ڈگڈگی۔۔۔ حسنین معاویہ

مداری چلتا جا رہا ہے اور رسی کے سرے سے بندھا بندر کبھی اس سے آگے نکل جاتا ہے، کبھی پیچھے رہ جاتا ہے۔بندر چلتے چلتے اردگرد نظر دوڑاتا ہے، کنکر اٹھا کر پھینکتا ہے اور گول دائرے میں مالک کے گرد گھومنے لگتا ہے۔شاید اسے ایک پل قرار نہیں۔وہ اپنی زندگی کا ہر لمحہ حرکت میں گزارنا چاہتا ہے۔
گاؤں کے بچوں کے ہاتھ ایک دلچسپ تفریح لگی ہے۔وہ ہجوم کی صورت،کئی ننگ دھڑنگ، کئی شکستہ لباس میں ملبوس، گاؤں کی کچی پکی گلیوں میں بندر کے پیچھے چل رہے ہیں، نعرے مار رہے ہیں اور بلند بانگ قہقہے لگا رہے ہیں۔
میں بھی چپکے سے اس ہجوم میں شامل ہو گیا اور اس نظارے سے لطف لینے لگا۔
مداری تھوڑی دور جا کر رک گیا اور آس پاس دیکھتا ہوا بیٹھ گیا۔کھیل شروع ہوا۔
وہ ڈگڈگی بجا رہا تھا اور بندر کرتب دکھا رہا تھا۔قرب و جوار کے کچے گھروں میں سے دھواں اٹھ رہا تھا اور مختلف پکوانوں کی خوشبو چہار سو طلسم بکھیر رہی تھی۔چند دریچے وا ہوئے اور چند پردہ نشین نگاہیں بندر کا کرتب دیکھنے لگیں۔ گاؤں کی اس فسوں خیز شام میں ڈگڈگی کی آواز گونج رہی تھی اور بندر کرتب پہ کرتب دکھا رہا تھا۔
بچوں کی آوازیں بلند ہوگئی تھیں اور چند نوجوان من چلے بندر پر سکے نچھاور کرنے لگے تھے۔
تب ایک پتھر نجانے کہاں سے اڑتا ہوا آیا اور بندر کو لگا۔بندر پہلے تو ذرا سا رکا پھر دوبارہ اپنا کرتب دکھانے لگا۔شاید اسے اس پتھر یا بچوں کی ہنسی کی پرواہ نہیں تھی۔وہ اپنے مالک کا وفادار اور کماو پوت تھا، وہ کرتب روک دیتا تو اسکے مالک اور اسکی سبکی ہو جاتی.
شام کے سائے پھیلنے لگے تھے۔مداری تھک گیا تھا اور بندر بھی شاید اکتا گیا تھا۔مداری نے پیسے جمع کئے اور اپنا سامان سمیٹنے لگا۔بچوں کو گھروں میں آنے کی ہدایات موصول ہورہی تھیں۔چند لمحوں میں محفل ختم ہوگئی تھی اور مداری چل پڑنے کو تھا۔وہ جگہ جو تھوڑی دیر پہلے آباد تھی اب کسی ویرانے کا منظر پیش کر رہی تھی۔گھروں سے برتنوں کی کھنک آرہی تھی۔مداری نے کاندھے پر اپنی چادر رکھی اور خاموشیوں میں لپٹا ایک طرف جانے لگا۔
میں نے دور سے اسے آواز دی۔
“مداری! تم خوش نصیب ہو دنیا میں کم ازکم ایک وجود ایسا تو ہے جو تمہاری ڈگڈگی پر ناچتا ہے”
مداری رکا۔وہ لحظہ بھر مجھے دیکھتا رہا پھر بلند آواز سے بولا۔
“نوجوان! ہم سب بیک وقت مداری بھی ہیں اور تماشا بھی۔ہم خود خواہشات کی ڈگڈگی بجاتے ہیں اور خود اس ڈگڈگی کی آواز پر تھرکتے ہیں”
اس کی آواز میرے کانوں میں گونج رہی تھی اور میں اسے رسی کا سرا ہاتھ میں پکڑے جاتا دیکھ رہا تھا۔

Advertisements
julia rana solicitors

میرے اندر کوئی بندر ناچنے لگا !!

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply