کوت العمارہ: جنگِ عظیم اوّل کی ایک داستان ۔۔ قُرسم فاطمہ

نیلے آسمان کے اس گنبد کے نیچے

اپنے خون سے ایک تاریخ رقم کرنے والے

اُن شہیدوں کو سلام

اتحادِ اسلام اور وطن کے لیے

جو بلا خوف و خطر اپنا سینہ تانے چل پڑے

اُن شہیدوں کو سلام

نیلے آسمان کے گنبد تلے ارضِ وطن کے حصول کے لیے بقا و فنا قربان کردینے والے شہداء و غازیوں کی عظیم داستانیں ہر دور میں آنے والی نسلوں کے ارواح و اجسام اور دل و دماغ میں امر رہتی ہیں۔ گہری دھند کے سائے میں ستاروں کی مانند چمکنے والوں کو تاریخ کبھی فراموش نہیں کرتی۔ آسمان پر جگمگاتے ستارے نہ کبھی چھپتے ہیں نہ کبھی فراموش کیے جاتے ہیں۔ وہ ہر دور میں نئی نسلوں کو یہ باور کروانے کے لیے ضرور ظاہر ہوتے ہیں کہ اگر آج تم کسی زمین کے مالک ہو تو اس کی مٹی تلے ہمارے جیسے کروڑوں ستارے دفن ہیں جنہوں نے تمہارے کل کے لیے اپنا آج قربان کردیا تھا۔

وقت ہر نسل کو کچھ ذمہ داریاں ضرور سونپتا ہے۔ وقت کسی کو بقا کے لیے تیار کرتا ہے اور کسی کو فنا کے لیے مگر کچھ نسلوں کو ایسی ذمہ داریاں سونپی جاتی ہیں جنہیں نبھانے والے فنا ہوکر بقا پاجاتے ہیں۔ دنیا کی تاریخ میں “جنگِ عظیم اول” وقت کے سخت اور طویل ترین امتحانات میں سرِ فہرست ہے جس میں شہید ہونے والے شہداء کی ارواح مسلم دنیا کی محافظ ہیں۔ اس جنگ میں ایک طرف جرمنی، آسٹریا، خنگری سلطنت، ترکی اور بلغاریہ جبکہ دوسری طرف برطانیہ، فرانس، روس، اٹلی، رومانیہ، پرتگال، جاپان اور امریکا تھے۔ جنگ کے تمام واقعات و اثرات میں سرِ فہرست “سلطنتِ عثمانیہ” کا خاتمہ ہے۔ کفار بھوکے شیر کی مانند سلطنت کے خاتمے کے منتظر تھے۔ اسی ناپاک عزم کے تحت خلافت کے خاتمے کے لیے چاروں اطراف سے سلطنت عثمانیہ پر حملہ کیا گیا تھا جس کا پہلا شکار استنبول پر بذریعہ چناق قلعہ (گیلی پولی) کیا گیا اور بعد ازاں جنگ کا دائرہ کار مشرق وسطیٰ جزیرۃ العرب تک پھیلادیا گیا ۔ کفار کے بڑھتے دباؤ کے باعث ترکوں کی اولین ترجیح حجاز مقدس، عراق اور بغداد میں اہلِ بیتِ اطہار اور صحابہ کرام رضہ کے مزارات اور مقدس تبرکات کی حفاظت کرنا تھا۔ اسی ترجیح کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے ہزاروں کی تعداد میں عثمانی سپاہی کوت العمارہ کی طرف بھیجے گئے جن کا مقصد در حقیقت بغداد کی حفاظت کرنا تھا۔

برطانیہ کی جانب سے کیے جانے والے حملوں میں محاصرۂ کوت ۶ دسمبر ۱۹۱۵ سے ۲۹ اپریل ۱۹۱۶ تک جاری رہنے والا پہلی جنگ عظیم کا سب سے اہم ترین معرکہ تھا۔ کوت مشرقی عراق کا ایک شہر ہے جو دریائے دجلہ کے کنارے بغداد سے چند کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ ستمبر ۱۹۱۵ میں میجر جنرل چارلس ٹاؤنشینڈ کی سربراہی میں برطانوی میسوپوٹیمیائی مہم جو فورس (میسوپوٹیمیا مغربی ایشیا کا تاریخی علاقہ جو دجلہ فرات کی ندیوں کے اندرونی نظام میں واقع ہے جو آج کے دور میں عراق کے نام سے جانا جاتا ہے) بصرہ سے شمال کی جانب روانہ ہوئی جس کے نتیجے میں عثمانی فوج کو غالباً تین دن کی لڑائی کے بعد کوت سے نکال دیا گیا۔ اس معرکے کو میسو پوٹیمین مہم کے نام سے جانا جاتا ہے۔ دوسری جانب ۶ دسمبر ۱۹۱۵ کو ترک فوج کمانڈر خلیل پاشا کی قیادت میں کوت پہنچے اور عثمانیوں کی جانب سے محاصرے کا باقاعدہ آغاز کیا گیا۔

کوت العمارہ کی طرف روانہ ہونے والی عثمانی بٹالین کا جوش و جذبہ قابلِ تحسین تھا۔ ان سپاہیوں کو “مہمت چک” کا لقب دیا گیا۔ ترکی کے سپاہیوں اور فوجیوں کو چھوٹا مہمت (مہمت چک) کا لقب اس وقت ملا جب ” مہمت چاوش( سارجنٹ)” نامی ایک ترک سپاہی نے بلقان کی جنگوں میں روس کے خلاف بہادری سے جہاد کیا اور جنگ عظیم ( گیلی پولی کی جنگ) میں کافر اتحادی فوجوں کو ناکوں چنے چبوائے اور داد شجاعت پائی۔ جنگ میں اہل زر نے اپنا مال و دولت، اہلِ علم نے اپنی علم و حکمت، اہل فن نے اپنا کسب و کمال، اہل قلم نے اپنے الفاظ و جذبات اور اہل دل نے اپنی وفائیں اور دعائیں عثمانیہ سلطنت کے لیے وقف کردی تھیں۔ عثمانی فوج ہاتھوں میں ہتھیار تھامے قلب و روح کو ایمان کی چاشنی سے منور کرتے ہوئے رواں دواں تھی۔ مذہب کی آزادی اور وطن کا حصول اُن کی آرزو تھی۔ وطن و مذہب سے وفاداری نبھانے والوں کے لیے سرذمین ماں اور قوم باپ کی حیثیت رکھتی تھی۔ مسجدوں کو مورچے، میناروں کو نیزے اور گنبد کو ڈھال بنانے والوں کا مقصدِ عین فتح اور انجام بخیر شہادت تھا۔ وطن کی محبت میں کندن بننے والے اپنے سینوں کو ڈھال بنا کر اللہ کی راہ میں اس یقین کے ساتھ نکلے تھے کہ اگر وہ مر بھی جائیں تو اُن کا لہو مسترد نہیں کیا جائے گا بلکہ اُن کی معزز روحیں ہمیشہ مٹی کی محافظ بن کر رہیں گی۔

محاصرے کے دوران کوت کے بہادر سپاہی ہر قدم پر سیاہ بادلوں کو چیرتے ہوئے اپنے مقصد کے لیے ڈٹے ہوئے تھے۔ انگریزوں کی تمام تر کوششیں بھی عثمانی فوج کا جذبہِ ایمان ذرہ برابر بھی کم نہ کرسکیں۔ ایک طرف انگریز جاسوسوں کی جانب سے عربوں کو ترکوں کے خلاف بغاوت کرنے اور مسلمانوں کے درمیان شیعہ سنی اور عربی و عجمی فسادات کو پروان چڑھانے کی جدوجہد کی گئی جو کافی حد تک کامیاب بھی ہوئی مگر دوسری جانب عثمانی جاسوسوں کی جانب سے کیے جانے والے خفیہ حملے آہنی دیوار بن کر سامنے آئے جن کو سر کرنا انگریزوں کے لیے ناممکن ثابت ہوا۔ اس کے علاوہ محاصرے کے اختتام کے قریب ٹی ای لارنس اور برطانوی انٹلیجنس کے آوبری ہربرٹ نے خلیل پاشا کو رشوت دینے کی ناکام کوشش بھی کی مگر وہ یہ بھول گئے تھے کہ ایک مسلمان اپنے وطن کے بچے نہ تو بیچ سکتا ہے نہ کسی کو خریدنے کی اجازت دے سکتا ہے۔ لہٰذا کفار ہر قدم پر لڑکھڑاتے رہے اور بلآخر جنرل ٹاؤن شینڈ نے آٹھ ہزار زندہ بچ جانے والے فوجیوں کے ساتھ ۲۹ اپریل ۱۹۱۶ء کو کوت عثمانیوں کے حوالے کردیا۔ تاریخ کے مطابق کوت کے معرکے میں برطانوی افواج کے ۲۳ ہزار سپاہی ہلاک و زخمی ہوئے جبکہ آٹھ ہزار قیدی بنا لیے گئے اور عثمانی افواج کے دس ہزار فوجی شہید و زخمی ہوئے۔

کوت العمارہ میں داخل ہونے سے قبل خلیل پاشا نے وزیرِ جنگ انور پاشا کے نام درج ذیل تاریخی خط تحریر کیا جس کے ہر حرف سے آزادی کی مشک ٹپک رہی تھی۔

وزیرِ جنگ انور پاشا!

خدا کا شکر ہے۔ آج کا دن عالمِ اسلام کے لیے خوشی کا دن ثابت ہوا ہے۔ ہم کبھی سست نہیں پڑے نہ ہم نے کبھی ہار مانی۔ یہ سوچے بغیر کے راستہ کتنا کمبا ہے، زندگی کتنی حسین ہے اور خون کتنا قیمتی ہے، ہم صرف ایک مقصد کے لیے کوشش کرتے رہے کہ جیت ہماری ہوگی اور ہمارا وطن آزاد ہوگا۔ آخر کار اللہ کے حکم سے ہمیں فتح نصیب ہوئی۔ یہ ہمارے لیے ایسی عظیم فتح ہے جس نے مجھے اس سوچ میں ڈال دیا ہے کہ اگر میرا ایک اور نام ہوتا اور “کوت خلیل” ہوتا۔ جلد ہی میں اپنے شہر کو واپس لینے جاؤں گا۔ اللہ ہم سب کو سلامت رکھے۔ آپ کے لیے محبت بھرا سلام!

دوسری جانب جنرل ٹاؤنشینڈ نے بھی کوت العمارہ کے حوالے سے تاریخی الفاظ تحریر کیے:

۲۹ اپریل کی صبح میری زندگی کی ایسی صبح ہے جو عنقریب ختم ہونے جارہی ہے۔ یہ ایک ایسی یاداشت کے طور پر مجھے یاد رہے گا جو دکھ سے بھری ہو۔ اس کے علاوہ میں سوچتا ہوں کہ اس سرزمین پر ترک جتنی کوئی اور بہادر آرمی نہیں ہے۔ اُمید ہے کہ تاریخ مجھے سمجھ جائے گی کہ میرا ہتھیار ڈالنے کا فیصلہ صیح تھا۔ آخرکار مجھے اب وہ شہر چھوڑنا ہے جس کا میں مہینوں سے دفاع کررہا تھا۔ لیکن میں اپنے سچے دل سے کہتا ہوں کہ اگر ایک طرف کوت العمارہ اور دوسری طرف جہنم ہو تو میں یقیناً جہنم کا انتخاب کروں گا۔

جنگِ عظیم کے تاریک واقعات میں “کوت” کی فتح مسلمانوں کے لیے روشن سویرے کی مانند تھی اور انگریزوں کی تاریخ میں محاصرۂ کوت کو جنگ کے سیاہ ترین باب کے طور پر تحریر کیا جاتا ہے۔ اس شکست نے انگریزوں کی صدیوں سے جاری فتح کا غرور خاک میں ملایا تھا۔ کوت کو فتح کرتے وقت مسلمانوں کی اولین ترجیح اپنے مقدس شہر بغداد اور عراق کی حفاظت کرنا تھا۔ اگر اُس وقت کوت حاصل نہ کیا جاتا تو آج مسلمان الف لیلوی داستانوں کے عظیم شہر بغداد سے محروم ہوتے کیونکہ انگریزوں کا اصل مقصد کوت میں داخل ہوکر بغداد کی طرف جانا تھا مگر عثمانی فوج نے کوت پر محاصرہ کرکے بغداد کی طرف جانے والے ہر ناپاک قدم کو روک لیا۔ اگر ہم آج کے دور ناصبور کا جائزہ لیں تو احساس ہوگا کہ ایک مرتبہ پھر تاریخ دہرائی جارہی ہے۔ کبھی شام، عراق، فلسطین تو کبھی برما، کشمیر اور بوسنیا کے مسلمانوں پر حملے کیے جاتے ہیں۔ اب وہ وقت آگیا ہے کہ ایک مرتبہ پھر دشمن کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر ڈٹ کر مقابلہ کیا جائے اور دنیا کو یہ سبق دہرادیا جائے کہ جب تک مسلمانوں کے سینوں میں ایمان کی طاقت ہے وہ ہار نہیں مان سکتے۔

چند سال قبل ترکی کے مشہور و معروف تخلیق کار “مہمت بوزداغ” نے محاصرۂ کوت کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے “مہمتچک کوت العمارہ” کے نام سے ڈرامہ تخلیق کیا جو شہرت و کامیابی میں اپنی مثال آپ ہے۔ یہ ڈرامہ ترک صدر طیب اردوگان کی خصوصی فرمائش پر تخلیق کیا گیا تھا اور اس کی اہمیت کا ا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ ڈرامے کا پہلا پرومو جب ریلیز کیا گیا تو طیب اردوگان اسے دیکھتے ہوئے باقاعدہ طور پر آبدیدہ ہوگئے تھے۔ ڈرامے کا سب سے اہم نقطہ آج کے مسلمانوں میں ایمان اور امید قائم کرنا ہے اور عالمی دنیا کو یہ سبق باور کروانا ہے کہ مسلمان کبھی بھی کسی بھی حال میں اسلام کا، حق کا اور انصاف کا پرچم جھکنے نہیں دیں گے۔ یہ کہانی آپ کو سکھائے گی کہ سلطنتِ عثمانیہ نے ان زمینوں کی خاطر ان گنت قربانیاں دی ہیں۔ وہ اپنے وطن، اپنی سلطنت اور اپنے خوابوں کے لیے آخری سانس تک لڑتے رہے۔ انہوں نے اپنی روح اللہ کو دی مگر اپنی زمین دشمن کو نہیں بیچی۔

Advertisements
julia rana solicitors london

جب تک آسمان سے سورج طلوع ہوتا ہے اور جب تک رات کو ستارے جھلملاتے ہیں، اس وقت تک اُمید قائم ہے اور جب تک اُمید قائم ہے، مسلمان زندہ ہے اور جب تک مسلمان زندہ ہے، فتح یقینی ہے۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply