باجوہ ڈاکٹرائن ۔۔۔ گل ساج

وزیراعظم عمران خان کا اعلان ِکراچی انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ جہاں کراچی شہر کی تعمیر و ترقی صفائی ستھرائی امن وامان ترقیاتی منصوبوں کی بات کی گئی وہیں افغانی، بنگالی، برمی، روہنگین اور وہ غیر ملکی افراد جن کی اولاد پاکستان میں پیدا ہوئی انہیں قومی شناختی کارڈ دینے کا اعلان کیا گیا۔ یہ اس حکومت کا بہت بڑا قدم ہوگا۔ 

یہ مسئلہ عرصہ دراز سے لاینحل ہے جس میں بہت پیچیدگیاں ہیں۔ وزیراعظم نے بظاہر بِھڑوں کے چھتے میں ہاتھ ڈال دیا ہے۔ اس کے مضمرات نتائج و عواقب کیا ہونگے اس پہ غور کرنے کی ضرورت ہے۔ 

یقیناً یہ فیصلہ اردوسپیکنگ کمیونٹی اور افغان مہاجرین کے لئیے خوش آئیند ہے۔ اس سے پی ٹی آئی کے ووٹ بینک میں خاطر خواہ اضافہ بھی ہوگا۔ میرے خیال میں پی ٹی آئی میں اردو بولنے والے سرکردہ ممبران کی خواہش اور دباؤ کے ساتھ ساتھ مقتدر قوتوں کو اعتماد میں لے کے یہ فیصلہ کیا گیا۔ پی ٹی آئی میں موجود اردو بولنے والے رہنماؤں کی طرف سے عمران خان کو امید دلائی گئی کہ اس سے آپ قائد اعظم ثانی کے طور پہ ابھریں گے۔ میرے خیال میں اس اقدام سے عمران خان کو قائداعظم ثانی تو نہیں لیاقت علی خان کے نقش قدم پہ ضرور چلانے کی کوشش کی جا رہی۔ 

پیپلزپارٹی نے اس اعلان کو مسترد کر دیا ہے۔ سندھی قوم پرست جماعتیں بھی اس پہ سخت ردعمل دیں گی۔ یہ قدم ایم کیو ایم کی شکست و ریخت میں اضافہ کرے گا۔ اردو سپیکنگ کمیونٹی کا ووٹ بینک پی ٹی آئی کو منتقل ہو جائے گا۔ کراچی، حیدرآباد اور سندھ کی دوسری بڑی پارٹی اور مسلسل اقتدار میں رہنے کے باوجود ایم کیو ایم اتنا بڑا قدم نہیں لے سکی۔ سالہا سال سے موجود یہ خلیج عمران خان نے ایک ہی جست میں طے کر لی ہے۔ 

اس اعلان نے ایم کیو ایم کے نصب العین نعرے اور بنیاد کو ہی ختم کر دیا ہے۔ اسی طرح افغان مہاجرین کا دیرینہ مسئلہ بھی حل ہونے کو ہے۔ یہ بہت ہی گنجلک اور انسانی حقوق و اخلاقیات پہ مبنی ایشو ہے۔ وہ افغانی جن کی ایک نسل پاکستان میں پیدا ہوئی انہیں بیک جننشِ قدم کیسے ملک بدر کیا جا سکتا تھا؟

حقیقت ہے کہ عمران خان اگر یہ کر گزرتے ہیں تو پختون اوراردوسپیکنگ مہاجر کمیونٹی کے دل جیت لیں گے جو پی ٹی آئی کی مقبولیت کو انتہائی درجے پہ لے جا سکتی ہے مگر سندھی اور قوم پرست جماعتیں بشمول پیپلز پارٹی جو پہلے ہی احساسِ عدم تحفظ کا شکار ہیں، کراچی کو اردو بولنے والوں کے ہاتھوں مقبوضہ سمجھتی ہیں۔ وہ اس اکثریت کو اقلیت میں بدلنے پہ محمول کریں گی۔ 

ایک جوار بھاٹا ہوگا جو انگڑائی کے بیدار ہونے کو ہے۔ ان کے خدشات بھی کسی حد تک جائز ہیں۔ انہیں مطمئن کرنا ضروری ہے۔ 

تمام غیر ملکی افراد جو پاکستانی شہریت حاصل کریں گے کو ایک ہی جگہ (کراچی) کے بجائے پاکستان کے مختلف شہروں میں بسانے کی بات کی جائے گی۔ یہ بہت کٹھن مرحلہ ہوگا۔ ہر دوسری بات شہریت سے مشروط کردی جائے تب عارضی طور پہ شاید یہ افراد انتقالِ آبادی کر بھی لیں مگر کچھ عرصے بعد دوبارہ پھر سے کراچی میں ہی آن بسیں گے۔ انہیں ایسا کرنے سے کس بنیاد پہ روکا جا سکے گا کہ وہ پاکستان کے شہری ہونگے۔ اس کے لئیے جامعہ منصوبہ بندی کی ضرورت ہوگی۔ شاید آئین میں ترمیم بھی کرنی پڑے۔

دوسری طرف چیف جسٹس صاحب کالاباغ ڈیم کی تعمیر کے متعلق اشاروں کنایوں سے براہ راست کھل کر سامنے آرہے ہیں۔ ڈیمز کی تعمیر کی مخالفت کو آرٹیکل 6 غداری کے زُمرے میں لانے کی بات کرتے ہوئے ان کا دبنگ لہجہ کسی اور ہی بات کی چغلی کھا رہا ہے

چیف جسٹس کے ریمارکس نے پیپلز پارٹی اور سندھ کی عوام میں بے انتہا تشویش پیدا کر دی ہے کالا باغ ڈیم کا مخالف غدار کہلائے گا۔ 

اس طرح تو غالب اکثریت پہ آرٹیکل 6 لاگو کرنا پڑے گا۔ کالا باغ ڈیم ایشو پہ پختون قوم پرست جماعتیں بھی ردِعمل دیں گی۔ 

ان سب خدشات و مضمرات کے باوجود محسوس ہو رہا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ آرمی اور عدلیہ موجودہ حکومت کے ساتھ مل کے پاکستان کے سالہا سال سے موجود ایشوز کو حل کرنے کا تہیہ کر چکی ہیں۔ یہ سب اقدامات مضبوط وفاق کی طرف اشارہ کر رہے ہیں۔ 

سوال یہ ہے کہ اٹھارویں ترمیم کی موجودگی میں یہ سب کچھ ممکن ہوگا؟

ان سب اقدامات سے پیپلز پارٹی کے اس خدشے کی تصدیق

بھی ہوتی ہے کہ موجودہ حکومت اٹھارویں ترمیم کو ختم کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔ اٹھارویں ترمیم دراصل صوبوں کی خود مختاری ان کے صوبائی اسٹیک کو تحفظ دیتی ہے، اور انہیں بااختیار بناتی ہے، کئی اہم معاملات میں صوبائی کنٹرول کو یقینی بناتی ہے۔ 

فوج، عدلیہ اور موجودہ حکومت کی ٹرائیکا اگر یہ نڈر اقدامات کامیابی سے اٹھا لیتی ہے تو ملک کا رُخ یکسر بدل جائے گا۔ ملک حقیقی معنوں ميں نیا پاکستان کہلائے گا۔ 

Advertisements
julia rana solicitors

یہ تبدیلی کیا رنگ لائے گی انتظار کیجئیے۔ 

Facebook Comments

گل ساج
محمد ساجد قلمی نام "گل ساج" مظفر گڑھ جنوبی پنجاب ۔۔۔۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply