تجزیہ زبان و لسان۔۔۔ایم عثمان/پانچویں ،آخری قسط

ترجمانی کی بدیہی ضرورت کے ثبوت کے بعد اس کی وضاحت کے لیے چند مثالیں بھی ضروری ہیں۔۔
1۔الحمد للہ رب العالمین۔ منزل کلام ہے جو کسی مفہوم کو پیش کر رہا ہے۔ عرب معاشرہ حمد کے تصور و مفہوم کو سمجھتا ہے کہ یہ تعریفی کلمہ ہے۔ اللہ کو سمجھتا ہے کہ کسی ذات کا اسم ہے اور رب اس معاشرے کا مستعمل لفظ ہے ایسے ہی وہ عالم کے تصور کو جانتے تھے۔۔ جب ان کے سامنے یہ کلام پیش کیا گیا تو تمام کلمات کو جانتے ہوئے ترتیب و ترکیب کلام سے مفہوم کو سمجھ گئے کہ اصل تعریف کے لائق رب کائنات ہے۔ لیکن ایک غیر عربی اس سے صرف نقش کو سمجھا اس کومقصود حاصل نہیں ہوا۔ ۔ اردو زبان میں تعریف کو حمد بھی کہتے ہیں اور رب کو پالن ہار۔ اور عالم کو جہان ، کائنات۔۔ جب اس کو سمجھایا گیا کہ حمد تعریف کے لیے استعمال ہوا ہے ایسے ہی دیگر الفاظ کے ذریعے عربی کلمات کے مفہوم سمجھائے گئے تو اس کے لیے کلام بامعنی ہوا۔۔ اگر اس کو اپنی زبان میں نہ سمجھایا جاتا تو اس کے لیے کلام بے سود تھا جو مقصود منزل کے منافی تھا۔ اللہ کے کلام سے مقصودکا وصول ہی مقصود ہے۔
2۔ اس مثال کے بعد ترجمانی کے منع کرنے والے کی کاوش کو دیکھا جائے۔۔ کیا وہ مقصود میں مخلل تو نہیں ہے یا وہ مغلوب الحال ہے کہ اس پر صرف اپنی عقل کا غلبہ ہے اور اپنے جذبات کو دین سمجھ رہا ہے۔۔ ۔
قرآن کریم میں ترجمانی کی نفی پر کوئی نص وارد نہیں ہوئی۔ نہ سنت رسول اس کے منع کا حکم دیتی ہے۔۔ جب نفی ترجمانی کا موقف منزل سے خالی ہے اور اس کے پاس منع کی کوئی دلیل قرآنی نہیں ہے تو اس کو دینی مسئلہ نہیں کہا جا سکتا یہ ایک خالص عقلی مسئلہ ہے۔ عقلی مسائل میں اتفاق و اختلاف دین میں حرج پیدا نہیں کرتے اور نہ دین ہوتے ہیں۔ اگر عقل جذبات کے ماتحت ہو کر کام کرتی ہے تو عقل کو دین بنتے وقت نہیں لگتا۔
عقلی قضایا جات میں طرفین کے موقف امکان پر قائم ہوتے ہیں جس کی دلیل عقلی امکان کے وجوب کو ضروری ثابت کرے اس فعل کے وقوع کو ممتنع قرار نہیں دیا جاسکتا۔۔
زبان ہر دور میں قابل ترجمہ و ترجمانی رہی ہے زبان کا کوئی عنصر اسے قابل ترجمہ ہونے سے روکتا نہیں ہے۔ اس کا وقوع بالفعل ہوتا رہا ہے جس نے اس کی امکانی حیثیت کو فعل کے وجوب سے بدل دیا ہے جس کے بعد امکان کی بحث کی حاجت نہیں رہتی۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply