جبری مذہبی تبدیلی اور دستور پاکستان ۔۔ سیدہ ماہم بتول

جبری مذہبی تبدیلی اور دستور پاکستان۔

اسلامی جمہوریہ پاکستان اپنے شہریوں کو اپنے اپنے مذہب پر عمل کرنے، اسکی تبلیغ کرنے اور اس کو ظاہر کرنے کی اجازت دیتا ہے۔ قطع نظر اس بات کہ وہ کس مذہب کے نام لیوا ہیں۔

 دستور پاکستان، آرٹیکل 20

اسلامی جمہوریہ پاکستان کے دستور کا آرٹیکل 20 اس حوالے سے کہتا ہے:

الف) قانون عوامی نظم و ضبط اور اخلاقیات کو مد نظر رکھتے ہوئے ہر شہری کو اپنا مذہب اختیار کرنے، اس کا دعوی کرنے اور اس کی تشہیر کرنے کا حق دیتا ہے۔

ب) ان مذاہب کے ہر مسلک اور ہر فرقے کے ماننے والوں کو اپنے دینی ادارے قائم کرنے، انہیں برقرار رکھنے اور اور ان کی نظم و نسق کرنے کا حق ہوگا۔

تاہم یہ دستوری تحفظ، معاشرے کے کافی بااثر افراد جیسا کہ جاگیردار کے خلاف غیر مؤثر تھا۔ مخصوص اقلیتوں کو مجبور کیا جارہا تھا کہ وہ اپنا مذہب چھوڑ کر زبردستی اسلام قبول کرلیں۔ ان وڈیروں کا یہ طرز عمل اسلام کے پیش کردا اصولوں اور احکامات کی بھی مخالفت کرتا تھا۔ جن میں صاف لکھا ہے کہ “مذہب کی جبری تبدیلی ایک ممنوعہ عمل ہے۔ اس معاشرتی لعنت سے نمٹنے کے لئے پارلیمنٹ نے 2016 میں ایک “ایکٹ برائے تحفظ اقلیات” متعارف کرایا۔

 اقلیتوں کا تحفظ ایکٹ

اس قانون کے تحت حکومت پاکستان اپنے سر پر یہ ذمہ داری لیتی ہے کہ وہ دستور کے آرٹیکل 20 کو اس کی اصل رو کے مطابق نافذ کریگی۔ یہ قانون جبری مذہبی تبدیلی کی بھینٹ چڑھنے والے افراد کی حمایت اور تحفظ فراہم کرنے والے اقدامات کے بارے میں بھی بتاتا ہے۔

اس قانون کی اہم خصوصیات مندرجہ ذیل ہیں:

(1) 18 سال سے کمر عمر افراد اپنا مذہب تبدیل نہیں کر سکتے۔
(2) کسی بھی شہری کو زبردستی مذہب چھڑوانے پر ڈرا دھمکا کر یا طاقت اور تشدد کے ہتھکنڈوں کے زریعے خواہ اس کا تعلق اس کی ذات سے ہو یا اس کے اہل و عیال سے ہو اس کی سزا پانچ سال رکھی گئی ہے۔
(3) قانون نے ایسے شخص کے لئے بھی کم از کم تین سال قید کی تجویز کی ہے جو ایسے شخص کا نکاح پڑھائے جس کا مجبورا مذہب تبدیل کرایا گیا ہو۔
(4) قانون ان تمام اشخاص کے لئے بھی پانچ سال کی سزا تجویز کرتا ہے جو اس کام میں کسی طرح کی بھی معاونت فراہم کریں گے۔

اس قانون کی ایک اور نایاب خصوصیت یہ کہ قانون جبری مذہب تبدیل کرانے والے اشخاص پر مندرجہ ذیل دیگر جرائم کی رپورٹ بھی درج کرتا ہے اور سمجھا یہ جاتا ہے کہ گویا اس نے مندرجہ ذیل جرائم کا ارتکاب کیا ہو۔

(1) زبردستی شادی۔
(2) عصمت دری۔
(3) اغوا۔
(4) جبری مشقت۔

قانون یہ اختیار دیتا ہے کہ جس جس کے علم میں بھی کوئی جبری مذہبی تبدیلی کا واقعہ ہو وہ متعلقہ اداروں میں شکایت درج کرائے۔ شکایت کو وصولی کے بعد عدالت سات دنوں کے اندر اندر ملزم کو نوٹس جاری کریگی کہ وہ آئے اور اپنی صفائی پیش کرے۔ عدالت کے پاس یہ اختیار ہے کہ وہ قانون کو نافذ کرنے والے اداروں کو حکم دے کہ وہ جبری مذہبی تبدیلی کی بھینٹ چڑھنے والے افراد کو نا صرف یہ کہ محفوظ مقام فراہم کرے، بلکہ ایسے افراد کے عمر اور شادی کی حیثیت کے متعلق بھی حقائق جمع کرے۔ حقائق کے پیش ہونے کے بعد اگر عدالت کو لگے کہ جبری تبدیلی کا حامل شخص بالغ ہے تو اسے اکیس (21) دنوں کی مہلت دی جائے گی جس میں اس سے کہا جائے گا کہ وہ مختلف مذاھب کو جانچے اور پھر فیصلہ کرے۔ اگر ایسے شخص کو پناہ اور دیگر وسائل کی ضرورت ہو تو عدالت وہ بھی مہیا کرے گی۔

Advertisements
julia rana solicitors

یہ قانون پاکستان کی تاریخ میں ایک اہم سنگ میل ہے اور مجھے یہ امید ہے کہ اس کی وجہ سے اقلیتوں کے مسائل اور شکایات میں کمی واقع ہوگی اور قانون کی حدود میں رہتے ہوئے انہیں اپنے انداز میں اپنے مذاہب پر عمل کرنے کا بھرپور موقع ملے گا۔ یاد رکھیں، اقلیتیں بھی اتنی ہی پاکستانی ہیں، جتنے کہ  مسلمان!

 

Facebook Comments

سیدہ ماہم بتول
Blogger/Researcher/Writer

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply