• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • ہم جنس پرستی کا نیا قانون، یا فطری اصولوں کی چتا؟۔۔۔۔ سید نجیب الحسن زیدی

ہم جنس پرستی کا نیا قانون، یا فطری اصولوں کی چتا؟۔۔۔۔ سید نجیب الحسن زیدی

کہتے ہیں کسی شہر میں ایک خیاط رہتا تھا، جسکی قبرستان کے نزدیک دوکان تھی۔ وہ کپڑے سینے کا کام تو کرتا ہی ساتھ ہی شہر میں مرنے والے لوگوں کے قبرستان کی طرف جاتے جنازوں کو بھی دیکھتا، ایک دن اسے خیال آیا تقریبا ہر دوسرے تیسرے دن ہی کسی نہ کسی کو قبرستان میں دفن کرنے کے لئے لایا جاتا ہے اور کبھی کبھی تو ایک ہی دن میں کئی کئی جنازے بھی آ جاتے ہیں لیکن کسی کو شہر میں اندازہ نہیں کتنے لوگ روز مر جاتے ہیں کچھ ایسا کیا جائے کہ اندازہ ہو سکے کہ مہینہ میں اس شہر کے کتنے لوگ دار باقی کی طرف کوچ کر جاتے ہیں یہ سوچ کر اس نے اپنی دوکان کی چوکھٹ کے باہر ایک کوزہ لٹکا دیا جب کوئی جنازہ گزرتا تو وہ کوزے میں ایک کنکر ڈال دیتا اور جب مہینہ پورا ہوتا تو کنکروں کو شمار کر لیتا جس سے پتہ چل جاتا کہ اس مہینہ میں شہر میں کتنے لوگ مرے، اتفاق ایسا ہوا کہ خیاط کا خود ہی ایک دن انتقال ہو گیا، ایک شخص اسکی دوکان پر کسی کام کی غرض سے آیا تو دیکھا باہر کوزہ لٹک رہا ہے لیکن خیاط نہیں ہے اس نے خیاط کے بغل میں رہنے والے پڑوسی سے پوچھا کہ خیاط کہاں ہے؟ پڑوسی نے جواب دیا اسی کوزے میں چلا گیا جو تیرے سامنے ٹنگا ہے۔

آج جو کچھ ہندوستان کی عدلیہ نے ہم جنس پرستی کو قانونی جواز فراہم کرتے ہوئے فیصلہ کیا ہے اس کے پیش نظر کہا جا سکتا ہے کہ اگر انسانی فطرت سے سوال کیا جائے کہ عدلیہ کے فیصلہ کے بعد اسکا کیا کہنا ہے تو شاید جواب آئے کہ موجودہ قانون کا گلا گھونٹ کر اسکے مردہ پیکر کی علامت کو اس ٹنگے کوزے ہوئے میں ڈال دیا جو ہندوستانی تہذیب کی چوکھٹ پر لٹک رہا ہے، اور وقتا فوقتا اس میں جنازوں کی علامتیں آکر گرتی رہتی ہیں اور ان میں بعض علامتیں تو وہ ہوتی ہیں جن سے منسوب جنازوں کو قبرستان بھی نہیں ملتا، انہیں یوں ہی چیل کووں کے لئے چھوڑ دیا جاتا ہے۔ اب یہ تو وقت بتائے گا ان رہا شدہ جنازوں کا تعفن زندہ لوگوں کے ساتھ کیا کرے گا۔ کونسی وبا پھیلے گی اور کونسی بیماری طاعون کی صورت ان زندہ لوگوں کو اپنی لپیٹ میں لے گی جو مردوں کی طرح ساکت و بے حرکت سب کچھ دیکھ رہے تھے۔ کتنی عجیب خبر تھی جو آج دن پر مختلف چینلوں پر یوں دکھائی جاتی رہی کہ گویا ہندوستان کا سب سے بڑا مسئلہ یہی تھا جو مدتوں بعد عدلیہ نے حل کر دیا۔ اب نہ کوئی کسان بھوکا مرے گا، اور نہ کوئی مزدور زندگی سے تنگ آ کر خودکشی پر مجبور ہوگا، نہ کسی شاہراہ پر بھکاری دکھیں گے اور نہ بچہ مزدوری کے اسف ناک مناظر، عدالت نے ایک ہی جھٹکے میں ہندوستان کے ان تمام مسائل کو حل کر دیا ہے اس لئے ہندوستان جیسے ملک میں ایک ہی قانون تھا جس کی بنا پر بقول کسی’’دیوانے معاشرہ کو آکسیجن نہیں مل رہی تھی، جو اب عدالت نے فراہم کر دی‘‘ اب کوئی دم گھٹنے سے نہیں مرے گا چونکہ ہندوستان کی عدالت عظمٰی نے ہم جنس پرستی کے خلاف ڈیڑھ سو سال پرانے ایک قانون کو کالعدم قرار دے دیا ہے۔

ذرائع ابلاغ کے مطابق ہندوستان کی سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بینچ نے جمعرات کو متفقہ طور پر مذکورہ قانون کو کالعدم قرار دینے کا فیصلہ سنایا۔ فیصلہ سناتے ہوئے ہندوستانی سپریم کورٹ کے چیف جسٹس دیپک مشرا نے کہا کہ دو بالغ افراد کے درمیان، چاہے وہ ہم جنس پرست ہی ہوں، باہمی رضامندی سے قائم کئے جانے والا جنسی تعلق غیر آئینی قرار نہیں دیا جا سکتا ہے۔ ہندوستان میں “سیکشن 377” کے نام سے معروف ہم جنس پرستی کے خلاف قانون 1861ء برِ صغیر پر برطانوی حکومت کے دور میں بنایا گیا تھا جس میں “خلافِ فطرت اختلاط” کو ممنوع قرار دیتے ہوئے اس پر 10 سال تک قید کی سزا رکھی گئی تھی۔ ہندوستان میں یہ کوئی عجیب بات نہیں ریاستی طور پر اس سے قبل بھی ایسا ہو چکا ہے اور دہلی ہائیکورٹ نے 2009ء میں ملک میں ہم جنس پرستی کو جائز قرار دے دیا تھا جس کے خلاف بعض مذہبی رہنماؤں نے سپریم کورٹ سے رجوع کیا تھا۔

البتہ یہ ضرور ہوا تھا کہ سپریم کورٹ نے 2014ء میں دہلی ہائیکورٹ کے فیصلے کو کالعدم قرار دیتے ہوئے مذکورہ قانون دوبارہ بحال کردیا تھا، جس کے خلاف ہم جنس پرست تنظیموں کے نمائندوں نے اپیلیں دائر کی تھیں لیکن جمعرات کو اپنے فیصلے میں عدالت نے کہا ہے کہ “کسی شخص کے جنسی رجحان کی بنیاد پر اس کے ساتھی امتیازی برتاؤ بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے جس کی ریاستی سطح پر اجازت نہیں دی جا سکتی۔ مذکورہ قانون کے خاتمے کے نتیجے میں بھار ت میں ہم جنس افراد کے خلاف باہم رضامندی سے جنسی تعلق قائم کرنے پر قانونی کارروائی نہیں کی جا سکے گی۔ سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں کہا کہ “کسی فرد کا جنسی رجحان اس کا انفرادی اور فطری معاملہ ہے اور جنسی رجحان کی بنیاد پر کسی سے تفریق برتنا اس شحص کے اظہار آزادی کے حق کی خلاف ورزی ہے۔” عدالت نے مزید کہا کہ “فرد کے انتخاب کا احترام آزادی کی روح ہے۔ ہم جنس پرست برادری کو ملک کے دیگر شہریوں کی طرح آئین کے تحت برابر کا حق حاصل ہے۔ دفعہ 377 کی شقوں کے تحت مرد اور مرد یا عورت اور عورت کے درمیان جنسی عمل کو جرم قرار دیا گیا تھا جو کہ فرد کی آزادی اظہار کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔ برطانوی دور میں بننے والے اس قانون کے تحت ایک ہی صنف کے دو افرار کے درمیان جنسی عمل جرم تھا اور اس کے لئے دس برس تک کی قید کی سزا ہو سکتی تھی۔ دفعہ 377 کو پہلی مرتبہ 1994ء میں چیلینج کیا گیا تھا اور 24 برس اور متعدد اپیلوں کے بعد یہ فیصلہ سامنے آیا ہے۔

عدالت نے اپنے فیصلہ کی دلیل یوں دی،‏ “کوئی بھی معاشرہ اکثریت کی اخلاقیات سے نہیں چلتا۔ عدالت نے کہا کہ “ایک آئینی معاشرہ تخلیق کرنے کا بنیادی مقصد اس معاشرے کو ایک روشن خیال معاشرے میں تبدیل کرنا ہے”۔ عدالت کا احترام اپنی جگہ ہے لیکن اس طرح کے خلاف فطرت فیصلے یقینا ہندوستان کے زوال پذیر معاشرے کے مزید انحطاط کا سبب بن سکتے ہیں اس لئے ان تمام لوگوں کو اس فیصلہ کے خلاف عدالت میں گنجائش کی صورت میں اپیل کرنا چاہیئے جو ہندوستانی معاشرہ کا حصہ ہونے کے ساتھ فطر ت کے اصولوں سے ہم آہنگ زندگی گزارنے پر یقین رکھتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا ایک آئینی معاشرہ کی تخلیق اور معاشرے کو روشن خیال معاشرے میں تبدیل کرنے کے لئے اور کوئی تجویز یا منصوبہ نہیں ہے، یہ انسان کتنا پست ہوتا جا رہا ہے کہ وہ عمل جسے حیوان بھی اپنے ہم جنس کے ساتھ انجام دینے پر تیار نہیں اسے ایک قانونی تحفظ فراہم کیا جا رہا ہے اور اسکو روشن خیالی سے تعبیر کیا جا رہا ہے ، کہیں ایسا تو نہیں کہ یہ روشن خیالی محض اس لئے ہے کہ ہم میں سے کچھ اپنا تشخص کھو چکے ہیں اور مغرب کی اندھی تقلید کو ہی روشن خیالی تعبیر کرتے ہیں اور اسکے مریض و بیمار معاشرہ کو بعض بہروپیے اپنے لئے رول ماڈل سمجھتے ہیں جبکہ ہماری تہذیب ہمارا کلچر اور ہمارا تمدن روحانیت پر یقین رکھتا ہے جسکا مغرب میں فقدان ہے، اور یہ محض ہمارا مشرقی کلچر ہی نہیں بلکہ تمام مذہبی تہذیبوں کا تصورِ حیات یہی ہے، انسان روح، اور جسم کا مجموعہ ہے جبکہ اسکے برخلاف جدید مغربی تہذیب روح اور نفس کی قائل ہی نہیں۔

اس کا اصرار ہے کہ انسان صرف وہی ہے جو دکھتا اور نظر آتا ہے، کتنا عجیب ہے کہ مغرب میں جو کچھ ہے و مادیت سے چل کر مادیت پر ختم ہو رہا ہے جبکہ دینی و مشرقی تہذیب میں جا بجا معنویت و روحانیت کے ایسے نقوش ہیں جنکے بغیر زندگی نامکمل ہے۔ کہیں ایسا تو نہیں ہے کہ ہم اپنے تمدن کے عظیم سرمایہ کو پس پشت ڈال کر اس سمت چل پڑے ہیں، جسکا نتیجہ ویرانی و تباہی کے سوا کچھ نہیں ہے۔ لہٰذا ہمیں اپنے اقدار کے سلسلہ سے سوچنے کی ضرورت ہے کہ وہ اقدار کیونکر تیزی کے ساتھ تبدیل ہوتے جا رہے ہیں جو کسی زمانے میں ہمارا سب سے بڑا سرمایہ تھے اور دنیا میں ہم انہیں اقدار کے سبب پہچانے جاتے تھے، کہیں ایسا تو نہیں آنے والی تاریخ میں جب مشرقی تہذیب و ہمارے تمدن کے بارے میں کوئی ہمارے پڑوسی سے پوچھے کہ کیا ہوئی، تو وہ بکھرے اقدار کے ٹنگے کوزے دان کی طرف تمثیلی داستان کے خیاط کے پڑوسی کی طرح اشارہ کر کے کہے کہ وہ تو کب کا ختم ہو چکا اور تمہیں اسکا انجام دیکھنا ہی ہے تو تو جاؤ کوزے میں پڑے علامتی جنازوں میں تلاش کرو اور وہاں کچھ نہ ملے تو ناموس فطرت کے شمشان گھاٹ چلے جانا وہاں کچھ نہیں تو تمہیں ہماری قدیم تہذیب کی راکھ ضرور مل جائے گی۔۔۔۔

بشکریہ اسلام ٹائمز

Advertisements
julia rana solicitors

https://www.islamtimes.org/ur

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply