درد اتنا ہے کہ ہر رگ میں ہے محشر برپا

حضرت حسین منصور بن حلاج کو روئے شریعت گرفتار کیا گیا اور علماء نے فتویٰ طلب کیا تو سب لوگوں نے آپ کے قتل کے فتویٰ پر اتفاق کیا اور وجہ یہ کہی کہ آپ “انا الحق” کہتے ہیں۔
نقل ہے کہ، “جب آپ کی روح قفس سے عنصری سے پرواز کر گئی تو آپ کے جسم سے “انا الحق: کی صدا بلند ہونے لگی۔ لوگوں نے کہا کہ یہ حالت بہت خطرناک ہے اور حالت حیات سے بھی زیادہ مہلک ہے۔ پھر آپ کی لاش کو جلا دیا گیا مگر راکھ سے “انا الحق” کی صدا آنے لگی۔ اس اور خطرہ پیدا ہوا۔ آخر آپ کی راکھ دجلہ میں ڈال دی گئی مگر جونہی راکھ دجلہ میں ڈالی گئی “انا الحق” کی صدا پانی سے بلند ہوئی اور دریا جوش مارنے لگا۔
آپ نے پہلے ہی خادم کو وصیت کر دی تھی کہ یہ لوگ میری خاک کو دریا میں ڈالیں گے اور دریا جوش مار کر بغداد ک طرف بڑھے گا اور شہر اور اہل شہر کو غرق کر دے گا۔ پس جب تم ایسی حالت دیکھو تو فورا میرا پیراہن دجلہ کی طرف کر دینا۔ چنانچہ جب خادم نے یہ کیفیت مشاہدہ کی اور اہل شہر میں ابتری پیدا ہو گئی تو خادم نے دجلہ کی طرف آپ کا خرقہ کر دیا جس کو دیکھتے ہی دریا کا جوش ٹھنڈا پڑ گیا اور پانی اپنی اصلی حالت پر چلا گیا، (کتاب: تذکرۃ الاولیاٰء)”
مشال خان، مردان کی کسی یونیورسٹی میں پڑھنے والا ایک عام سا طالب علم۔ جسے اللہ اکبر کے نعرے لگاتے ہوئے بے دردی کے ساتھ قتل کیا گیا۔ کوئی ثبوت نہیں تھا اور وجہ یہ کہی کہ وہ گستاخ رسول تھا۔ جو سلوک مشال کے مردہ جسم کے ساتھ عاشقان رسولوں نے کیا بخدا، یہ میرے رسولﷺ کی دی گئی تعلیم کے خلاف ہے۔ اسلام تو میانہ روی کا مذہب ہے اور یہی تعلم ہمارے نبی ﷺ نے ہم کو دی۔
اللہ سبحان وتعالیٰ خود قران میں فرماتے ہیں، اسی وجہ سے ہم نے بنی اسرائیل پہ یہ فرمان لکھ دیا کہ: “جس نے کسی انسان کو خون کے بدلے یا زمین میں فساد پھیلانے کے سوا کسی اور وجہ سے قتل کیااس نے گویا تمام انسانوں کو قتل کر دیا اور جس نے کسی کو زندگی بخشی اس نے گویا تمام انسانوں کو زندگی بخش دی”۔ مگر ان کا حال یہ ہے کہ ہمارے رسولﷺ پے در پے ان کے پاس کھلی کھلی ہدایات لے کر آئے پھر بھی ان میں بکثرت لوگ زمین میں زیادتیاں کرنے والے ہیں، (سورۃ المائدہ: ۳۲)”
بنا کسی ثبوت کے کسی معصوم کو برہنہ کرنا اور اس سفاکی کے ساتھ اسکا قتل کرنا اور مزید اسکے مردہ جسم کو تشدد کا نشانہ بنانا، یہ حضرت محمدﷺ کا دین، دینِ السلام نہیں۔ پھر یہ کونسا مذہب ہے جس میں نہ تو خدا کا کوئی خوف ہے نہ ہی خدا کے محبوب کی تعلیمات کی اہمیت؟ اگر کچھ ہے تو فقط کھولے دعوے۔
بقول فیض، درد اتنا ہے کہ ہر رگ میں ہے محشر برپا ۔۔۔۔ اور سکوں ایسا کہ مر جانے کو جی چاہتا ہے
درد اس لیے کہ آج انسانیت کو مرتے دیکھا اور سکوں اس لیے کہ مرنے والے کو جیتا پایا۔ دل دکھا ہے اور بے حد دکھا ہے۔ مجھے نہیں معلوم کہ مشال خان ملحد تھا یا مسلمان، گستاخ رسول تھا یا شان رسول۔ مجھے بس اتنا پتہ ہے کہ جیسے منصور بن حلاج کی راکھ سے “انا الحق” کی صدا آتی تھی، اسی طرح آج مشال خان کے لہو سے صدا آرہی ہے۔

Facebook Comments

حمیرا گل
طالب علم

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply