عوامی قلمکار،ابن صفی۔۔ابراہیم جلیس/شکور پٹھان

مزے جہان کے اپنی نظر میں خاک نہیں
وقلیلا”ماتشکرون۔۔۔۔۔۔اور تم بہت ہی کم شکر کرتے ہو!
یہ شکوۂ ایام نہیں،میرے مولا و مالک کا شکر ہے۔ آج جب دنیا جہان کی ساری نعمتیں صرف ایک خواہش کی دوری پر ہیں اور خواہشیں ایسی نہیں رہیں کہ ان پر دم نکلے۔ بمشکل یا آسانی، جلد یا بدیر، کم یا زیادہ، ہر تمنا کسی نہ کسی صورت پوری ہو ہی جاتی ہے۔ بچے میرے سمجھتے ہیں کہ شاید ہمیشہ ایسا ہی رہا ہوگا۔ وہ اس دنیا کا ،ان زمانوں کا سوچ بھی نہیں سکتےجب یہ بھی نہ پتہ تھا کہ خواب دیکھیں بھی تو کیا دیکھیں۔ تمنا کریں تو کس چیز کی کریں۔
ہوش سنبھالا تو ماں باپ کو دیکھا۔ آزادی کے بعد خوابوں کی سرزمین ، اس منزل مراد پر پہنچے چھ سات سال ہی تو ہوئے تھے۔ انہیں دیکھا کہ زندگی کے تاروپود کو قائم رکھنے کیلئے کیا کیا جتن کررہے ہیں۔
اور یہ نہیں تھا کہ ہم وہ تھے جنہیں عرف عام میں “غریب” کہا جاتا ہے۔ کرائے ہی کی سہی، سر چھپانے کیلئے چھت تھی، تن پر کپڑے تھے، روکھی سوکھی سہی، لیکن شکر میرے مالک کا، کبھی بھوکے نہیں سوئے۔ اور سب سے بڑی نعمت یہ کہ ہم بہن بھائی سرکاری اسکولوں میں مفت تعلیم بھی حاصل کررہے تھے۔ اور اس سے زیادہ کی ضرورت تھی نہ حیثیت۔
وسائل کم تھے تو ضرورتیں بھی چادر کے اندر تھیں۔ خواہشات نہیں تھیں تو زندگی کے آزار بھی کم تھے۔
ایسے میں معمول سے بڑھ کر کچھ مل جاتا تو گویا دونوں جہان کی نعمتیں مل جاتیں۔ اچھی طرح یاد ہے کہ ہمیں روز دو پیسے ملتے تھے۔ ایک پیسے کی ،کاغذ کی مخروطی پڑیا میں، اتنے بھنے ہوئے چنے آتے تھے جتنے آج شاید پندرہ بیس میں بھی نہ آتے ہوں۔ ایک پیسے کی تین “یونین ” کے بسکٹ مل جاتے تھے۔ یا پھر دو پیسوں کی “بی پی” کی ٹافی مل جاتی تھی۔ اس سے زیادہ کی نہ تو کوئی خواہش ہوتی نہ طاقت۔
لیکن ایک چیز ملنے کی ایسی خوشی ہوتی جو آج ہزاروں خرچ کرکے بھی نہیں ہوتی اور وہ تھے بچوں کے وہ رسالے جو ہر ماہ تنخواہ ملنے پر ابا اور چچا ہم بہن بھائیوں کیلئے لاتے۔ پھلواری، کھلونا، غنچہ، بچوں کی دنیا، تعلیم و تربیت اور ہمدرد نونہال جب گھر آتے تو گویا دونوں جہاں کی بادشاہت مل جاتی۔
کتابوں سے اور پڑھنے سے ایسا رشتہ جڑا کہ زندگی میں اور کسی چیز کی کمی ہی محسوس نہ ہوتی۔ کوئی شاید یقین نہ کرے، میں دوسری جماعت سے باقاعدہ اخبار پڑھا کرتا تھا۔
اور ذرا بڑے ہوئے تو محلے کی آنہ لائبریری سے بچوں کے ناول بھی لیکر پڑھتے، لیکن صرف چھٹیوں کے دنوں میں اس عیاشی کی اجازت تھی۔
پرائمری سے سکنڈری کلاسوں میں آئےتو مطالعے کا دائرہ بڑھتا گیا۔ اب بے ضرر قسم کے ناول پڑھنے کی اجازت بھی مل گئی جیسے نسیم حجازی یا اے آر خاتون،زبیدہ خاتون، رضیہ بٹ اور سلمی کنول وغیرہ۔
قیی رامپوری، ایم اسلم، عادل رشید، دت بھارتی وغیرہ آزادی سے پڑھنے کی ابھی اجازت نہیں تھی۔ اخبار میں البتہ ہر طرح کے کالم پڑھنے کی آزادی تھی۔
ٹیلیویژن کا دور دور تک نام و نشان نہ تھا۔ ریڈیو بھی کسی کسی کے گھر ہوتا اور آخبار بھی محلے چند ایک گھروں ہی میں آتا۔
پڑھے لکھے لوگ اور ادب کے شوقین تو بہرحال اس وقت کے بڑے ناموں سے واقف تھے لیکن چند ایک نام ایسے تھے کہ ہر عام آدمی بھی انہیں جانتا تھا۔ والدین سے مجید لاہوری کے نمکدان اور سند باد جہازی یعنی چراغ حسن حسرت کا ذکر سنتے لیکن میرے شہر کے دو نام ایسے تھے جنھیں بجا طور پر عوامی کہا جاسکتا ہے اور مجھے یقین ہے آپ کے رائے بھی مختلف نہ ہوگی۔

Advertisements
julia rana solicitors london

پراسرار ناروی
بچپن کی کچھ عادتیں ایسی ہوتی ہیں کہ چھڑائے نہیں چھوٹتیں۔گھر والوں سے اکثر ناخنوں کو دانت سے کترنے پر ڈانٹ بلکہ مار کھائی، ایسے ہی باہر سے دوڑتے ہوئےآکر اور کھڑے کھڑے غٹاغٹ پانی پینے پر جھاڑ پڑتی۔ جلد یا بدیر ،آخرکار یہ عادتیں چھوٹ ہی گئیں۔ ایک عادت لیکن ایسی ہے کہ اب تک نہ چھوٹ سکی بلکہ شاید گور تک ساتھ جائے اور وہ ہے کھانا کھاتے ہوئے کچھ پڑھنے کی۔ لوگوں کے ساتھ کھاتے ہوئے تو یوں نہیں کرتا لیکن تنہا کھانا ، اور چاہے کتنا ہی اچھا کھانا کیوں نہ ہو، بغیر کچھ پڑھے کھا ہی نہیں سکتا بلکہ جس قدر لذیذ کھانا ہوگا اس قدر کچھ پڑھنے کی چاہ بڑھ جاتی ہے اور سیر ہو کر کھایا جاتاہے۔ کھانے سے زیادہ توجہ بائیں جانب دھری کتاب یا رسالے یا اخبار پر ہوتی ہے۔ پہلے جس پر ماں سے ڈانٹ پڑتی تھی اب بیوی ٹوکتی ہے لیکن یہ “عادت بد” ہے کہ جاتی نہیں۔
چھٹتی نہیں ہے کافر منہ سے لگی ہوئی۔
اور اس نشے کا عادی بنانے والے تھے، ابن صفی بی اے۔
اور ابن صفی کے ناول عادت نہیں ‘علت’ تھے۔ میری ایک نسل اس علت کی عادی ہوئی اور اسکے ساتھ جوان ہوئی۔ اور میں اور میرے ہم عمر کیا، ابن صفی کا ناول گھر پر ہو تو ابا سے پہلے کوئی نہیں پڑھ سکتا تھا۔ اور ابا کے ہم عمر بلکہ ان سے بھی بڑے شاعر وادیب، صحافی’ سائنسدان’ معمولی پڑھے لکھے، اعلی’ تعلیمیافتہ، جھونپڑیوں میں رہنے والے، سفید پوش اور طبقہ اشرافیہ ، غرضیکہ ” ہم ہوئے،تم ہوئے کہ میر ہوئے، سب ہی اس زلف کے اسیر تھے۔
صدر میں ریگل سنیما کے سامنے طاہر بک ڈپو پر ابن صفی کے نئے ناول کے پوسٹر پر نظر پڑتی تو گویا سوکھے دھانوں میں پانی پڑجاتا۔ سالم کتاب خریدنے کی طاقت نہ ہوتی کہ اس غریب طالبعلم کا ،روزینہ، اس کا متحمل نہیں ہو سکتا تھا۔ البتہ محلے کی ‘آنہ لائبریری’ سےکتاب لیکر فورا” وہیں سے کتاب کھول کر پڑھتے ہوئے گھر جانا اور راہگیروں سے ٹکراتے اور گالیاں کھاتے اور ساتھ ہی دوستوں کی نظروں سے بچتے بچاتے ، اسی ،علت، کا شاخسانہ تھا۔ یار دوست کتاب پڑھنے میں تو شامل ہوتے اور وہ ایک سے دوسرے اور دوسرے سے تیسرے کے ہاتھوں پہنچتی لیکن دیر سے واپس کرنے کے جرمانے میں شامل ہونے کے روادار نہ ہوتے۔ ایسے موقعوں پر خودغرضی سے ہی کام لینا پڑتا تھا۔ البتہ ناول کو کامیابی سے ختم کرکے اور ،بخیریت،واپس کرکے پھر اکڑ کر دوستوں کو بتاتے کہ ہم نے تو عمران سیریز کا تازہ ترین ناول پڑھ بھی لیا۔
اور جیسے ابن صفی کے مرکزی کردار یعنی کرنل فریدی اور علی عمران اپنے ہی ساتھیوں اور ماتحتوں کیلئیے اسرار کا لبادہ اوڑھے ہوتے، ابن صفی کی شخصیت کے بھی کئی روپ تھے جن سے ہر کوئی آشنا نہیں تھا۔
کبھی کبھار جاسوسی دنیا یا عمران سیریز کا ،الہ آباد ، کا چھپا ہوا کوئی ناول ہاتھ لگتا جس پر لکھا ہوتا”پاکستان میں اس ناول کے جملہ حقوق جناب اسرار احمد صاحب کے نام محفوظ ہیں۔ اور مدتیں گذر گئیں ہمیں نہیں پتہ چلا کہ یہ اسرار احمد کون ہیں۔ وہ تو ابن صفی کی کہانی پر مبنی فلم،دھماکہ، کی غزل ” راہ طلب میں کون کسی کا،اپنے بھی بیگانےہیں ” نے دھوم مچائی اور ریڈیو پر اسرار ناروی کا نام سنائی دیا تو معلوم ہوا کہ ابن صفی کا اصلی نام تو اسرار احمد ہے۔ اور یہی اسرار احمد کبھی طغرل فرغان کے نام سے مزاحیہ مضامین بھی لکھا کرتے تھے۔ بلکہ یہ تک سنا کہ کبھی ؟ سنکی سولجر، کے نام سے بھی لکھتے تھے۔
اور یہی پر اسراریت انکے کرداروں میں بھی تھی۔ جاسوسی دنیا کے کرنل فریدی، جو سی آئی ڈی کے عہدیدار تھے اپنی ایک ذاتی خفیہ پولیس بھی رکھتے تھے اور کرنل ہارڈاسٹون سےانکے ساتھی بھی واقف نہیں تھے۔
اور علی عمران ایم ایس پی ایچ ڈی آکسن تو ایک معمہ تھا سمجھنے کا نہ سمجھانے کا۔ اپنے ساتھیوں کے نزدیک ایک بےوقوف اور لاابالی سا عمران دراصل سیکرٹ سروس کا چیف، ایکس ٹو، ہے۔ جس کی آواز ہی سن کر اسکے ساتھی باآدب ہوجاتے ہیں لیکن جب وہ انکے درمیان ہوتا ہے تو اسے چٹکیوں میں اڑادیتے۔ یہی عمران کبھی پرنس آف ڈھمپ کاروپ دھارتا تو کبھی رانا تہور علی صندوقی بن کر نمودار ہوتا۔
ابن صفی کی کہانیوں کے تانے بانے کچھ ایسے بنے ہوتے کہ یہ جھوٹ موٹ کے قصے بھی سچ معلوم ہوتے اور سنا ہےایک دن سچ مچ کے سرکاری جاسوسی ادارے “آئی ایس آئی” نے انہیں دعوت دی کہ سریت کے اسرار و رموز سے ادارہ کے ارکان کو آگاہ کریں۔
ابن صفی کے کردار کچھ ایسے جیتے جاگتے محسوس ہوتے اور ہر کسی نے ایک اپنی ہی تصویر تراشی ہوتی ان کرداروں کی۔ اور یہی وجہ ہے کہ ان کی کہانیوں پر فلم بنانا آسان نہیں تھا۔ اور شاید انکی واحد فلم کی ناکامی کا سبب بھی یہی تھاکہ ہر کسی کا اپنا اپنا ایکس ٹو تھا جو شاید فلم والے سے مختلف تھا۔
ہم یار دوست ابن صفی کے کرداروں اور انکی عادتوں اور خصوصیات پر گھنٹوں باتیں کرتے۔ فریدی اور حمید کے ساتھ قاسم کا کردار ، اسکے علاوہ انکے کچھ اور ساتھی انسپکٹر جگریش اور ریکھا اور غزالہ تو تھے ہی، ایک کم کم آنے والے کردار ،انور اور رشیدہ، بھی ہمارے پسندیدہ کردار ہوا کرتے تھے۔ لیکن کرداروں کی جو بھر مار عمران سیریز میں تھی اور ہر کردار کا ایک مختلف مزاج کچھ ایسا تھا کہ ہر کردار اپنی جگہ ایک کہانی تھا۔
عمران کی اپنی گوناگوں بوقلموں شخصیت کے علاوہ اس کا پراسرار اسسٹنٹ ۔بلیک زیرو، جو عمران کی جگہ ۔ایکسٹو۔ کے فرائض انجام دیتا اور شاید اصل نام طاہر صاحب تھا جس سے دانش منزل کے ملازمین کے علاوہ کوئی واقف نہیں تھا۔
سیکرٹ سروس کے ممبران میں جولیانہ فٹزواٹر ایک سنجیدہ مزاج سوئس لڑکی جو ایکسٹو کی عاشق ہے لیکن عمران جیسے لاابالی بندے سے خار کھاتی ہے۔ صفدر، عمران کی ٹیم کا سب سے چاق و چوبند ، جاں نثار اور قابل اعتبار رکن۔ ہمیشہ عمران سے چڑنے اور اسے نیچا دکھانے کی کوشش کرنے والا تنویر، عمران کا دوست لیکن اسکی حرکتوں سے نالاں، کیپٹن فیاض ، جس کا تعلق سی آئی ڈی سے ہے لیکن اسے عمران کی اصل حیثیت کا علم نہیں (اور نجانے کیوں اس کردار کیلئے میرے ذہن میں ہمیشہ مرحوم اداکار اسلم پرویز کی شکل ابھرتی).
اسکی ٹیم کے رکن، خاور، چوہان، جعفری، صدیقی، نعمانی بھی تھی لیکن اسکا باڈی گارڈ، نڈر لیکن بلا نوش، سیاہ فام جوزف اور عمران کے گھریلو ملازم سلیمان کی چھڑخانیوں سے ان کہانیوں میں گویا پھلجڑیاں چھوٹ رہی ہوتیں۔
اور تو اور عمران سیریز کے منفی کردار(ولن) بھی ایسے تھے کہ ہمیں انتظار رہتا کہ یہ اب کب نظر آئینگے۔ ہمبگ دی گریٹ، الفانسے اور بوغا تو اپنی اپنی کہانیوں کے بعد غائب ہوگئے لیکن پراسرار، کئی فن مولا، طویل القامت چینی، سنگ ہی، اور قتالئہ عالم اور شاطر ترین دوشیزہ ،تھریسیا بمبل بی آف بوہمیا، یعنی ٹی تھری بی ایسے کردار تھے کہ جب کبھی کسی کہانی میں آئے وہ ناول گویا ،بیسٹ سیلر، بن گیا۔
دو اور کردار جو کبھی کبھار ہی آتے لیکن پڑھنے والے انہیں گویا مہمان خصوصی کی طرح برتتے یعنی ۔نیولے والا پراسرار طارق، اور عمران کی پرانی دوست ، روشی، جو شاید عمران کی حقیقت سے بھی واقف ہوتی ہے۔
اور ایک جیتا جاگتا کردار بھی ابن صفی کے ناولوں میں در آیا یعنی ، قتیل الشعراء، امام الجاہلین، استاد محبوب نرالے عالم۔۔۔ ان کا ذکر ایک مکمل مضمون کا طالب ہے چنانچہ پھر کبھی سہی۔
اور یہ ابن صفی کا اس قوم پر احسان تھا کہ ہم نے پڑھنے کی عادت پائی۔ شائستہ زبان و بیان کیا ہوتے ہیں یہ جانا۔ اور سب سے بڑا احسان کہ نوجوانوں کو قانون کی پابندی حب الوطنی اور سچ کا سبق سکھایا۔ یہ ان کی مہربانی تھی کہ نوجوان صحتمند مشاغل میں مصروف رہتے۔
کاش کوئی ابن صفی کی جلائی ہوئی شمع کو پھر سے روشن کرے اور ہمارے نوجوان اس شدت پسندی اور بے راہ روی سے نجات پائیں۔
ترقی پسندی۔۔وغیرہ وغیرہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لوگ باگ شخصیتوں سے متاثر تو ہوتے ہی پیں، میرا ایک رومانس شہروں کے ساتھ بھی ہے گو کہ دنیا کے بہت کم شہر دیکھ پایا ہوں ۔ شاید یہی نایافت اس رومان کا باعث ہو۔ برصغیر کے جن شہروں کو میں دیکھنا اور محسوس کرنا چاہتا ہوں ان میں سے ایک،مملکت آصفیہ کا دارلحکومت ،حیدرآباد دکن، بھی ہے۔ مردم خیز مٹی کا یہ شہر ، سید مودودی، مناظراحسن گیلانی، حمید الدین فراہی، محمد حمیداللہ، رشید ترابی جیسے نابغہ روزگار علماء، خواجہ معین الدین، انور مقصود، جیسے ڈرامہ نگار، احمد رشدی جیسا گلوکارمحمود علی جیسا فنکار اور آصف اقبال، اظہرالدین اور ثانیہ مرزا جیسے کھلاڑیوں کا جس شہر سے تعلق ہے اسے دیکھنا میرا ایک خواب ہے۔
اور جس طرح میرے شہر کراچی میں بھولو برادان کا خاندان اکھاڑوں میں اپنی زورآوری کے کمالات دکھاتا اور محمد برادرز کرکٹ کے میدانوں میں دھوم مچاتے ایسے ہی دکن میں ایک ہی خانوادے کے تین بھائیوں، محبوب حسین جگر، مجتبی حسین اور ابراہیم حسین کے ڈنکے بج رہےتھے۔ محبوب حسین اور مجتبی حسین تو حیدرآباد میں ہی رہ گئے لیکن، ابراہیم حسین یعنی ہمارے آپکے جلیس یعنی ابراہیم جلیس میرے شہر کراچی چلے آئے۔
پاکستان آنے سے بہت پہلے ہی جلیس کی شہرت یہاں پہنچ چکی تھی۔ ملک کی تقسیم اور اسکے اثرات پر ان کے تاثراتی افسانوی مجموعے ،چالیس کروڑ بھکاری، اور دو ملک ایک کہانی سے شہرت پانے والے ابراہیم جلیس حیدرآباد میں بھی صحافت اور ریڈیو سے منسلک تھے۔
پاکستان آکر جلیس نے کتابیں بھی لکھیں، فلمی دنیا میں اپنا سکہ جمایا، ترقی پسندوں کے سرخیل بھی رہے اور جیل یاترا بھی کی۔ لیکن یہ سب کچھ وہ تھا جسکا تعلق علم و ادب سے تھا ورنہ ایک عام آدمی کیا جانے کہ ترقی پسندی کیا ہوتی ہے اور ابراہیم جلیس کے ادبی کارنامے کیا ہیں۔
لیکن اخبار اب عام لوگوں کی زندگی کا حصہ بن گئے تھے۔ اور ایک زمانے سے مقبول چلے آرہے اخبار جنگ کا مطالعہ ” وغیرہ وغیرہ” پڑھے بغیر مکمل ہو ہی نہیں سکتا تھا۔
اس زمانے کی سنسنی خیز سرخیاں آجکل کی چیختی ، دھاڑتی ۔ “بریکنگ نیوز” کے مقابلے میں دودھ پیتی چیز تھیں۔ مجھ جیسے نو دس سالہ لونڈے کیلئے اخبار میں اتنی دلچسپی کی خبریں نہیں ہوتی تھیں۔ صدر ایوب نے کیا فرمایا، کہاں کا دورہ کیا اور کس کا افتتاح کیا، ان سے مجھے کوئی غرض نہ ہوتی۔ میری دلچسپی، ٹارزن کی کہانی، کھیلوں اور فلمی صفحے سے ہوتی۔ لیکن دو چیزیں ایسی تھیں جنکے بغیر اخبار کا مطالعہ مکمل نہ ہوتا۔ ایک رئیس امروہوی کا قطعہ جو کہ سمجھ میں بالکل نہیں آتا دوسرے ابراہیم جلیس کا ” وغیرہ وغیرہ” جو اس عمر میں بھی تقریبا” پورا سمجھ آتا تھا کہ ایسا ہی سادہ عام فہم اور دلنشین انداز تھا ابراہیم جلیس کا۔ وہ ایک عوامی لکھاری تھے اور عوام اور حالات کی نبض پہچانتے تھے۔ خود بھی ان مشکلات اور کٹھنائیوں سے گذرے تھے جن سے عوام الناس دن رات نبرد آزما رہتے ہیں۔
جلیس جنگ سے نکلے، انجام میں گئے، حریت میں گئے، پھر جنگ میں واپس آگئے، پھر نکلے اور شاید آخر وقت تک مساوات میں رہے لیکن انکی پہچان ،جنگ، اور وغیرہ وغیرہ، تھے۔ انکے بعد انعام درانی نے جنگ میں،تلخ و شیریں، کے عنوان سے طنزیہ کالم شروع کیا لیکن ابراہیم جلیس اور انکے کالم میں وہی فرق تھا جو ،پیپسی، اور ڈائٹ پیپسی، میں ہوتا ہے۔
پھر انشاء جی بھی جنگ میں آگئے۔ ہم چونکہ جلیس کے عاشق تھے چنانچہ ابتداء میں غالب کی طرفدادی میں انشاء جی کو قابل اعتناء نہیں جانا کہ ہمیں ابراہیم جلیس کا نعم البدل منظور ہی نہیں تھا۔ لیکن انشاء جی، جن کا کاٹا سوتے میں بھی ہنستا ہے، نے ایسا رنگ جمایا کہ وہ آئے انہوں نے دیکھا اور چھا گئے۔
میں۱۹۷۵ میں ملک سے چلا گیا تھا اور کشا کش روزگار میں گم۔ پتہ ہی نہیں چلا کہ کب ابراہیم جلیس اس دنیا سے چلا گیا۔
وہ ابراہیم جلیس، میرے شہر کی کہانی جس کے بغیر نامکمل ہے.

Facebook Comments

شکور پٹھان
محترم شکور پٹھان شارجہ میں مقیم اور بزنس مینیجمنٹ سے وابستہ ہیں۔ آپ کا علمی اور ادبی کام مختلف اخبارات و رسائل میں چھپ چکا ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply