• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • اسرائیل تسلیم کرنے کا سوال بعد میں، پہلے یہ بتائیں کہ آپ کی خارجہ پالیسی ہے کیا؟۔۔ غیور ترمذی

اسرائیل تسلیم کرنے کا سوال بعد میں، پہلے یہ بتائیں کہ آپ کی خارجہ پالیسی ہے کیا؟۔۔ غیور ترمذی

بنیادی سوال یہ نہیں ہے کہ آپ اسرائیل کو کیوں تسلیم کر رہے ہیں بلکہ اصلی سوال یہ ہے کہ آپ واضح کریں کہ فلسطین بارے آپ کا اصولی مؤقف کیا ہے؟۔ آپ واضح کریں کہ کیا پچھلے 73 سالوں میں خارجہ پالیسی کے حوالہ سے کبھی آپ کا کوئی آزادانہ، جرات مندانہ مؤقف رہا بھی یا آپ نے جنرل ضیاء کی اسلامائزیشن کے بعد سے عربوں کے پیچھے چلنے کی پالیسی بنائے رکھنی ہے؟۔ ہماری کاسہ لیسی میں کمی کی وجہ سے نہیں بلکہ جدید دنیا میں بدلتے حالات و واقعات کی وجہ سے اب تو عربوں کی کاسہ لیسی والی پالیسی میں بھی زبردست Twist آ چکا ہے۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ سعودی عرب نے G20 ممالک کے اجلاس کی میزبانی پر بطور یادگار 20 ریال کا نوٹ جاری کیا ہے جس کے بیک سائیڈ پر نقشے میں گلگت اور پاکستانی آزاد کشمیر کو پاکستان سے الگ ایک آزاد اسٹیٹ دکھایا گیا ہے۔ اب کیا کہیں گے سعودی ولی عہد بن سلمان کے ڈرائیور پاکستانی وزیر اعظم جنہوں نے بن سلمان سے بیان دلوایا تھا کہ وہ سعودی عرب میں پاکستان کے ایمبیسڈر (سفیر) ہیں۔ بن سلمان نے تو اتنی آنکھیں پھیر لیں کہ اپنے ڈرائیور عمران خان کی طرف سے 5 اگست کو جاری نقشے تک کو مسترد کردیا تھا۔ نتیجہ یہ نکلا ہے کہ انڈیا نے اپنے زیر تسلط کشمیر کے ساتھ ساتھ اب گلگت و بلتستان اور آزاد کشمیر کو اپنا اٹوٹ انگ بتاتے ہوئے اپنے نقشہ میں شامل کر لیا ہے اور یہ خدشہ عین ممکنات میں سے ہے کہ انڈین افواج پاکستان کے زیر انتظام ان علاقوں کی طرف پیشقدمی کرکے ان پر قبضہ کرلے۔

بن سلمان کی طرف سے کیا گیا یہ اکیلا حملہ نہیں تھا بلکہ سعودیہ نے پاکستان سے وزیر خارجہ  شاہ محمود قریشی کی بڑھکوں پر ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے اچانک سے اپنا وہ قرضہ واپس مانگا جو اُس نے ہمارے سٹیٹ بنک میں ویسے ہی رکھوایا ہوا تھا جیسا وہ امریکی اور برٹش بنکوں میں اپنا سرمایہ رکھواتے ہیں۔ سعودیہ والے صرف قرض ہی واپس مانگتے تو چلیں کوئی بات نہیں، اُن کا پیسہ ہے وہ جب چاہیں ہمارے سٹیٹ بنک میں رکھوا لیں اور جب چاہیں نکلوا لیں۔ لیکن انہوں نے تو قرضۃ واپس مانگنے کے لئے باقاعدہ پریس میں اعلان کر کے مانگا اور ساتھ ہی یہ   بھی جتا دیا کہ پاکستان سے 1 بلین ڈالر واپس لیا گیا قرض ہم انڈین ریلائینس جیو فائبر کمپنی میں انویسٹ کررہے ہیں۔ ہماری حکومت کی طرف سے پہلے پہل تو ہمیں یہ بتایا گیا تھا کہ چونکہ سعودیہ کے معاشی حالات خراب ہوگئے ہیں اس لئے اُس کا قرضہ واپس کررہے ہیں لیکن سعودیہ کو یہ بیان بھی پسند نہیں آیا اور اُس نے جان بوجھ کر انڈین ریلائینس جیو فائبر میں انویسٹمنٹ کی بات کر کے ہمارے ساتھ “بڑی وہ والی” کردی ۔ یاد رہے کہ ریلائینس کمپنی سے سعودیہ نے اسی سال اگست میں 15 بلین ڈالر کا معاہدہ کیا تھا اور تو اور دنیا کی بڑی آئل ریفائنری لگانے کے لئے بھی 60 بلین ڈالر کی انویسٹمنٹ بھی اسی گروپ کے ساتھ کی ہے۔

اس سے پہلے بھی جنرل اسمبلی میں عمران خاں کی طرف سے کی جانے والی جوشیلی اور سعودیہ کے دیرینہ دوست نریندر سنگھ مودی کا مذاق اڑاتی تقریر کے بعد بن سلمان نے نیویارک میں انہیں اپنے چلتے جہاز سے واپس نیو یارک لاکر اُتروا دیا تھا۔ اس کے بعد بھی جنرل باجوہ 2 مرتبہ انہیں منانے کے لئے سعودیہ گئے لیکن دونوں مرتبہ شاہ سلمان اور بن سلمان نے اُن سے ملاقات ہی نہیں کی۔ شنید ہے کہ سعودیہ جلد ہی پاکستانی افواج کے ساتھ کئے ہوئے سکیورٹی معاہدے بھی دوسرے ممالک کی افواج سے کرنے جارہا ہے۔ جیسے ہی یہ ممکن ہوا تو پھر اگلا مرحلہ سعودیہ سمیت اُس کے اتحادی خلیجی ممالک میں سالہا سال سے کام کرتی ہوئی پاکستانی افرادی قوت اور تاجروں کی ان ممالک میں موجودگی کو ختم کرنے کے نزدیک پہنچایا جا سکتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں یہ کہہ لیں کہ مستقبل قریب میں ہم خلیجی ممالک سے مزدوری کے الٹ بہاؤ کی توقع کر سکتے ہیں۔ پاکستانی ہنرمندوں کی جگہ لینے کے لئے انڈیا کے پس ماندہ علاقوں کے علاوہ سری لنکا، بنگہ دیش اور نیپال کی افرادی قوت نسبتاً  کم نرخوں، بہتر فنی تربیت، زیادہ محنت اور بہتر وفاداری کے ساتھ موجود ہے۔ یاد رہے کہ بن سلمان کے مخالف ممالک کے ساتھ پاکستان کو کوئی اسٹریٹجک یا معمولی سے کاروباری تعلقات کی بین الاقوامی تجارت اور خارجہ پالیسی میں کوئی خاص اہمیت نہیں ہے۔

ہماری خارجہ پالیسی کی بنیاد سراسر جذباتیت اور اُن فرسودہ نظریات پر رکھی ہوئی ہے جن کی آج کے بدلتے حالات میں چنداں اہمیت نہیں ہے۔ مثال کے طور پر آرمینیا کی مثال لیجیے جو ایک Orthodox مسیحی ملک ہے۔ ترکی اور آذربائیجان کے آرمینیا سے سفارتی تعلقات نہیں ہیں – ترکی کی دشمنی سلطنتِ عثمانیہ دور کے Armenian Genocide کی وجہ سے چل رہی ہے جبکہ آذر نائجان کی دشمنی سویت یونین کے تحلیل ہونے کے بعد Nagorno-Karabakh کی وجہ سے چل رہی ہے، جس پر آرمینیا نے قبضہ کر لیا تھا۔ اِن تینوں ممالک کی ایران سے سرحد ملتی ہے اور تینوں کے ساتھ ایران کے اچھے سفارتی اور تجارتی تعلقات ہیں لیکن ترکی اور آذربائجان سے اظہار یکجہتی کے طور پر پاکستان کے آرمینیا کے ساتھ سفارتی تعلقات نہیں ہیں۔ اس پالیسی کو کیا کہہ سکتے ہیں؟- کیا یہ عقل و منطق کی بنیاد پر ہے یا جذباتیت کا شاہکار ہے؟- حکومت نہیں بلکہ ارباب اختیاران واضح کریں کہ خارجہ پالیسی کے حوالہ سے کیا آپ کا کوئی اپنا مؤقف ہے بھی یا آپ نے عربوں کے پیچھے چلنا ہے؟۔جہاں تک یہ غلط المعروف جملہ ہے کہ ریاستیں ہمیشہ اپنے ذاتی مفاد کو دیکھتی ہیں، یہ ایک غیر انسانی اور وقتی موقف ہے۔ یہ جانوروں کا اصول ہے بلکہ سچ تو یہ ہے کہ جانور بھی اپنے ہم جنسوں کے ساتھ دوسری نسلوں کا کچھ خیال رکھتے ہی ہیں۔ عالمگیر انسانی مؤقف وہ ہے جس کا ماڈل امام علی علیہ السلام نے دیا تھا جو عدل پر مبنی ہے۔ انصاف پر مبنی ہے، بلا مشروط مظلوم کی حمایت پر مبنی ہے۔

خارجہ پالیسی میں آج کل اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کرنے کے نقطہ نظر سے پاکستان پر بات چیت کا آغاز کرنے کا دباؤ دنیا کے اس حصے میں طاقت کے بدلتے ہوئے میٹرکس سے نکلتا ہے ۔ اگرچہ کوئی بھی پاکستانی سیاستدان اس وقت تک اسرائیل کے ساتھ کسی نہ کسی طرح کے تعلقات کے بارے میں سوچنے کی ہمت نہیں کرسکتا جب تک کہ فلسطینیوں کو 2 ریاستوں کا اطمینان بخش حل نہیں مل جاتا لیکن پاکستان کے مفادات اس معاملے پر زیادہ حقیقت پسندانہ حیثیت رکھتے ہیں۔ آج ہم اپنے سب سے کمزور لمحے میں ایک بڑھتے ہوئے طوفان کی طرف گامزن ہیں جس کا ارباب اختیارات  کو اندازہ ہی نہیں کہ ہم اس سے کیسے نکلیں گے؟- دوسری طرف عام اور پاکستانی بھائیوں کو اسرائیل سے پاکستان کے بڑھتے تعلقات پر تشویش و غضب ہے۔ مگر کیوں ہے یہ سمجھ سے باہر ہے؟۔ ماسوائے پاکستان بننے کے وقت بانئ پاکستان کے ادا کئے ہوئے جملے کے سچ تو یہ ہے کہ فلسطین پر کبھی ہمارا کوئی مؤقف تھا ہی نہیں۔ پچھلے تہتر (73) سالوں میں ہم نے فلسطین کے بارے میں اپنے اصولی مؤقف کے بجائے عرب ڈکٹیٹرز کی خوشنودی کو مدِ نظر رکھا۔ جو آقا نے کہا، وہی ہم نے کیا۔ اب آقاؤں کا مزاج بدل رہا ہے اور ہم پیچھے پیچھے چل رہے ہیں۔ کل پھر مزاج بدل جائے گا تو ہم پھر سے جہاد کے نام پر فساد زندہ باد کی ریاستی بھٹی میں ڈال دیئے جائیں گے۔

اسٹیبلشمنٹ کا ایک پروٹوکول ہے کہ جیسے ہی کسی منصب کے جانشین کا اعلان ہوتا ہے تو جانے والے کی اہمیت کم ہوجاتی ہے اور وہ الوداعی ملاقاتیں شروع کر دیتا ہے۔ تقریباً تمام معاملاتی پروٹوکول نئے تعینات ہونے والے کے پاس آجاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سنہ 2016ء میں ہم نے دیکھا کہ جب عمران خان کا لانگ مارچ پانامہ کا بہانہ کر کے جنرل راحیل شریف کی ایکسٹینشن کے لئے پشاور سے اسلام آباد کی طرف بڑھ رہا تھا نواز شریف نے اڑھائی ہفتے پہلے ہی باجوہ صاحب کی تعیناتی کا اعلان کر دیا اور گیم اوور ہوگئی۔ اسی طرح دنیا کے بدلتے حالات میں خود کو ڈھالنے کے لئے اسٹیبلشمنٹ میں نئی تبدیلیاں ہوتی نظر آ رہی ہیں۔ چند روز پہلے ہی ملٹری اسٹیبلشمنٹ میں کچھ خاص اسائنمنٹس پر تعینات لوگوں کی جگہ نئی ترقیوں اور تعیناتیوں کا اعلان ہوا ہے جس کے بعد اُس خاص گروپ پر کاری ضرب لگی ہے جو پاکستان کو سعودی & اماراتی گروپ میں ہی رکھنا چاہتا ہے۔ اس صورتحال سے تلملا کر اپوزیشن رہنما مولانا فضل ارحمان کا بیان آیا ہے کہ فوج میں قادیانیوں کو پروموٹ کیا جا رہا ہے۔ اسرائیل کو تسلیم کرنے اور قادیانیوں کے لئے پاکستان میں آسانیاں پیدا کرنے کے لئے بڑھتے ہوئے عالمی دباؤ کے تناظر میں ہی پاکستانیوں کے لئے متحدہ عرب امارتی ویزا کی معطل ہونے کو دیکھا جا رہا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

مغربی میڈیا کے مطابق سیرئین آبزرویٹری فار ہیومن رائٹس نے دعویٰ کیا ہے کہ مشرقی شام میں واقع دیر الزور صوبہ کے مشرقی صحرا میں الجلا اور ہمدان قصبوں میں اسرائیل کی جانب سے ایران نواز ملیشیا “الزینبیون” پرایف 35 طیاروں سے ہونے والی بمباری کے نتیجے میں 19 افراد ہلاک ہوگئے ہیں۔ اس بمباری میں زیادہ تر پاکستانی جنگجو نشانہ بنے ہیں جبکہ زخمیوں کی کثیر تعداد کے حوالہ سے ہلاکتوں کی تعداد میں اضافے کا خدشہ بھی ظاہر کیا جا رہا ہے جبکہ بدھ کو گولان کی پہاڑیوں پر ہونےوالی بمباری میں بھی 14 ایران نواز افغانی اورعراقی جنگجوئوں کو ہلاک کرنے کا دعویٰ بھی کیا گیا تھا۔ ٹرمپ کی جاتے جاتے ایران پر حملے کے لئے زور پکڑتی ضد، سعودیہ اور امارات کی اسرائیل سے دوستی کے بعد حزب اللہ، الزینبیون، شامی افواج اور ایرانی ملٹری ٹھکانوں پربڑھتے ہوے اسرائیلی حملوں جیسے بیرونی حالات میں پاکستان پر اسرائیل کو تسلیم کرنے کا دباؤ یا پھر اس سعودی حمایت یافتہ اسٹیبلشمنٹ کی طرف سے ملک میں پیدا کئے جا رہے ابتر حالات کے بعد سوچئے گا دوستو کہ دسمبر آ رہا ہے۔ اس صورتحال میں بنیادی سوال یہ نہیں ہے کہ آپ اسرائیل کو کیوں تسلیم کر رہے ہیں بلکہ اصلی سوال یہ ہے کہ آپ واضح کریں کہ اسرائیل کو تسلیم کرنے کے بارے میں آپ کا اصولی مؤقف کیا ہے؟۔ آپ اب واضح کر ہی دیجئے کہ کیا آپ کا کوئی اپنا مؤقف ہے بھی یا آپ نے عربوں کے پیچھے چلنا ہے۔

Facebook Comments