لبرل ازم اور ملحدیت – ایک جائزہ

لبرل ازم اور ملحدیت کے بکواس اور من گھڑت نظریات کا پرچار اگر اتنی اہمیت اور وقعت کا حامل ہوتا تو مذاہب کا وجود اب تک نابود ہوچکا ہوتا۔جو چیز انسان کو انسانیت سے جوڑتی ہے وہ مذہب ہے۔رہ گئی بات دین باطل اور دین حق کی تفریق کی تو یہ ایک سیر حاصل موضوع ہے جس پر جو جیسی چاہے تاویل پیش کرکے اپنا دامن چھڑا سکتا ہے یا تحقیق سے حق سچ پا سکتا ہے۔مان لیا یورپ یا مغربی اقوام نے مذہب کو ریاست اور ریاست کو مذہب سے الگ کیا اور کامیابی کا دعویٰ کیا۔لیکن اصل بات یہ ہے کہ کامیابی کا معیار انسانیت کے نزدیک ہے کیا؟پیٹ بھر کھانا اور دو جوڑے لباس کے ساتھ آزاد جنسی آسودگی اگر انسانیت کی معراج اور معیار ہے تو نظریات کو ہم کس خانے میں فٹ کریں گے؟تاریخ انسانی سے دین مذہب اور اس کی پیروی کو کیسے اور کس بنیاد پر خارج کریں گے؟ جہاد, ہولی وار, آندولن اور مقدس جنگ جیسے الفاظ ہر مذہبی کتاب اور مذہب کا حصہ ہیں۔مگر ان کی تاریخی ترتیب اور حقانیت کو جانچے بغیر الزام برائے الزام یا تخریبی مباحث کا آغاز ایک ہی بات واضح کرتا ہے کہ انسان آسودگی کی خاطر ضمیر تو گروی رکھ سکتا ہے مگر جان نہیں۔

جنگل کا بھی ایک قانون ایک ضابطہ ہوتا ہے مگر کیا وجہ ہے کہ مغرب مذہب سے آزاد ہوکر جنگل سے بھی بدتر معاشرے کی مثال بن گیا ہے۔ “میں ایک لبرل یا ملحد ہوں” کہہ کر دین مذہب کی بندش سے آزاد ہوا جا سکتا ہےمگر یہ آپ کو انسانیت سے بھی دور کردینے والا باطل نظریہ کیسے اصولِ زندگی یا ضابطہ اخلاق بن سکتا ہے۔صرف ا ﷲ اور اس کے انبیاء و الہامی کتب کا انکار اور شدید مخالفت انسانی ترقی اور مثبت ارتقاء کے لیئے کافی ہے؟اگر برصغیر اور وسطی ایشائی مسلم ممالک کو نشانہ بنانا ہی لبرل ازم اور ملحدیت ہے اور عیسائیت و یہودیت اور ہندومت کو انسانی مذاہب گرداننا ہی انسانیت ہے تو صاحبان آپ کو تکلیف اور مصیبت مذاہب سے نہیں بلکہ دین اسلام سے ہے جو کہ ایک مکمل ضابطہ اخلاق اور اصول زندگی کا جیتا جاگتا نمونہ ہے۔

میں نہیں کہتا بلکہ مغربی اعداد و شمار کے ادارے اور آزاد میڈیا یہ کہتا ہے کہ اسلام سب سے زیادہ پھلنے پھولنے والا دین ہے گزشتہ پندرہ سالوں سےمغربی ممالک میں۔وہ سب ممالک جن کی لبرل مثالیں دیتے ہیں وہاں کی زیادہ غیر مسلم آبادی تیزی سےاسلام کی طرف راغب ہورہی ہے۔بس اتنا بتادیں یا کوئی ایک مثال خواہ جھوٹی ہی صحیح لاکر ہمارے منہ پر ماردیں کہ فلاں مغربی ملک پر مسلمانوں کی یلغار یا جہاد کی بدولت اسلام کی طرف لوگ زبردستی لائے جارہے ہیں موجودہ دور میں۔اگر سچ کا سامنا کرنے کی ہمت نہ ہو تو بلاوجہ کی بحث سے اجتناب کرنا دانشمندی اور اصل انسانیت ہے۔آپ لبرل ہو یا ملحدہمیں آپ کے نظریات سے تب تک کوئی لینا دینا یا کوئی سروکار نہیں جب تک آپ کے نظریات اور بکواسیات آپ تک ہی محدود ہیں۔لیکن اگر آپ کے پیٹ میں مذہب خاص کر اسلام کو دیکھ, پڑھ اور پھیلتے دیکھ کر مروڑ اٹھیں گے اور آپ من گھڑت نظریات کو اسلام کےمقابلے میں لاکر بکواس اور بحث کا آغاز کریں گے تو پہلے ہمارا نظریاتی دفاع اور دوسرا دفاع کے بعد جوابی جارحیت کا حق فطری اور بنیادی انسانی حقوق جوکہ مغرب نے طے کررکھے ہیں کہ مطابق بالکل درست اور قانونی ہیں۔

آپ کو اگر اسلام سے تکلیف ہے تو مت پڑھیں اس کو نہ ہی کسی مسلمان سے تعلق رکھیں مگر جب آپ یہ سب بھی کریں گے اور جواب سہنے کی آپ میں اگر ہمت بھی نہیں ہوگی تو قصور کس کا ہوگا؟میں لبرل اور ملحدین کی بکواس کو اکثر نظرانداز کردیتا ہوں ب لکل ویسے ہی جیسے راستے میں بھونکتے ہوئے خارشی کتے کی بھونک کو نظر انداز کرتا ہوں لیکن کبھی کبھی شدید ترین جھوٹی بکواس ناقابل برداشت ہوجاتی ہے تو اس طرح کا ردعمل دینا ناگزیر ہوجاتا ہے۔جہاد اور قتل و غارت میں بہت فرق ہے لہذا پہلے پوری تحقیق کرو اور تاریخ بھی کھنگالو اگر واقعی لبرل ہو تو؟ورنہ یہ لبرل ازم اور ملحدیت کی آڑ میں اپنی جہالت اور خجالت کا بھونڈا مظاہرہ بند کرو اور اپنے کام سے کام رکھو۔

Advertisements
julia rana solicitors london

بڑے آئے لبرل اور ملحد جو لبرل ازم اور ملحدیت کی بنیادی الف ب اور نظریات سے واقف نہیں بس کسی سے سن گن لی اور بن گئے لبرل اور ملحد اور ہوگئے شروع اعتراض برائے اعتراض کرنے مذاہب بلخصوص اسلام پر۔میں اسی لیئے لبرل ازم اور ملحدیت کو جوتے کی نوک پر رکھتا ہوں کہ یہ صرف منتشر خیالات کا مجموعہ اور ہر اس چیز جس کی خود انسانیت نفی کرتی ہے کا پرچارک نظریہ ہے۔مطلب انسانیت سے بھی متصادم جو نظریہ ہے وہ لبرل ازم اور ملحدیت ہے۔

Facebook Comments

بلال شوکت آزاد
بلال شوکت آزاد نام ہے۔ آزاد تخلص اور آزادیات قلمی عنوان ہے۔ شاعری, نثر, مزاحیات, تحقیق, کالم نگاری اور بلاگنگ کی اصناف پر عبور حاصل ہے ۔ ایک فوجی, تعلیمی اور سلجھے ہوئے خاندان سے تعلق ہے۔ مطالعہ کتب اور دوست بنانے کا شوق ہے۔ سیاحت سے بہت شغف ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply