کامیابی: ایک واحد راستہ ۔۔۔۔۔فرخ میر/مترجم اویس احمد

جولائی 2018 کے انتخابات پاکستان کی سیاست میں ایک ہموار اور خوشگوار انتقال اقتدار کا باعث بنے جس کے نتیجے میں عمران خان وزیر اعظم کی ٹرافی جیتنے میں کامیاب ہو گئے۔ مگر ابھی انہیں ایک نہایت مشکل اور اعصاب ہلا دینے والا ٹیسٹ میچ کھلینا ہے جو سنسنی خیز داؤپیچ سے بھرپور ہو گا۔
پاکستان کو اس وقت اپنی بقا کو درپیش خطرات کا سامنا ہے ۔ اس کا مستقبل خدشات کا شکار ہے ۔اور یہ محض قصہ کہانی کی بات نہیں ہے۔ ستمبر 2001 کے بعد اس بدقسمت ملک پر جس بھی جمہوری یا آمر حکمران  نے حکومت کی وہ امریکی جنگی عزائم کا آلہ کار ہی بن کر رہا۔ نتیجہ معاشی و سیاسی ابتری اور قتل و غارت کی صورت میں نکلا جو ملک کو معاشی بحران کی طرف دھکیلتا ہوا لے گیا۔ملکی معیشت پرچھائے بادل گرج گرج کر معیشت کی تباہی کی خبر دے رہے ہیں اور ملک کی نصف سے زیادہ آبادی غربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کر رہی ہے۔ یہ ویسے ہی حالات ہیں جن سے یونان، یوکرائن اور مشرقی یورپ بھی نبرد آزما ہیں۔

ایسے میں پاکستان کے نومنتخب حکمران  اقتدار کے ایوان میں داخل ہوتے ہیں جہاں دیرینہ بیرونی اور اندرونی چیلنجز ان کے استقبال کے لیے تیار ہیں۔میرے نزدیک پاکستان کو درپیش بیرونی مسائل اس ملک کے اندرونی مسائل سے کہیں زیادہ سنگین ہیں۔ تاریخی تناظر میں پاکستان کے اندرونی مسائل کا براہ راست تعلق پاکستان کی خارجہ پالیسی سے ہے۔ مثال کے طور پر جیسے 1981 میں امریکی صدر ریگن نے اپنے سی آئی اے کے سربراہ ولیم جے کیس کو ہدایت کی تھی کہ پاکستان کے صدر جنرل ضیا الحق کو درپیش اندرونی مسائل میں اس کی مدد کی جائے۔” اس کے نتیجے میں بے نظیر بھٹو کو مغرب کی جانب سے سردمہری کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ بعد میں 1986 میں بے نظیر بھٹو کے لیے پاکستان آنے کی راہ ہموار ہوئی تاکہ وہ جنرل ضیا الحق کی آمریت کے سامنے ڈٹ کر کھڑی ہو سکے۔ یقیناً اس میں امریکہ کی آشیرباد شامل تھی۔ اب ایک بار پھر پاکستان کو خارجہ پالیسی کے محاذ پر معاندانہ حالات کا سامنا ہے۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پاکستان کو درپیش سنگین بیرونی چیلنج دراصل کیا ہے؟ اس کا جواب ہے ایک حقیقت پسندانہ خارجہ پالیسی کی تشکیل۔ ایک ایسی پالیسی جس کو اپنا کر انتہائی ضروری علاقائی امن کا قیام عمل میں لایا جا سکے۔ ایک ایسی پالیسی جس پر عمل کر کے پاکستان کے معاشی حالات کو بہتری کی طرف لے جایا جاسکے۔
پاکستان قدرتی طور پر جنوبی ایشیا کے تزویراتی محل وقوع پر واقع ہے جہاں پر دنیا کی دو بڑی طاقتوں چین اور امریکہ کے مفادات متصادم ہیں۔
واشنگٹن چین کے بڑھتے ہوئے معاشی اثرورسوخ کو اپنے عالمی کردار کے حوالے سے خطرہ محسوس کرتا ہے۔ چین کا ون بیلٹ ون روڈ منصوبہ ایک عظیم عالمی منصوبہ ہے جس پر اس کے باقی دنیا کے ساتھ مستقبل کے باہمی معاشی منصوبوں کا انحصار ہے۔ مستقبل میں امریکہ اور چین کے مابین کسی قسم کے فوجی تناؤ کی صورت میں امریکہ چین کے جنوبی سمندر کی ناکہ بندی کر سکتا ہے جس سےچین کی معیشت گھٹنوں کے بل گر سکتی ہے۔ ایسی کسی بھی صورت حال میں چین کی جانب سے مشرق وسطیٰ، افریقہ اور یورپ کو برآمدات بند ہو سکتی ہیں۔

سی پیک (چائنا پاک اکنامک کوریڈور) جو دراصل اسی ون بیلٹ ون روڈ منصوبے کی ایک شاخ ہے، اسی بھیانک خواب کا تزویراتی جواب ہے۔ سی پیک چین کی برآمدات کے لیے دیگر تمام متبادل راستوں جیسے کہ برما یا وسطی ایشیا کے ریلوے لنک کی نسبت واحد تیز رفتار اور قابل بھروسہ زمینی راستہ ہے۔ایسے میں کیا امریکہ محض اپنی ٹانگیں پسارے آرام سے بیٹھا ہوا ہے؟۔۔۔ یقیناً نہیں! امریکہ اپنے جنوبی ایشیا کے اتحادیوں بھارت اور افغانستان کے ساتھ مل کر چین کو محدود کرنے کے منصوبے پر عمل پیرا ہو چکا ہے اور ان کا براہ راست نشانہ سی پیک ہے جس کے لیے باقاعدہ منصوبے کے تحت بلوچستان اور گلگت بلتستان میں انتشار پھیلانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔

دوسری طرف امریکہ نے ایران کے ساتھ اپنے سینگ پھنسائے ہوئے ہیں تاکہ وہ مشرق وسطیٰ، افغانستان اور وسطی ایشیا میں ایران کے اثرورسوخ کے بارے میں اندازہ قائم کر سکے۔ سعودی عرب اور ایران اپنی پراکسی جنگ پہلے ہی مشرق وسطیٰ میں لڑ رہے ہیں اور امریکہ افغانستان میں پچھلی چار دہائیوں سے بیٹھا ہوا ہے۔
تیسری جنگ عظیم کے پہلے مرحلے میں پاکستانی جرنیل امریکہ کے اتحادی تھے اور افغانستان میں سوویت یونین کے خلاف ہوئے جہاد سے درحقیقت فائدہ اٹھانے والے بھی وہی تھے۔افغانستان میں کی گئی غلطی نے پاکستان کے مخدوش مستقبل کی بنیاد رکھی۔
دوسرے مرحلے میں (یعنی نام نہاد دہشت گردی کے خلاف جنگ) پاکستان نے امریکہ، بھارت اور افغانستان کے ہاتھوں 1980 میں امریکہ کا اتحادی ہونے کی بھاری قیمت ادا کی۔

افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ پاکستان کے فوجی اور سول حکمرانوں نے پاکستان کو مقبوضہ علاقے کی طرح استعمال کیا۔ جس کے نتیجہ میں پاکستان اب 92 ارب ڈالر کے بھاری قرضے کے بوجھ تلے دبا ہوا ہے۔ پاکستان کی برآمدات تشویش ناک حد تک یعنی صرف 18 ارب ڈالر تک سکڑ چکی ہیں۔برازیل کے ایک گوشت کا کاروبار کرنے والے کی سالانہ سیل 32 ارب ڈالر کے لگ بھگ ہے۔ دوسری طرف ملک کی مجموعی درآمدات کا حجم 53 ارب ڈالر ہے جس کی وجہ سے ملک کا کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ بڑھتا جا رہا ہے۔
اندرونی محاذ پر بھی تحریک انصاف کی  حکومت کو بڑے چیلنجز کا سامنا ہے ۔ جن میں

1۔ اندرونی اور بیرونی بھاری قرضوں کی ادائیگی۔

2۔ سول ملٹری تعلقات۔

3۔ خارجہ پالیسی کی تشکیل اور اس کا نفاذ۔

4۔ سیاسی مخالفین کا سامنا۔

5۔ نااہل، بدعنوان اور گلی سڑی بیوروکریسی کی تشکیل نو۔

6۔ خود عمران خان اور ان کی سیاسی جماعت کی سیاسی بلوغت

Advertisements
julia rana solicitors

شامل ہیں۔

Facebook Comments

اویس احمد
ایک نووارد نوآموز لکھاری جو لکھنا نہیں جانتا مگر زہن میں مچلتے خیالات کو الفاظ کا روپ دینے پر بضد ہے۔ تعلق اسلام آباد سے اور پیشہ ایک نجی مالیاتی ادارے میں کل وقتی ملازمت ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply