رویوں کی الجھنیں ۔۔۔ سمیرہ انجم

کہانی بُننا، کہانی لکھنا کہانی اور پھر کہانی ہوجانا اتنا آسان بھی نہیں ہے۔ 

کہانیوں کے تانے بانے بُنتے روز اس کو دماغ کی کھڈی پر چڑھاتے دل کی  پینجے سے اسکی کُرت بُرت کرتے گزر جاتے ہیں۔ کہانیاں بنتی ہیں اُدھڑ جاتی ہیں۔

ناعمہ کے دماغ کی کھڈی پر کچھ بھی نہیں چڑھ رہا۔ رنگ بکھر گئے ہیں یا اپنا آپ کھو گئے ہیں؟ زندگی کی کہانی بُنتے اب کہیں اٹک آگئی ہے جو سلجھانے میں وقت لے رہی ہے اور وقت ہے کہ بند مٹھی میں پڑی ریت کی طرح دھیرے دھیرے تیزی سے سرکتا جاتا ہے۔ پتہ ہی نہیں کب مٹھی خالی ہو کر آخری گھڑیوں کا گھڑیال بجا دے۔

کھلے دریچے سے جھانکتے پچھلی راتوں کے چاند کی مدھم چاندنی، سکوت کے ان لمحوں میں اپنی اور کھینچتی ہے لیکن وہ گود میں ادھ کھلی کتاب لیۓ ایک ازلی سستی میں بیٹھی گزرے ماہ سال میں گم جانے کیا سوچتی ہے۔ ایک سوال جس کا جواب اسے  تب بھی نہیں ملا اور اب بھی نہیں۔ اسی کھوج میں زندگی بسر ہوگئی۔ 

حسب معمول وہ اپنے معمولات سے فارغ ہوکر اپنی پسندیدہ جگہ پر آ بیٹھی۔ گھر میں یہ اس کا پسندیدہ ترین گوشہ تھا جہاں وہ سکون کے ساتھ اپنے مطالعے کی عادت پوری کرتی۔ سامنے کھلا لان جس میں ہری گھاس آنکھوں کو تراوت دیتی، لان میں لگے آم، انار اور امرود کے درختوں پر پرندے چہچہاتے۔ شام کی سرگرمیوں میں مشغول آس پاس کے گھروں  سے آوازیں گاہے بگاہے ہوا کے دوش پر آتی رہتیں اور وہ کبھی کتاب میں گم ہوجاتی اور کبھی ان پرندوں کی اٹھکیلیوں سے لطف اندوز ہوتی۔

ابھی ابھی زہرہ جو ان کے یہاں جز وقتی مدد کے لیے  رکھی گئی تھی، اس کی فرمائش پر اسے چائے کا مگ دے کر گئی۔ وہ آج اس زہرہ کے گھر کی کہانی کے بارے سوچنے لگی۔

زہرہ کا گھر جہاں وہ اپنے تین بچوں اور شوہر کے ساتھ رہتی تھی۔ شوہر کا ہاتھ بٹانے کے لیے اس نے خود یہ قدم اٹھایا کہ وہ بھی کام پر جائے گی تاکہ اپنے بچوں کو بہتر زندگی دے سکے۔ اس کا شوہر جو پانچ جماعتوں تک پڑھا تھا گھروں میں مالی کا کام کیا کرتا۔ زہرہ خود بھی بس لکھ پڑھ ہی سکتی تھی۔ اس نے ہی اپنے شوہر مجید سے کہہ کر گھروں میں  کام کی بات کی۔ آج اسکا ناعمہ کے گھر یہ دوسرا دن تھا۔ وہ کم پڑھی لکھی تھی لیکن چونکہ اس نے یہ قدم اپنے بچوں کے لیۓ اٹھایا لہذا خود کو اس بات کا پابند کیا کہ وہ زیادہ وقت گھر سے باہر نہیں رہے گی۔ وہ صبح اپنے بچوں کو مقامی سرکاری سکول بھیج کر کام پر آجاتی اور ان کے سکول آنے سے پہلے گھر چلی جاتی۔ ان کو کھانا دے کر کچھ وقت ان کے ساتھ رہتی اور شام میں پھر ناعمہ کے گھر آجاتی۔ پھر جو کام ہوتے ان میں مدد دے دیتی۔ تب تک مجید بھی گھر آجاتا تھا اور یوں بچے بھی اکیلے نہیں رہتے۔

زہرہ کو دیکھتے ناعمہ اچانک ماضی کے دریچوں میں کھو گئی۔ 

چاۓ کا مگ ہاتھ میں لیتے ہی اسے جیسے اس کی موجودگی کا احساس ہوا۔ شکیل، جسے ناعمہ سالوں سے جانتی تھی، کبھی دیکھا نہیں تھا یا دیکھا بھی تو سرسری سا۔ البتہ وہ اس کو چہرے سے نہیں اس کی باتوں سے اس کی سوچ سے پہچانتی۔ وہ جب ڈرائنگ روم میں اباّ میاں سے کسی بات کے بارے مباحثہ میں حصہ لیتا، ان سے اپنی تعلیمی گتھیوں کو سلجھانے میں رہنمائی لیتا۔ اباّ میاں جن دنوں کالج میں لیکچرار تھے تب سے گھر میں اس کا آنا جانا تھا۔ابا میاں کی ریٹائرمنٹ کو سالوں گزرنے ک باوجود ان سے انسیت میں فرق نہیں آیا۔ مہینے میں ایک بار اس کا آنا ضرور ہوتا۔ وہ اس کی موجودگی کو محسوس کر لیا کرتی۔ کبھی باہر جاتے آمنا سامنا ہوتا بھی تو اس کی نگاہیں ہمیشہ جھکی ہوتیں۔ وہ اپنی بات کرتا اور گزر جاتا۔ یہی حال ناعمہ کا تھا۔ ایک دن اس کی والدہ ناعمہ کے گھر آئیں۔ باتوں باتوں میں ناعمہ کی اماں نے ماؤں کی جوان بیٹیوں کی نسبت فکر مندی کا حال بیان کر دیا۔ صاف لفظوں میں تو نہیں لیکن مدعا وہی تھا جو ایک بیٹی کی ماں کا ایک بیٹے کی ماں کے سامنے ہوسکتا ہے۔

ناعمہ کو بھنک پڑ گئی تھی کہ اماں کیا چاہتی ہیں۔ اس نے انہیں اباّ میاں سے ذکر کرتے سن بھی لیا تھا۔ بظاہر کوئی اعتراض نہیں تھا کہ جہاں والدین مناسب سمجھیں گے وہ ان کی خواہش کا احترام کرنے والی تھی۔ یہاں ویسے بھی معاملہ یہ تھا کہ وہ کسی حد تک شکیل کے بارے پہلے سے جانتی تھی۔  شکیل عورت کی عزت کرنے والا اور وہی احترام دینے والا شخص تھا جس کا تقاضا بنت حوا، آدم کے بیٹے سے کرتی ہے۔ یہی دین کا حکم ہے۔ یوں کسی نہ کسی صورت میں ناعمہ نے شکیل کے بارے میں اس حوالے سے سوچنا شروع کر دیا۔ ویسے بھی عورت ہر ایسے انسان کو اونچے سنگھاسن پر بٹھا دیتی ہے جو اسے عزت و احترام  دیتا ہو، وہ بھی صرف باتوں سے نہیں بلکہ عمل سے بھی۔

شکیل کی والدہ نے گھر میں ذکر کیا ہوگا۔ شاید تبھی ایک دن دروازہ کھولا تو سامنے شکیل  کو سامنے کھڑا پایا۔ وہ گیٹ کھول کر اندر کو چلنے لگی کہ شکیل کی پکار پر رک گئی جو کچھ کہنا چاہتا تھا۔ اس دن شکیل نے اس سے صاف الفاظ میں کہہ دیا کہ اس کی والدہ اسے بہو بنانا چاہتی ہیں لیکن اس کی اپنی سوچ کچھ اور ہے۔ اس کے بقول وہ اسے اچھی بلکہ بہت اچھی لگتی لیکن وہ نہیں سمجھتا کہ وہ دونوں کسی بندھن میں بندھ سکتے ہیں۔ ایسا نہیں کہ اسے کوئی اور پسند ہے لیکن جس طرح کی لڑکی اس کی شریک حیات بنے گی وہ ناعمہ نہیں ہے۔ شکیل کے الفاظ اس کے ذہن میں گونج رہے تھے۔ “ناعمہ، تم بہت اچھی لڑکی ہو لیکن ضروری نہیں کہ اچھی لڑکی ایک اچھی بیوی بھی بن سکے۔” وہ معذرت کرتے پلٹ گیا اور پھر کبھی واپس نہیں آیا۔

ناعمہ ماضی کی جھلک سے واپس حال میں واپس آگئی۔ 

زہرہ سے اپنے گھر کے لیۓ جو بن پڑتا کرتی، اپنے شوہر کا ہاتھ بٹاتی، بچے پالتی ،گھر کی دیکھ بھال کرتی لیکن جب بھی مجید کے ساتھ اس کی لڑائی ہوتی اسے یہی سننے کو ملتا۔۔ “تم بہت اچھی ماں ہو، اچھا گھر سنبھانے والی، اچھی رشتے نبھانے والی ہو لیکن تم اچھی بیوی نہیں ہو۔”

گزرتے سالوں میں ناعمہ کو بھی شکیل کے بعد کئی بار یہی سننا پڑا لیکن اسے آج تک اس بات کا جواب نہیں ملا۔

اپنی ہستی مٹا کر بھی آخر کیوں وہ اچھی سے اچھی بیوی کا سفر طے نہ کر سکی۔ 

آخر کیوں؟

Advertisements
julia rana solicitors

کیا ہے کسی کے پاس اس بات کا جواب؟

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست ایک تبصرہ برائے تحریر ”رویوں کی الجھنیں ۔۔۔ سمیرہ انجم

Leave a Reply