ڈرتا ہے پولیس والا اِک نہتی لڑکی سے۔۔۔عزیز خان

ایک ویڈیو بار بار سوشل میڈیا پرنظر آرہی ہے ایک چار فٹ کی لڑکی ایک چھ فٹ کے باوردی پولیس افسر کو اُچھل اُچھل کے تھپڑ مار رہی ہے اور وہ بے چارہ پولیس والا جس کا نام و پتہ بعد میں وارث علی ASI تھانہ رحیم یار خان  سےمعلوم ہوا ۔کمال معصومیت سے لڑکی سے جو بقول سوشل میڈیا شراب کے نشہ میں دُھت تھی ،سے مزے لے لے کے تھپڑ کھا رہا ہے، نہ تو اُس کا ہاتھ روکنے کی کوشش کر تا ہے نہ پکڑنے کی ہمت ہے اُس میں ؟

پھر فریم میں  ایک بُرقعہ پوش خاتون نظر آتی ہے لڑکی شیرنی کی طرح لپکتی ہے اور اُس خاتون کے بال پکڑ لیتی ہے خاتون کے سر پر پہنے مونگیا رنگ کے  دوپٹے سے پتہ چلا کہ وہ بھی لیڈی کانسٹیبل تھی
بعد میں پتہ نہیں کیا ہوا کیونکہ ویڈیو ختم ہو گئی۔

یہ ویڈیو دیکھنے کے بعد مزا نہیں آیا ،کسی چیز کی کمی شدت سے محسوس ہوئی، ویسے تو ان حالات میں ان ASI صاحب کا رویہ بالکل ایسا نہ ہوتا اگر ماحول یہ نہ ہوتا یا اتنے کیمرے  نہ ہوتے سامنے ۔

ASI وارث صاحب جنہوں نے پولیس فورس اور آئی جی صاحب پنجاب پولیس کا سر فخر سے بلند کر دیا ہے شاید یہ سر کُچھ اور جُھکا دیتے،اگر موبائل فونز اور کیمرے نہ ہوتے ۔

مگر پولیس کے اس عظیم سپوت نے پولیس مظلومیت کی ایک نئی تاریخ رقم کردی ہے لوگ صلاح الدین کی تشدد سے بھرپور  ہلاکت بھی بھول گئے سوشل میڈیا پر گونگے صلاح الدین کی زبان نکال کر مُنہ چڑانے والی تصویر کی جگہ وارث علی کی تھپڑ والی تصویر نظر آنے لگی۔

ایک( نہتی لڑکی ) سے باوردی پولیس والے کو اس طرح مار کھاتا دیکھ کر مجھے ایک سیاسی نعرہ یاد آگیا “ڈرتے ہیں وردی والے ایک نہتی لڑکی سے “اوریہ نعرہ شاید اسی دن کے لیے لکھا گیا تھا۔
یہ موبائل فون جس نے بھی بنایا، کمال بنایا ۔۔بات چیت کے لیے بنایا جانا والا یہ فون پہلے صرف رشتوں کو جوڑتا تھا اب موبائل فون کا کیمرہ واٹس ایپ ویڈیو کالز کے ذریعے محبت کے متوالوں کی ذہنی اورجسمانی لذت کے بھی کام آتا ہے اور ہر خبر پہ نظر بھی رکھتا ہے۔

اس موبائل فون کیمرہ کی پولیس کے چھوٹے ملازمین پر تو خاص نظر کرم ہے پولیس والے اپنی کسی بھی حرکت کو چھُپا نہیں پا رہے اُنہیں سمجھ نہیں آرہی کہ اس بلا سے کیسے جان چھُڑوائیں ۔حالانکہ جناب آئی جی صاحب نے پولیس ملازمین اور عوام کے تھانے میں موبائل فونز لے جانے پر پابندی لگائی ہے، جو بعد میں چھوٹے ملازمین تک محدود ہوگئی۔

مگر کیا کیا جائے اس ظالم سماج کا جو اپنی پُرانی پولیس دشمنی میں کہیں نہ کہیں سے کوئی ایسی ویڈیو نکال لاتا ہے جس سے پھر پنجاب حکومت اور محکمہ پولیس کی عزت خطرہ میں پڑ جاتی ہے۔

پولیس فورس کے ایک PSP افسر کو بھی اس ASI پر ترس آیا اور انہوں نے بھی فیس بک پر ایک پوسٹ لگائی ۔۔لکھا، اچھا کیا اس بیچارے نے اور ثبوت کے طور پر اپنی ویڈیو فلم بھی بنوا لی، نہیں تو اس کی بات نہ ڈیپارٹمنٹ نے سُننی تھی نہ نام نہاد دانشوروں نے ،اب یہ اپنی اولاد کو  تو شاید مُنہ نہ دکھا سکے مگر اس کی نوکری بچ جائے گی اور ایف آئی آر سے بھی بچت ہو جائے گی۔
ایک بات ضرور ہے کہ اُسے اپنی عزت بچانے کے لیے بھی ہاتھ کا استعمال کرنا چاہیے تھا یہ بھی اُس کی غلطی ہو سکتی ہے شاید۔
ایک سینئر افسر کے اس میسج سے شاید ASI وارث علی کے دل کوضرور تسلی ہوئی ہو گی ،چھوٹے پولیس ملازمین بھی خوش ہو گئے ہوں گے، مگر مجھے بالکل اچھا نہیں لگا۔

پولیس کی کمانڈ 72 سال سے اسی PSP کلاس کے پاس ہے پولیس کی ٹریننگ، ویلفئر اور دیگر امور کے مالک یہی PSP افسران ہیں مگر پاکستان کی طرح پولیس ڈپارٹمنٹ میں بھی کرپشن بدعنوانی اور اقربا پروری کا راج ہے۔

اس دوران کئی اچھے آئی جی بھی آئے مگر اپنی نوکری بچانے کے چکر میں محکمے کو برباد کر گئے۔
سیاسی سفارشی بھرتیاں اور حکمرانوں کے در کی غلامی کی پالیسی ڈیپارٹمنٹ کو لے ڈوبی ،آہستہ آہستہ اس محکمے کی عزت ختم ہونا شروع ہوگئی، ایک دوسرے پر اعتماد ختم ہوتا گیا ،پہلے صرف SHO کی بات پر یقین کیا جاتا تھا اب آئی جی کی بات پر بھی کوئی یقین نہیں کرتا ۔

صرف اپنی نوکری بچانے کے چکر میں اپنے ملازمین کے خلاف مقدمات درج کرنا ،اُن کو حوالات میں بند کرنا اور پھر میڈیا میں اُن کی تصاویر لگوانا۔۔عوام کے دلوں میں پہلے صرف نفرت تھی مگر لوگ ڈرتے تھے پولیس کا ڈر اب ختم ہو رہا ہے جس کا فائدہ جرائم پیشہ افراد اُٹھا رہے ہیں۔

رحیم یار خان کی پولیس پوری دنیا میں صلاح الدین تشدد کیس میں اپنی نالائقی اور نااہلی کی وجہ سے خاصی شُہرت پا چُکی ہے۔
ڈی پی او کا تبادلہ، ڈی ایس پی کی معطلی اور نچلے ملازمین کے خلاف مقدمہ قتل کی وجہ سے اپنا اعتماد کھو چُکی تھی، اب وارث علی ASI کے اس طرح سرِعام ایک لڑکی سے تھپڑ کھانے پر اور بھی ذلیل اور رسوا ہو گئی ہے۔

مجھے اس پورے واقعہ میں وارث علی ASI اور لیڈی کانسٹیبل کےمار کھانے پر جس بات سے تشویش ہوئی وہ موقع کی مناسبت سے صورت حال کو کنٹرول نہ کرنے کی تربیت کا فقدان ہے۔
پولیس ٹریننگ کالج یا سکول میں اس طرح کی کوئی ٹریننگ کورس کا حصہ ہی نہیں ہے کہ ایسے حالات میں پولیس ملازم کو کیا کرنا چاہیے۔

ترقی یافتہ مُلکوں میں پولیس پر جب حملہ ہوتا ہے یا اس طرح کی صورت حال ہوتی ہے تو وہ پولیس افسران مکمل تربیت یافتہ ہوتے ہیں وہ ایسے ملزمان کو قانون کے مطابق وہیں گرفتار کرتے ہیں اور قانونی کارروائی مکمل کرتے ہیں ،کیمرے تو وہاں بھی ہوتے ہیں لوگ بھی موجود ہوتے ہیں مگر وہاں لیڈی کانسٹیبلز برقع پہنے ڈیوٹی پر نہیں گھوم رہی ہوتیں، مکمل یونیفارم میں ڈیوٹی کرتی ہیں۔

عورتوں کی گرفتاری کے لیے بھی قانون میں ضابطہ موجود ہے یہ تو پولیس کی خوش قسمتی ہے کہ وارث علی Asi ایک (برقع پوش )لیڈی کانسٹیبل بھی ہمراہ لے گیا جو صرف تماشا دیکھتی رہی کیونکہ اُسے اس قسم کے حالات سے نمٹنے کا نہ تو تجربہ تھا اور نہ تربیت ۔پھر تو یہی ہونا تھا جو ہوا ۔۔

مجھے یاد ہے ایک دفعہ محرم ڈیوٹی پر میں نے اپنے سینئر افسران کو اس امر کی نشاندہی بھی کی تھی کہ لیڈی کانسٹیبلز یونیفارم کے اُوپر کالی چادر اور نقاب کر کے آتی ہیں اس طرح کوئی بھی دہشت گردی ہوسکتی ہے مگر شاید اس طرف کوئی توجہ دینا ہی نہیں چاہتا۔
اچھی اور مکمل یونیفارم پہننا کسی بھی پولیس افسر یا ملازم کی شان ہوتی ہے۔

موجودہ نئی یونیفارم میاں منشا اور سابقہ آئی جی کی جیبیں تو بھر گئی مگر پولیس کی سابقہ یونیفارم اپنی عزت اور وقار   اپنے ساتھ ہی لے گئی،
اگر آپ نے کبھی نئی یونیفارم کے ساتھ کسی ملازم کو ڈیوٹی پر دیکھا ہو تو ایک کی یونیفارم دوسرے سے نہیں ملتی ،سر پر کیپ نہیں ہوتی،سرکاری بوٹ ملتے نہیں، رنگ برنگے بوٹ پہنے ہوتے ہیں۔۔

سردیوں میں اوپر پُرانی جرسی پہنی جاتی ہے نئی جیکیٹس کے پیسے افسران کی (ویلفئر) پر خرچ ہو جاتے ہیں۔
جس پولیس فورس کی یونیفارم ایک جیسی نہیں ہے وہ کون سی فورس ہے ؟

پنجاب پولیس پاکستان کی بہترین پولیس ہوتی تھی اسی فورس کے ملازمین نے اپنی جانوں کے نذرانے بھی پیش کیے ہیں، پر وہ پُرانا دور تھا آج کے موجودہ اور آئی ٹی کے دور کے مطابق اپنے ماتحت ملازمین کی ٹریننگ اور ویلفئر کا خیال کرنا ادارے کے سربراہ کا فرض ہے، جس پر  کوئی عمل نہیں  ہو رہا ہے۔

یہاں تو یہ عالم ہے سب اپنی اپنی نوکری بچاتے ہیں اور سیاستدانوں کی غلامی کرتے ہیں ،ان کی کوشش ہوتی ہے کہ ریٹائر ہونے کے بعد بھی حکمرانوں کے سیاسی مُشیر بن جائیں، ایسی کئی مثالیں موجود ہیں (جو اپنے سُپریم کورٹ تک بھی لے جاتے ہیں )۔
پولیس ملازمین کے ساتھ سیاسی جماعتوں کے کارکن  دوران ڈیوٹی اکثر بدتمیزی کرتے ہیں ،کچھ روز  قبل ن لیگ کی خاتون ایم پی اے عظمیٰ بُخاری نے بھی ایک پولیس ملازم کو تھپڑ دے مارا تھا مگر وارث علی Asi نے جس طرح بہادری اور ہمت  سے تھپڑ کھائے ہیں اس کی نظیر نہیں ملتی۔

پنجاب پولیس کے آئی جی صاحب اگر اور کُچھ نہیں کر سکتے تو ایک کمیٹی ضرور بنا دیں جو اس بات کی تحقیق کرے کہ عوام پولیس کو اپنا دشمن کیوں سمجھتی ہے اور اس دشمنی کو کیسے ختم کیا جا سکتا ہے تو شاید کوئی راہ نکل آئے ۔
صرف ملازمین کے خلاف مقدمات درج کرنا اُن کو پکڑ کر حوالات میں بند کرنا اور میڈیا پر تصاویر لگانے سے کُچھ نہیں ہوتا صرف فورس میں بددلی پھیلتی ہے

Advertisements
julia rana solicitors london

عزیز خان ایڈوکیٹ لاہور
03008689990

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply