مکالمہ اور مذہبی طبقہ ۔۔۔۔ فہد علی

بعض چیزیں مشترکہ اثاثہ ہوتی ہیں لیکن مختلف طبقات ان کے حقوق اپنےنام محفوظ کر لیتے ہیں۔ اس سلسلے میں عالمی اور قومی سطح پر جس طبقے کا نام سب سے پہلے ذہن میں آتا ہے وہ ہے مذہبی طبقہ ۔ لیکن بے چارہ مذہبی طبقہ ضرورت سے زیادہ ہی بدنام ہے، ان کے علاوہ بھی بعض طبقات نے مشترکہ اثاثوں کے کاپی رائٹس محفوظ کر رکھے ہیں ۔ جیسے حب الوطنی کے حقوق فوج کے پاس ، دانشوری اور وسعت ظرفی کے حقوق لبرلز کے پاس ، حقوق نسواں کا ٹھیکہ سول سوسائٹی کے پاس ہے ۔ آزادی اظہار رائے کے اختیارات میڈیا کے پاس اور خدمت خلق کا جذبہ سیاست دانوں کے نام الاٹ ہوچکا ہے ۔

مکالمہ انہیں مشترکہ اثاثوں میں سے ہے جو کسی بھی فکری موضوع کی تنقیح اور نکھار کا سبب ہے اور فکر و نظر کے ہر گوشے کو مکالمہ کے ذریعے بہتر سے بہتریں کی طرف لے جانا چاہئے ۔ مکالمہ ہر مکتب فکر میں کسی نہ کسی شکل اور کسی نہ کسی سطح پر ضرور موجود ہے مگر درج بالا مشترکہ اثاثوں کی طرح مکالمہ کے حقوق دین بےزار طبقہ نےخود ہی اپنے نام محفوظ کر رکھے ہیں ۔ چنانچہ یہ طبقہ مکالمہ کا علمبردار ہے اور کوئی دن نہیں گذرتا جب یہ لوگ مذہبی طبقے پر مکالمہ نہ کرنے اور بات نہ سننے کا الزام نہ لگاتے ہوں ۔

یہ الزام مذہبی طبقے سے خدا واسطے کا بیر رکھنے والوں کے لئے تسلی کا سامان رکھتا ہو تو ہو مگر حقیقت کی دنیا سے اس کو کوئی واسطہ نہیں ۔ کیا مذہبی طبقہ مکالمہ نہیں کرتا ؟ اس سوال کا جائزہ لینے سے پہلے یہ حقیقت واضح ہونا چاہئے کہ مکالمہ ہے کیا ؟ مکالمہ ، بحث و مباحثہ اور مناظرہ وغیرہ خواہ طرز اور طریقہ کار کے اعتبار ایک دوسرے سے مختلف ہوں مگر کسی مسئلہ کو زیر بحث لانے کے لحاظ سے ایک ہی چیز کے مختلف نام ہیں ۔ مذہبی طبقے پر مکالمہ نہ کرنے کے الزام کا مقصد یہ نہیں کہ مذہب پسند لوگ بحث و مباحثہ اور مناظرہ تو کرتے ہیں مگر مکالمہ نہیں کرتے ۔ بلکہ مقصد یہ ہوتا ہے کہ مذہب کو زیر بحث ہی نہیں لایا جاتا۔

آئیے اس سوال کا جائزہ لیتے ہیں کہ مذہب پر بحث ہوتی ہے یا نہیں ۔ تاریخ کے ہر دور میں عموما اور دور حاضر میں خصوصا مذہب پر جتنی بحث کی گئی ہے اور کی جا رہی ہے اس سے زیادہ شاید ہی کوئی موضوع زیر بحث آیا ہو ۔ نفس مذہب سے لے کر مذہب کے ایک ایک گوشے تک ہر پہلو زیر بحث لایا گیا ہے ۔ یہ تو واضح ہے کہ کسی بھی فکر کےایک جزو پر مکالمہ کرنا نفس فکر پر مکالمہ سمجھا جاتا ہے جیسے سائنس کا کوئی بھی پہلو ہو مگر اس کو سائنس ہی کہا جاتا ہے۔ منطقی زبان میں کہے تو جزو پر بحث کل پر بحث سمجھی جاتی ہے ۔ چنانچہ عبادات ، معاشرت ، معاملات اور اخلاقیات ہی نہیں بلکہ ان شعبوں کے ایک ایک جزو پر اہل مذہب نے آپس میں بھی بحث کی ہے اور ان شعبہ ہائے حیات اور ان کے اجزاء پر جو اعتراضات مستشرقین ، متجددین اور ملحدین نے اٹھائے ہیں ان کا علمی اور تسلی بخش جوابات سے کتب خانے وجود میں آئے ہیں ۔ یہ اہل مذہب ہی کا جگرا ہے کہ وہ مستشرقین کی تلبیسات ، متجددین کے التباسات اور ملحدین کے اعتراضات کا جواب بھی علمی انداز اور خندہ پیشانی سے دیتے ہیں ۔

سوشل میڈیا مکالمہ کا ایک وسیع پلیٹ فارم بنتا جارہا ہے ۔ جائزہ لیجئے کہ یہاں مذہب کے شعبہ عبادات اور اس کے ذیلی اجزاء پر بحت ہوتی ہے ۔ مالی امور سود ، ربا اور بینکنگ تک ہر شعبہ پر روز مکالمہ کا میدان گرم رہتا ہے ۔ سیاسیات میں خلافت پر اٹھنے والے اعتراضات کے جوابات پیش کئے جاتے ہیں اور اسلامی جمہوریت کے مغربی جمہوریت سے تقابلی جائزے پیش کئے جاتے ہیں ۔ اسلامی طرز تعلیم اور مدارس پر معرکے لڑے جا رہے ہیں ۔ یہاں تک کہ حیات انسانی کے لئے نفس مذہب کی ضرورت و اہمیت اور عدم ضرورت پر ہر آن ملحدین اور اسلامسٹ برسرپیکار رہتے ہیں ۔یہ پہلو قابل غور ہے کہ ملحدین سے مکالمہ عمومی طور پر جارحانہ طرز کا ہوتا ہے جس کی سب سے بڑی وجہ ملحدین کے مکالمہ کے اصولوں کو دیدہ و دانستہ نظر انداز کرنا ہیں یا ان اصولوں سے بے خبری ہے ۔ جس کے ردعمل میں مکالمہ کی معیاری شائستگی برقرار نہیں رہ پاتی ۔ اس کے برعکس دیگر طبقات سے مکالمہ شائستگی اور آداب کو پیش نظر رکھ کر کیا جارہا ہے ۔

Advertisements
julia rana solicitors london

موضوع چاہے کوئی بھی ہو اہل مذہب نے اس کو ہمیشہ خوش آمدید کہا ہے البتہ جو لوگ مقدس ہستیوں کو بھی اپنی دریدہ دہنی کی بھینٹ چڑھانے کی کوشش کرتے ہیں، سنجیدہ اہل مذہب ان کو سلام کرکے گذر جاتے ہیں البتہ بعض افراد کی طرف اگر اینٹ کا جواب پتھر سے دیا جاتا ہے تو ان کو مورد الزام ٹھہرانے کے ساتھ ساتھ دریدہ دہنوں کی واہیات کو مکالمہ اور تنقید کا چولا پہنانا بھی قرین انصاف نہیں ۔ بلکہ اس دوہرے معیار کی وجہ ہی سے مکالمہ کی فضا کو سخت نقصان پہنچ رہا ہے ۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply