صحافیوں میں ایک طبقہ، فوٹوگرافرز

صحافیوں میں خوبیاں ہوتی ہیں یا نہیں اس کا تو ہمیں نہیں معلوم مگر ان میں ایک خامی ہوتی ہے وہ یہ کہ تنقید تو دھواں دھار کرتے ہیں مگر پھر جب ان پر تنقید کی جاتی ہے تو بلڈ پریشر آسمان کی بلندیوں پر پہنچ جاتا ہے ممتاز مفتی نے شاید صحافیوں کو دیکھ کر کہا تھا .کہ جب تک” میں” ہے کوئی اگے نہیں جاسکتا اس “میں” نے سب کو بگاڑ کے رکھ دیا ہے تو جب میں خیال کےگھوڑے دوڑاتا ہوں تو مجھے بدرا جہ اتم سارے صحافی” میں” کے شکار نظر آتے ہیں کوئی بھی اپنے خول سے باہر نکلنے کی کوشش نہیں کرتا۔
صحافیوں پر پہلا مضمون لکھنے کے بعد توقع تھی کہ تنقید کے تابڑ توڑ توپوں کا سامنا ہوگا مگر اللہ نے خیر کی مضمون کی تعریف نے ان سارے حملوں کو پسپا کردیا. کچھ نے تھوڑی بہت تنقید کا نشانہ بنایا مگر بہت سوں نے نئے نئے اقسام سے بھی اگاہ کیا کہ صحافتی بھیڑیوں کے ساتھ ساتھ صحافیوں کی اور بھی اقسام ہیی. جس طرح سیاست میی بھیڑئیے ہیی اپ کا ذہن عمران خان کی جانب کیوں مڑ گیا. اس پر الزامات ابھی ثابت نہیی ہوئے ہیی خیر ہم صحافیوں کے بارے بات کر رہے تھے کہ اپنے ساتھوں کی بدولت مجھے صحافیوں کی دیگر اقسام کا بھی پتہ چل گیا جس کا ذکر ہم کرنا بھول گئے تھے یوں تو اگر کیٹگرائزیشن شروع کی تو قسموں کے قطاریں لگ جائیں گی .
ایک صحافی کی قسم وہ بھی جو سب ٹھیک ہے کہ گردان کرتا نظر آتا ہے جو ادارہ اس کی خبروں کا مسکن ہوتا ہے وہ اس ادارے کی اچھائی میں ہی لگا ہوتا ہے بقول ایک دوست کے کیونکہ اسے لفافہ ملتا ہے مگر جب لفافہ بند ہوجاتا ہے تو ڈنڈا دینا شروع کردیتا ہے ـ یہ صحافی زیادہ تر غیر سرکاری تنظیموں ، بڑے اداروں کی رپورٹنگ کرتے نظر آتے ہیں ـ اس کو ہم شوڑا مار صحافی نہیں کہہ سکتے ہیں کیونکہ شوڑا کم ہوتا ہے اور ان کا حصہ زیادہ ہوتا ہے ،اسی طرح ایک اور خاص قسم کا صحافی آرمی ، پولیس ،یعنی حکومت کے پیرول پر ہوتا ہے جو میلیٹنٹ صحافی کہلایا جاتا ہے جبکہ ایک مشہور صحافی کی قسم جو اپنے آپ کو مشہور کرانے کے لئےجان جھوکوں میں ڈال لیتا ہے مگر خبر کے لئے کوشش کر تا رہتا ہے کہ یہ ہماری ڈیوٹی ہے ہمیں ڈیوٹی سے محبت ہے اور اپنی اسی رسک کی وجہ سے وہ جان سے ہاتھ دھو بیٹھتا ہے. حالانکہ اسے پتہ ہوتا ہے کہ یہ رسکی ہے مگر مشروٹی کی وجہ سے وہ مار کھا جاتا ہے اس وجہ سے بہت سے صحافی اپنی جانیں گنوا چکے ہیں.
صحافیوں میں ایک مظلوم طبقہ فوٹوگرافر ز کا ہوتا ہے یہ طبقہ تیسری دنیا میں محروم و مظلوم طبقہ ہے مگر یورپی ممالک میں انہوں نے اتنک مچائی ہوئی ہے اور سب سے مشہور صحافی اور پیسے والے صحافی یہ ہوتے ہیں جن سے سب کانپتے ہیں اور کوشش کرتے ہیں کہ ان کی کیمروں کی فلش سے دور رہیں لیڈی ڈیانا ان ہی کی وجہ سے فرا نس میں حادثے کا شکار ہوکر زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھی ، ان کو پاپا رازی کہتے ہیں جو اس تاک میں ہوتے ہیں کہ کوئی سکینڈل سامنے آئے اور اپنی قیمت بڑھائیں ، بڑے بڑے لینز والے کیمرے ان کا کل اثاثہ ہوتے ہیں جس کو وہ گھما کے پھرتے ہیں کہ کب شکار ہاتھ آجائے یہ زیادہ تر بڑے بڑے لوگوں کی نجی زندگی کے پیاسے ہوتے ہیں. پاکستان میں اس قسم کی صحافت کو تصور نہیں ہے یہاں فوٹوگرافر جو صحافیوں کے زمرے میں آتے ہیں مگر رپورٹر ز سے انکی قدر اور ویلیو زیادہ ہوتی ہے. بہت سے رپورٹرز کے ساتھ یہ واقعات بارہا پیش آچکے ہوں گے کہ جب وہ کسی پروگرام کی رپورٹنگ کے لئے گئے ہوں گے اور ان کے ساتھ فوٹو گرافر نہیں ہوگا تو پروگرام ارگنائز ز نے فوٹوگرافرز کی کمی ضرور محسوس کی ہوگی ، بلکہ بہت سے پروگراموں سے تو رپورٹرزکو پتہ نہیں ہوگا اور فوٹوگرافرز کے علم میں بات ہوگی،کہ پروگرام ہونے جار ہاہے ، مزے کی بات یہ ہے کہ حاضرین بھی فوٹو گرافر کو دیکھ کر ذرا سا سنبھل جاتے ہیں کہ شاید کل کے اخبار میں تصویر لگ جائے کیونکہ شہرت ایسی جیسی ہے جو ہر شخص کو چاہیئے اور اخبار میں تصویر کا لگنا بہت بڑی بات ہے ، لوگوں نے کئی بار کہا ہے کہ تصویر لگنی چاہیئے خیر ہے خبر شائع نہ ہو ، تو یہ کام فوٹوگرافر کرتے ہیں جو صحافتی فیلڈ میں سب سے سے زیادہ نظر انداز ہونے والا طبقہ ہے جتنا استحصال دیگرز کا ہوتا ہے ان سے زیادہ فوٹوگرافر ز کا ہوتا ہے جس کا آسان حل پھر فوٹوگرافرز نے بھی نکالا ہے وہ تصویریں شائع کرنے کے علیحدہ علیحدہ فیس لیتے ہیں اور شہروں میں یونین کے صدور اور سیکرٹریز ان کے آسان شکار ہوتے ہیں جو خوشی خوشی دانہ پانی دیتے ہیں فوٹوگرافر بھی خوش ، تصویر اگئی تو وہ بندہ بھی خوش ، اخباری مالکان اگر فوٹوگرافر ز کو کم اجرت نہ دیتے تو یہ صحافت نہ ہوتی.
جب ہم عملی صحافت میں تھے تو ہمیں کئی دفعہ ہمارے فوٹوگرافرز صاحبان بیچا تھا جس کا ہمیں اندازہ بھی نہیں تھا مگر جب تصویر پر زور دیا جاتا اور آنکھ ماری جاتی تو سب معلوم ہوجاتا کہ یہ چکر کیا ہے،ایک خاص بات جو ان میں میں نے نوٹ کی ہے وہ یہ کہ پولیس لائن میں جب بھی کوئی پریس کانفرنس ہوتی ہے یہ صاحبان سی سی پی او، ایس پی، ڈی ایس پی اور ایس ایچ او تک کو ٹھیک جگہ سے دور کرکے دوسری جگہ ضرور تصویر کے لئے کھڑا کریں گے تاکہ ان کا رعب قائم رہے، پولیس کے افسران لوگوں کو نچاتے ہیں اور فوٹوگرافرز کو انہیں نچواتے ہم نے دیکھا ہے ، دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پشاور کے بہت سے صحافیوں نے نام کمایا ہے اور مقام بھی مگر آج بھی بہت سے بہترین فوٹوگرافر بنیادی تنخواہ سے بھی محروم ہیں حتی ان کو ادارے کیمرے بھی نہیں دیتے ، ایک ہمارے محترم دوست ہیں جو فوٹو جرنلسٹ ہیں اسے ایک دفعہ کہا کہ یار تمہارا وہ فلاں دوست تو کمال کی فوٹوگراگرافی کرتا ہے تمھاری جانب سے کوئی بہترین شاہکار نظر نہیں آتا تو اس نے بہت خوبصورت جواب دیا کہ اس کا ادارہ مضبوط اور کیمرہ لاکھوں کا ہے جبکہ ہمارے پاس تین ہزار کا کیمرہ اور موٹر سائیکل کے پٹرول کے پیسے نہیں ہوتے تو شاہکاری کیسے دیکھائیں گے جب فکر کھائے جارہی ہو کب پٹرول ختم ہوگی اور موٹر سائیکل کو دھکے لگانے پڑیں گے، ان صحافیوں کی ذوق نظر بہت اعلی ہوتی ہے روزانہ آپ لوگ اسکا اندازہ اخبارات میں فوٹوز دیکھ کے لگا سکتے ہیں کتنے خوبصورت چہرے انہوں نے قبضہ کئے ہوتے ہیں بقول ان کے وہ پروگرام میں داخل ہوتے ہیں خوبصورتی کو تاڑ لیتے ہیں اسی زمرے میں ٹی وی کے کیمرہ میں بھی آتے ہیں ، ہمارے ایک محترم تو خواتین کے پروگرام کے علاوہ کہیں جاتے ہی نہیں، وہ کہتے ہیں کہ فوٹو کے معنی ہیں خوبصورتی اور خوبصورت صرف خواتین ہوتی ہیں ، کیا منطق نکالا ہے تو اس لئے انہیں ہی capture کرنا چاہیئے باقی فوٹوگرافی نہیں ہے، اس بات کے ساتھ ختم کرتے ہیں کہ خدارا فوٹو گرافرز کو ان کا حق دیجئے کیونکہ یہ اخبار کا خاص حصہ ہیں پھر ملیں گے۔۔۔۔

Facebook Comments

اے ۔وسیم خٹک
پشاور کا صحافی، میڈیا ٹیچر

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply