سعادت حسن منٹو کی بک بک۔۔۔۔ حسنین چوہدری

جب اخباروں اور رسالوں میں میرے افسانے شائع ہونے لگے تو گمان ہوا کہ میں ایک اچھا ادیب بن گیا ہوں،مایا نگری بمبئی آگیا،.بمبئی بھی کیا شہر ہے..ایک خوابوں کی دنیا ہے،بمبئی کی سڑکوں پر رات گئے تک اشوک کمار کے ساتھ شراب پیتا،یار باش آدمی تھا ،میں اسے تب سے جانتا تھا جب وہ پردے پر نہیں آتا تھا  اور پردے کے پیچھے تکنیکی کام کرتا تھا،.پچھتر روپے ماہانہ تنخواہ لیتا تھا اور میں کہانی نویس بنا اور وہ بڑا ادا کار بن گیا۔ پچھتر روپے لینے والا اشوک کمار ایک دن کہنے لگا کہ فلم کا معاوضہ ایک لاکھ مانگا تھا،.ڈیل نہیں ہو سکی اور فلم چھوڑ دی،.میرے چھوٹے سے مکان میں آیا اور صفیہ میری بیوی سے ملا۔ اس دن قیمہ بنا تھا۔۔۔۔اور وہ تین روٹیاں کھا گیا،. اس کے بعد جام کا دور چلا،اور ہمیشہ کی طرح مایا نگری میں آوارہ گردی،وہی اشوک کمار جس کے ساتھ راتیں گزرتی تھیں وہ بڑا سٹار بن گیا۔گھر سے نکلنا مشکل ہوگیا۔کسی جگہ سڑک پر نکل آتا تو گھنٹوں روڈ بلاک ہوجاتا،اب وہ عیاشیاں نہ رہیں،اب فلمستان جانا ہوتا تو اشوک سے ملاقات ہو جاتی،دیوکا رانی سے بھی خوب دوستی رہی وہاں میں نے مرزا غالب فلم لکھی،راجندر سنگھ بیدی نے ڈائیلاگز لکھے،فلم نے کامیابی کے تمام ریکارڈ توڑ دیے،بمبئی میں جہاں بھی نکلتا وہیں ” آہ کو چاہیے اک عمر – نکتہ چیں ہے غم دل جیسے گانے بج رہے ہوتے۔۔آہ!کیا دن تھے..

پھر وہ سندر سپنا ٹوٹ گیا اور سب کچھ بدل گیا، میں پاکستان آگیا،شوکت حسین رضوی اور فیروز نظامی وغیرہ سے ملاقات رہتی،نور جہاں سے بھی خوب تعلق رہا۔۔۔۔
اگر چہ افسانے تو ہندوستان میں ہی لکھنا شروع کر دیے تھے اور تین کیس بھی ہندوستان میں ہوئے تھے، یہاں آکر بھی مقدمات کا سامنا رہا۔
میری آواز میں ایک رعب تھا۔۔پنجابی تھا لہذا صحت بھی اچھی تھی،گفتگو نہایت ہی سلیقے سے اور ٹھہر ٹھہر کر  کرتا ۔۔بعض جگہوں پر تو بالکل بولتا ہی نہیں تھا۔
صرف سنتا تھا،حلقے کا اجلاس ہوتا تو افسانہ سنا دینے کے بعد نکل آتا،یا خاموش بیٹھا رہتا، بولنا مجھے پسند نہیں تھا،مجھے مشاہدہ کرنے کی عادت تھی،سب کو دیکھتا مگر منہ سے لفظ نہ نکلتا تھا، کسی مباحثے میں بھی میں بالکل جوش و خروش کا مظاہرہ نہیں کرتا تھا، میں بالکل کلنٹ ایسٹ وڈ جیسا تھا،بالکل دی گڈ ، بیڈ اینڈ اگلی فلم میں کلنٹ ایسٹ وڈ جیسا،خاموش ، منہ میں سگریٹ اور پرسکون۔۔۔لیکن میرا تعلق ادب کے ساتھ تھا،افسانے لکھ کر اپنا اور بچوں کا پیٹ پالتا رہا،شراب کی زیادتی نے صحت بالکل تباہ کر دی،چوڑے سینے اور مضبوط شانوں والا سعادت حسن منٹو بالکل لاغر ہو کر خون کی الٹیاں کرنے لگا تھا۔

پھر ایک دن میں مر گیا،مرے مرنے کے بعد ادبی حلقوں میں رسمی افسوس ہوا،احمد ندیم قاسمی جیسے دوستوں نے اپنے رسالوں کے منٹو نمبر نکالے اور پیسے بنائے پھر آہستہ آہستہ منٹو وقت کی دھول تلے دبتا گیا،فحش نگار کو کون کب تک یاد رکھتا، تعلیمی اداروں کے نصاب میں میرے افسانے شامل کر دیے گئے ،اردو تو اردو انگریزی میں ترجمہ کر کے انگریزی میں بھی پڑھائے جانے لگے،خیر پھر سرمد سلطان کھوسٹ نے جو بچپن سے میرا عاشق تھا،بچپن سے ہی جنون تھا کہ منٹو کو فلمایا جائے گا،اردو انگریزی ادب میں ماسٹرز کیا تھا اور آخر برسوں کی تگ و دو اور مطالعے کے نچوڑ کے بعد ، مجھ پر لکھے گئے ایم فل اور پی ایچ ڈی کے مقالوں کے انبار پڑھ کر میرا رول ادا کیا..وہ رول ہر لحاظ سے بہترین تھا،یہاں جنت میں میں نے دیکھی تھی منٹو فلم اور ڈرامہ سیریل بھی،بہت عمدہ کام کیا ہے بچے نے،میرا انداز گفتار تو ہوبہو نقل کیا ہے،میرا چلنے پھرنے کا انداز تو ایسے کاپی کیا ہے کہ شاید ہالی وڈ کے اداکار بھی نہ کر پائیں،سب سے بڑھ کر یہ کہ اس نے مجھے سمجھا ہے…

اب میں ہاٹ ٹاپک ہوں..پڑوسی دیس جہاں سے میں دربدر ہو کر پاکستان آیا تھا.انہوں نے جیبیں گرم کرنے کے لیے مجھ پر فلم.بنانا شروع کی۔۔۔
نواز الدین صدیقی کو میرا رول دے دیا گیا..
وہی نواز الدین جس نے ہر فلم میں ایک جیسی آواز نکالی.اور ایک جیسا انداز ظاہر کیا،مانجھی – دا ماونٹین مین کا اداکار جو جاہل اجڈ اور گنوار ہے،جس نے اپنی شناخت جیب کترے ، بھنگی اور مجرم کی بنا رکھی ہے،جس کا رنگ سیاہ ہے اور ہونٹ سیاہ ہو چکے ہیں.جس کی آنکھیں مردہ ہیں..جیسے پندرہ سال پہلے کی فلم میں تھیں،جس کا اردو کا تلفظ رئیس جیسی نستعلیق فلم میں بھی گینگز آف واسع پور کے غنڈے جیسا تھا،جو کیمسٹری میں بی ایس سی کیا ہے.وہ کئی پی ایچ ڈیز کے برابر کے ادیب کا رول نبھانے جا رہا ہے،فلم کا ایک ادھ حصہ میں نے دیکھا،اس میں مَیں سعادت حسن منٹو کو ڈھونڈتا رہ گیا،.وہ نہایت شستہ اور نستعلیق اردو بولنے والا منٹو ، جس میں پنجابی کا رنگ جھلکتا تھا،وہ نہایت کم  گو اور خاموش رہنے والا منٹو وہاں ایک جوشیلا مقرر ہے۔ڈائس پر ہاتھ رکھ کر دھیمے سے لہجے میں بولنے والا منٹو ابوالکلام آزاد جیسے جوش سے لیکچر دے رہا ہے،بے حد سست قدم اٹھانے والا منٹو عجلت کا شکار نظر آتا ہے.،یری لکھی فلم غالب میں بھارت بھوشن نے اچھی اداکاری کی لیکن گلزار کے لکھے سیریل غالب میں نصیر الدین شاہ نے ایسی اداکاری کی کہ جس میں مزید بہتری بالکل ممکن نہیں،سرمد کھوسٹ کے بنائے گئے سیریل اور فلم میں میرا کردار بہت عمدہ تھا،چند کمیاں تھیں لیکن ان کا ذکر ضروری نہیں۔۔۔

میرا کردار نہ عرفان خان کر سکتا ہے نہ نواز الدین صدیقی نہ کوئی اور
صرف سرمد سلطان کھوسٹ ہی کر سکتا ہے..
غالب کو نہ بھارت بھوشن کر سکا نہ کوئی اور – صرف نصیر الدین شاہ ہی کر سکا..

Advertisements
julia rana solicitors london

کچھ کردار ہر ایک کے بس کے نہیں ہوتے!

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply