ہندی فلموں میں جاگیردارانہ محبت۔۔ذوالفقار علی زلفی

ہندی سینما میں پچاس اور ساٹھ کی دہائی کی فلموں میں مرد و عورت کے تعلقات پر جاگیردارانہ روایات و اقدار کے اثرات حاوی نظر آتے ہیں ـ جاگیردارانہ سماج میں ذرائع پیداوار پر ایک مخصوص بالائی طاقت کا قبضہ ہوتا ہے ـ وہ زیردست طبقات کو زندگی کے مختلف معاملات میں استعمال کر کے اپنے اقتدار کو دوام بخشتا ہے ـ جاگیردارانہ سماج کے بالائی طبقات میں عورت کا سماج کی خارجی زندگی میں کوئی کردار نہیں ہوتا ـ وہ ایک غیر پیداواری طبقہ تشکیل دے کر محض بالائی طبقات کے مردوں کو دلبستگی اور تسکین کا سامان مہیا کرتی ہے ـ

عوورت کے اس کردار کی وجہ سے مرد کا اس کی جانب جھکاؤ یک طرفہ ہوتا ہے ـ مرد اس کے حسن کی تعریفیں کرتا ہے، اس کی پاک دامنی کو خوبی کے طور پر پیش کرتا ہے، حسن کو حاصل کرنے کے لیے نت نئی تراکیب لڑاتا ہے ـ بالائی طبقات کی یہ ثقافت سماج کے نچلے طبقات میں بھی سرایت کر جاتی ہے اور نتیجہ یہ کہ ان طبقات میں عورت کو اسی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے ـ

پچاس اور ساٹھ کی دہائی کی ہندی فلموں میں محبت اسی کلچر سے متاثر نظر آتی ہے ـ مرد عورت کے حسن پر فریفتہ ہو کر اس پر ڈورے ڈالتا ہے ـ اس کے حسن کی تعریف پر مبنی گانے گنگناتا ہے ـ آخرکار عورت مرد کی کسی خارجی خوبی مثلاً ایمان داری، بہادری، خودداری یا شاعری سے متاثر ہو کر اس کی محبت میں گرفتار ہو جاتی ہے ـ جاگیردارانہ سماج میں چونکہ عورت خاندان کے مرد سربراہ کی ملکیت متصور ہوتی ہے، اس لیے عورت عاشق مرد کو اپنے جسم پر کنٹرول کی اجازت اس وقت تک نہیں دیتی جب تک خاندان کا مرد سربراہ شادی کی اجازت نہ دے ـ

70 کی دہائی میں ہندوستانی سماج میں صنعتی روایات کسی حد تک اپنی جگہ بنا لیتے ہیں ـ صنعتی اور جاگیردارانہ اقدار کی متوازی موجودگی کے باعث 70 کے بعد کی فلموں میں گو کہ عورت کا کردار وہی رہتا ہے جو ماضی میں تھا لیکن ایک تبدیلی یہ آتی ہے کہ اب عورت عاشق مرد کی اپنے جسم پر اجارہ داری تسلیم کر لیتی ہے ـ خاندان کے مرد سربراہ کو منفی انداز میں پیش کر کے عورت کے اس عمل کو “بغاوت” کا نام دیا جاتا ہے ـ وہ باپ/بھائی کے گھر سے بھاگنے لگتی ہے ـ تاہم اس پورے عمل میں جاگیردارانہ خاندانی نظام کو برقرار رکھا جاتا ہے ـ عورت عاشق مرد کو اس وقت تک اپنے جسم سے لذت کشید کرنے کی اجازت نہیں دیتی جب تک مرد شادی کے ادارے میں داخل نہ ہو ـ

90 کی دہائی میں صورتحال بتدریج بدلنے لگتی ہے ـ عورت کی غیرپیداواری حیثیت، خاندان کا ادارہ اور شادی کی ضرورت برقرار نظر آتی ہے لیکن اب عورت عاشق مرد کو دخول کے علاوہ جنسی محبت کے دیگر افعال سرانجام دینے سے نہیں روکتی ـ

Advertisements
julia rana solicitors london

نئی صدی میں جہاں سماج کے مختلف طبقات کی جانب سے خارجی زندگی میں عورت کا کردار بڑھانے کے مطالبات تیز ہونے لگتے ہیں وہاں فلموں میں عورت و مرد کے تعلقات بھی بدلتے نظر آتے ہیں ـ خاندان کا روایتی ادارہ کمزور نظر آنے لگتا ہے ـ شادی سے پہلے جنسی تعلقات رکھنا اب معیوب نہیں ہوتا ـ مرد کی محبت یکطرفہ ہی ہوتی ہے لیکن پاک دامنی اب قصہ پارینہ ہو چکا ہے ـ محبوب کی جگہ گرل فرینڈ کی اصطلاح لے لیتی ہے ـ جسے پہلے بے وفائی سمجھ کر غمگین گانے تخلیق کیے جاتے تھے اب وہ مغرب کے صنعتی سماج سے مستعار لیے ہوئے بریک اپ کا نام پا کر معمول کا واقعہ بن جاتا ہے ـ کیچ اپ کی مغربی اصطلاح کے ذریعے بے وفا عورت سے دوبارہ رجوع کرنا محبت پر کوئی منفی اثرات مرتب کرتا نظر نہیں آتا ـ اس کو اصطلاحاً “نیم جاگیرادارانہ اور نیم سرمایہ دارانہ محبت” کا نام دیا جا سکتا ہے ـ

Facebook Comments

ذوالفقارزلفی
ذوالفقار علی زلفی کل وقتی سیاسی و صحافتی کارکن ہیں۔ تحریر ان کا پیشہ نہیں، شوق ہے۔ فلم نگاری اور بالخصوص ہندی فلم نگاری ان کی دلچسپی کا خاص موضوع ہے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply