ڈاکٹر عارف علوی کو مبارک باد۔۔۔۔اویس احمد

ڈاکٹر عارف علوی پاکستان کے صدر مملکت منتخب ہو گئے۔ یہ پاکستان کے تیرہویں صدر ہیں۔
یہ پیشے کے اعتبار سے دانتوں کے ڈاکٹر ہیں۔ یعنی اردو میں ان کو دندان ساز بھی کہا جا سکتا ہے۔ اس اعتبار سے ہم یہ بھی کہ سکتے ہیں کہ تحریک انصاف نے ایک ایسے شخص کو ایوان صدر میں لا بٹھایا ہے جو مخالفین کے نہ صرف یہ کہ دانت نکال سکتا ہے بلکہ ایک منجھا ہوا سیاسی کارکن ہونے کے ناطے دانت کھٹے بھی کر سکتا ہے۔
ان کا تعلق کراچی سے ہے اور متوسط طبقے سے تعلق رکھتے ہیں۔ البتہ کراچی کی مخصوص سیاست کے اثرات بعض اوقات ان پر بھی دیکھے گئے ہیں جب وہ دانت کٹکٹاتے ہوئے کراچی کی سڑکوں پر کوئی گاڑی نہ آنے دینے کی دھمکی دے رہے تھے۔ اس وقت ان کا جارحانہ پن اور غصہ دیکھنے سے تعلق رکھتا تھا۔
یہ تحریک انصاف کے بانی اراکین میں سے ایک ہیں۔ مرنجان مرنج طبیعت کے حامل گویا دانتوں میں تنکا لیے رہتے ہیں۔ حاسدین تو ویسے یہ بھی کہتے ہیں کہ ڈاکٹر صاحب غصے کے تیز ہیں یعنی جب پارہ چڑھ جائے تو دانت کچکچانا شروع کر دیتے ہیں۔ غالباً اسی لیے جب بطور صدارتی امیدوار ان کا نام سامنے آیا تو کئی لوگوں نے دانتوں میں انگلیاں دبا لی تھیں۔ صدر مملکت کا منصب ایک ٹھنڈا ٹھار منصب ہے اس میں ایسے ہی رہنا پڑتا ہے جیسے دانتوں میں زبان رہتی ہے۔
بطور صدارتی امیدوار انہوں نے جناب عمران خان کی ایک تصویر ٹویٹر پر جاری کی جس میں عمران خان ایک چارپائی پر کھلے آسمان تلے محو خواب تھے۔ بقول ڈاکٹر عارف علوی، وہ تصویر 1997 میں نگرپارکر سندھ کے علاقے میں لی گئی تھی جب عمران خان اور عارف علوی تحریک انصاف کے ابتدائی دنوں میں پارٹی کی بنیادیں استوار کررہے تھے۔ اس تصویر نے بہت مقبولیت حاصل کی تھی۔ جہاں اس تصویر کی بدولت عمران خان کی درویشانہ طبیعت کی عکاسی ہوئی وہیں عارف علوی صاحب نے عمران خان سے اپنی قربت اور قدامت دونوں کو واضح کر دیا۔ گویا ایک تیر سے کئی شکار کر ڈالے۔
ڈاکٹر عارف علوی سے ہماری واحد ملاقات 2014 میں تحریک انصاف کے تاریخی دھرنے کے دوران معذوروں کے عالمی دن کے حوالے سے ترتیب دیئے گئے ایک پروگرام میں ہوئی تھی۔ اس شاندار پروگرام کے روح رواں ڈاکٹر صاحب ہی تھے۔ پروگرام کا سارا انتظام خصوصی افراد کے حوالے تھا اور ڈاکٹر صاحب خود بھی اس دن خاص طور پر متحرک تھے۔ اسٹیج کی سیڑھیوں کے قریب زمین پر بیٹھے ہوئے وہ ہمیں اتنا بھائے کہ ہم ان سے مصافحہ کا شرف حاصل کرنے ان کے قریب جا پہنچے۔ مگر وہ اس سے پہلے ہی کسی اور کی طرف متوجہ ہو گئے تھے چنانچہ ہماری مصافحہ کی خواہش ادھوری رہ گئی تھی۔ گویا ہمارے دانت کرکرے ہو گئے تھے۔ مگر اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ وہ ایک نہایت عمدہ پروگرام تھا اور پاکستان میں سیاسی جماعتوں کی طرف سے ایسے پروگرام خال ہی دیکھنے میں آتے ہیں۔
کہتے ہیں کہ ہاتھی کے دانت کھانے کے اور ہوتے ہیں اور دکھانے کے اور ہوتے ہیں مگر ہمیں یقین ہے کہ ہمارے نئے صدر مملکت کے کھانے اور دکھانے کے دانت ایک ہی ہوں گے اور جیسے وہ ہیں ویسے ہی وہ اپنے دور صدارت میں بھی رہیں گے۔ یعنی سفید ہاتھی ثابت نہیں ہوں گے۔
پاکستان نے اپنی ستر سالہ تاریخ میں بے شمار دندان شکن سیاست دانوں کو بھگتا ہے۔ اب ایک دندان ساز ایوان صدر میں پہنچا ہے۔ امید کی جا سکتی ہے کہ جیسے وہ اپنے کلینک میں حتی الوسع کوشش کرتے رہے ہیں کہ مریضوں کے دانت نکالنے کی بجائے ان کی مرمت کر دی جائے ویسے ہی وہ اپنی دور صدارت میں سیاسی بیماروں کو نکال دینے کی بجائے ان کی مرمت کر کے انہیں ٹھیک کرتے رہنے کی کوشش کریں گے۔
اس کالم کے توسط سے ہم صدر پاکستان جناب ڈاکٹر عارف علوی صاحب کو مبارک باد پیش کرتے ہیں اور امید کرتے ہیں کہ ایک وہ اپنےپیش رو جناب ممنون حسین کی طرح انتہائی غیر متنازعہ دور صدارت گذار کر رخصت ہوں گے تاکہ ایوان صدر بھی اپنے مکین پر فخر کر سکے۔

Facebook Comments

اویس احمد
ایک نووارد نوآموز لکھاری جو لکھنا نہیں جانتا مگر زہن میں مچلتے خیالات کو الفاظ کا روپ دینے پر بضد ہے۔ تعلق اسلام آباد سے اور پیشہ ایک نجی مالیاتی ادارے میں کل وقتی ملازمت ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply