے جایا جائے؟

‎باچا خان اور خان شہید کی اپنی قوم کو ایک جغرافیائی وحدت میں اپنے وسائل سمیت اکٹھا کرنے کی کوشش اور مزاحمت ہر حالت میں ناکام ہونا تھی کیونکہ جہاں پر وہ مصروفِ  عمل تھے وہاں پر ہمارے سیارے کی ساری طاقتیں مل کر اشتراکی روس کو گھیر کر شکست دینا چاہتی تھیں، تو جہاں اشتراکی روس جیسا دانتوں تک مسلح فیل پیکر خود کو شکست سے نہ بچا سکا وہاں پر محض انسانی عزم اور سچائی سے لیس دو غیرمسلح انسان کیسے کامیاب ہوسکتے تھے؟ پختون لیڈرشپ کی شکست سے میری  مراد ابھی تک کی ناکامی ہے، کیونکہ پختونوں کو متحد کرنے کوشش ابھی ختم نہیں ہوئی، پی ٹی ایم کی شکل میں جاری ہے۔

‎ دوسری طرف میرزا علی خان یعنی فقیر ایپی کی کوششیں بھی اس لئے مطلوبہ نتائج حاصل نہ کرسکیں کیونکہ جہاں پر ساری دنیا کی دو مختلف نظاموں کی جنگ لڑی جانی تھی وہاں پر وہ اسی طرح ایک قبائلی چیف تھا جس طرح امریکہ میں بلیک ہاک، ٹیکومش، جرمینو، کیریزی ہارس، کوچیز اور سیٹنگ بل نام کے خود دار ریڈ انڈین قبائلی چیف تھے، جن کو قتل کرنا  ‎نظاموں کی تاریخی لڑائی کیلئے افغانستان کی طرح قبائلی علاقے عموماً اور وزیرستان خصوصاً تاریخ کے ڈیپ فریزر میں اس طرح محفوظ کیے گئے کہ زندہ ہوکر بھی وہ سماجی میوزیم میں رکھے ہوئے نمونے لگ رہے تھے۔ جب مقررہ وقت آیا تو ساری دنیا کی خفیہ ایجنسیوں نے دنیا بھر کے قاتل، دہشت  گرد، بنیاد پرست، سبوتاژ ، ڈسٹرکشن سپیشلسٹ، نظریاتی اور مذہبی جنونی، گوریلا جنگ کے ماہرین اور ان کو سپورٹ دینے والا ہائی ٹیک سامان بمع جنگ کا ایندھن یعنی ‘مقدس ڈالر’ پختونخوا پہنچائے۔ یوں ان کی مدد سے پختونوں کے واحد ملک افغانستان کو برباد کردیا گیا۔ جنگ ختم ہوئی تو کنڈم جنگی سامان کے ساتھ ساتھ ذہنی طور پر کنڈم وہ جنگجو بھی کباڑ میں بیچے گئے جو خودپسندی اور نظریاتی ٹریننگ کی وجہ سے خود کو بہت اہم سمجھتے تھے۔ یوں افغانستان کے بعد انہوں نے اپنا گھر بھی پھونک ڈالا اور پشاور کو بھی سومنات کی  طرح بار بار گرانے آئے۔

تقریروں سے تبدیلی آتی تو ہمارے بچے بڑے اور بزرگ کیوں نامعلوم قاتلوں کی گولیوں کا نشانہ بنتے؟

‎ اسلحے کی جنگ ختم ہوئی لیکن ذہنی بارود ابھی تک سلگ رہا ہے۔ اب اہم یہ ہے کہ جدا کئے گئے باچا خان، خان شہید اور میرزا علی خان کے بچے دوبارہ کیسے اکٹھے کیے جائیں؟ وہ جو بارود کے بنے ہوئے ہیں ان کو شانت کرکے کیسے عدم تشدد کے راستے پر یکجہتی کی منزل تک لے جایا جائے؟
‎مارگریٹ میڈ مشہور سوشیالوجسٹ اپنی کتابوں ‘کمنگ آف ایج ان ساموا’ اور ‘گروئنگ اپ ان نیو گنی’ میں دو ایک جیسے سماجوں ‘ماونٹینئن اراپش اور منڈوگیمر’ کے بارے میں لکھتی ہیں۔
‎”ماؤنٹین اراپش باغات اور کاشتکاری میں گروہوں کی شکل میں مل جل کر گذر بسر کرنے والے خوش باش امن پرور ماحول میں اپنے بچوں اور گھر بار کی دیکھ بھال کرتے ہیں۔ اجنبیوں پر مہربان، مہمان نواز جنگ و جدل سے بیزار اور جارحیت کو سخت ناپسند کرتے ہیں۔ کبھی ذاتی مسائل میں الجھ کر مارپیٹ کریں تو اس پر دل سے شرمندگی محسوس کرتے ہیں اور اسے میدانی باشندوں کا جادو ٹونا سمجھتے ہیں۔ جارحیت سے سخت خوفزدہ ہوتے ہیں کیونکہ وہ اسے ہینڈل کرنا نہیں جانتے۔ ماں باپ مل کر فخر سے بچے پالتے ہیں۔ بچہ تین سال تک ماں کا دودھ پیتا ہے اور والدین دوسرے بچے کی پیدائش سے دو سال تک اجتناب کرتے ہیں۔ بچوں سے انتہائی شفقت کرتے ہیں، روئے تو فوراً گلے لگاتے ہیں حوصلہ دیتے ہیں اور جہاں جاتے ہیں ایک آرام دہ ٹوکری میں ساتھ لیے پھرتے ہیں۔ ہر چیز کو ‘اچھا’ کہتے ہیں یعنی اچھا ساگودانہ، اچھا مکان، اچھے چچا، اچھی گائے وغیرہ۔ بچوں کو دوسروں کو تکلیف نہ دینے کی تعلیم دیتے ہیں اور ان کو بتاتے ہیں کہ کوئی غصہ دلائے تو زمین کو ماریں یا کوئی اور غیر شخصی طریقہ اختیار کریں۔ لڑائی بھڑائی کو یکسر بے سود خیال کرتے ہیں اور بچوں کی جارحیت کو جوابی جارحیت کے ذریعے ختم کرنا وسیلہ تربیت نہیں سمجھتے”۔

‎”منڈوگیومر، تقریباً ان سے کچھ فاصلے پر میدانی علاقے میں رہتے اور وہی خوراک کھاتے ہیں جو اراپش کھاتے ہیں۔ زندگی آسان، خوراک وافر لیکن وہ مل کر کام کرنے کے کے خلاف، نامہرباں اور انتہائی جارحیت پسند ہیں۔ مثالی شخص کی آٹھ سے دس تک بیویاں ہوتی ہیں جن کی چوکیداری پر عموماً بوڑھے رشتہ دار مسلط ہوتے ہیں۔ بہنوں اور بیٹیوں کے بدلے میں بیویاں لانا عام ہے۔ بھائی بھائی سے بیٹا باپ سے ماں بیٹی سے اور بہن بہن سے نفرت اور بیگانگی کا اظہار کرتی ہے۔ جو جارح نہ ہو اسے مرد نہیں سمجھا جاتا اور یہی حال عورتوں کا  ہے۔ دھیمے مزاج شخص کیلئے کوئی جگہ نہیں ہوتی۔ فضول پڑا رہنا اور لڑنا جھگڑنا بالکل نارمل سمجھا جاتا ہے”۔

‎مارگریٹ میڈ کے مشاہدات سے ثابت ہوتا ہے کہ ہمارے جارحیت پسند پیدائشی جارحیت پسند نہیں، جس طرح ہمارے امن پسند پیدائشی امن پسند نہیں ہوتے، دونوں کو ماحول اور تربیت نے ایسا بنایا ہوا ہے۔ جارحیت جارح اپنے ساتھ ہمارے ہاں اپنے ممالک اکیڈمیز اور مقاصد کے حصول کیلئے لیکر آئے تھے، جس کو ہم نے غلط فہمی میں اپنا جوہر اصل اور مردانگی سمجھ لیا ہے۔ کچھ خود مر رہے ہیں کچھ اپنوں کو ما رہے ہیں اور کچھ کو مارا جا رہا ہے اور جو ان میں سے نہیں ان کو غائب کیا جارہا ہے، شاید کسی اور جنگ کی تربیت دلانے کیلئے ۔

‎ایسی حالت میں باچا خان اور عبدالصمد خان کے عدم تشدد کا نظریہ بھی کچھ مایوس اور کنفیوز لوگوں کی نظر میں کار آمد نہیں رہا۔ لیکن عدم تشدد کی کمزوریاں بھانپ کر اس کی تصحیح کرکے اسے آج بھی باچا خان اور صمد خان کا سیاسی اور نظریاتی وارث، منظور پشتین قابلِ استعمال اور قابلِ قدر سمجھتا ہے۔ اسے یقین ہے کہ اسمبلی قانون آئین اور جمہوری روایات وہاں پر موثر ہوتے ہیں جہاں پر انسانی جان کی حرمت تسلیم شدہ ہو۔ پختونوں کا سب سے پہلا حق ان کی جان کی حرمت کا ہے جو پارلیمنٹ آئین قانون اور عدالت کی موجودگی میں بھی محفوظ نہیں۔ اس لیے منظور نے عزیمت اور مزاحمت کا وہ راستہ چنا ہے جو مشکل ہے لیکن پارلیمنٹ کی طرف نہیں کامیابی کی طرف جاتا ہے۔ وہ سمجھتا ہے کہ پارلیمنٹ میں تو اے این پی, پی میپ اور این ڈی ایم جیسی جماعتیں جو پختونوں کے حقوق کی دعویدار ہیں، پہلے سے موجود ہیں۔ تقریروں سے تبدیلی آتی تو ہمارے بچے بڑے اور بزرگ کیوں نامعلوم قاتلوں کی گولیوں کا نشانہ بنتے؟

‎جہاں سب شہری قانون کی نظر میں برابر نہیں ہوتے، جہاں ایک علاقہ دوسرے علاقے سے زیادہ پسندیدہ ،ایک ڈومیسائل دوسرے ڈومیسائل سے زیادہ معتبر ،ایک قوم دوسری قوم سے زیادہ محترم ایک نسل دوسری نسل سے زیادہ معتبر ہو، جہاں عشروں سے پختون قوم کی جان مال عزت اور ہر حق غیر محفوظ اور خطرے میں ہو، وہاں بہترین پالیسی مستقل مزاحمت مسلسل عزیمت اور مثبت احتجاج ہے۔ جو لوگ منظور پشتین کے  عزم و استقلال پر مبنی محاذ کو آج اہمیت نہیں دیتے وہ سوچیں اور غور کریں، کس کو یقین تھا کہ نیلسن منڈیلا سفید فام نسل پرستوں کی دائمی جیل سے ایک دن نکل کر ساؤتھ افریقہ کا صدر بنے گا؟ کون جانتا تھا کہ گڈانسک کا مزدور لیخ ولیسا مکینیکل ورکشاپ میں لیڈر بن کر جیل جائے گا اور وہاں سے نکل کر پولینڈ کا وزیراعظم بنے گا؟ کون یہ پیشگوئی کرسکتا تھا کہ امریکہ میں لائے گئے غلاموں کی نسل کا بارک اوباما تیسری نسل میں دنیا کے طاقتور ترین ملک امریکہ کا طاقتور ترین صدر بنے گا؟

Advertisements
julia rana solicitors

‎باچا خان صمد خان اور میرزا علی خان اس لئے پختونوں کو ایک جھنڈے تلے متحد کرنے میں کامیاب نہیں ہوئے کہ پوری دنیا اس کے خلاف تھی۔ اب یہ وہ دنیا ہے نہ وہ نظریات۔ غاصب بھی یہ بات سمجھتے ہیں اس لیے آج نہیں تو کل میز پر بیٹھ کر فیصلہ ہوگا، بس اس وقت تک حوصلے کا امتحان ہے۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply