اوکھے پینڈے

آج پھر حسب معمول بیوی سے جھگڑا کرنے کے بعد گاڑی کی چابیاں اٹھائیں اور قہرِ درویش بر جانِ درویش کے مصداق بڑبڑاتے ہوئے جلتے بھنتے دروازہ پٹخ کے باہر نکل آیا۔ یہ تو نکلتے ہی سوچ لیا تھا کہ اب کم از کم شام تک تو گھر واپس نہیں جاؤں گا. لیکن ابھی تو فجر کے آس پاس کا ہی وقت تھا. سوچتے سوچتے گھر کے پاس ہی ایک مختصر سے پارک کی جانب گاڑی کا رخ موڑ دیا. یہاں ابوظہبی میں پارکس ذرا مختصر ہی ملتے ہیں اور جو ملتے ہیں وہاں لوگ بھی ذرا کم کم ہی ملتے ہیں. عجیب اکتاہٹ کا سماں محسوس ہو رہا تھا جو مجھے اکثر ہی ہوتا رہتا ہے. ویسے بھی یہاں پردیس میں آٹھ سال گزارنے کے باوجود بھی اپنا اندر یہاں کبھی سرایت ہونے میں کامیاب نہیں ہو پایا. بہت کوشش کے باوجود کبھی واپسی کے ارادے کو بھی ممکن نہ کر پایا اور اسی ممکن اور نا ممکن نے ذات کے اندر ہجرت کے ایسے دکھ پیوست کر دیے کہ ذرا حالات سازگار ملے نہیں اور یہ زخم رسنے لگے. شاید اس کی وجہ وہ حالات تھے کہ جن سے پہلو تہی کر کے میں ادھر آ بسا. لیکن خدا غارت کرے اس نوسٹیلجیا کو کہ ایک پل کے لیے بھی وہ منظر آنکھ سے اوجھل نہ ہونے پائے جن سے بچتے بچاتے فرار کی راہ لی تھی۔

پارک میں کچھ دیر بے مقصد چہل قدمی کرنے کے بعد ایک لکڑی کے بینچ پر جا بیٹھا. اب کبھی نیند سے ادھر گرتا تو کبھی ادھر. کافی دیر بینچ پہ ہی آڑے ترچھے ہونے کی جد ہ جہد میں لگا رہا. صبح کا منظر مجھے کبھی بھی اتنا سحر انگیز نہیں لگا جتنا کتابوں میں پڑھا یا لوگوں سے سنا. اور اس کی وجہ میں کبھی خود بھی نہ جان پایا. ہاں لیکن ڈوبتے سورج کا منظر بہت دلکش لگتا ہے. اور دوستوں کے بقول یہ میرے اندر کا تخریب کار ہے جو اپنی پسند کے منظر تلاشتا ہے. پاس کھجور کے درخت پہ لگے ڈوکے صبح کی پھوٹتی روشنی میں ہر چمکتی ہوئے چیز سونا نہیں ہوتی کے مصداق قدرت کی حسین شاہکاری کی غمازی کر رہے تھے. پرندے بھی شاید بے وطنی کے دکھ میں بھانت بھانت کی بولیوں میں کراہ رہے تھے۔ عجیب بات هےكه جب انسان اداس ہوتا ہے تو اسے محسوس ہوتا ہے کہ شاید فطرت بھی اس کی اداسی میں حصہ داربن رہی ہے۔

میں کبھی کبھی سوچتا ہوں کہ اگر انسانوں اور چرند پرند کے درمیان یہ کمیونیکشن گیپ نہ ہوتا تو کیا ہم ایک دوجے کے دکھ درد اور احساسِ تنہائی کو بانٹ سکتے! یا پھر یہ چرند پرند بھی ہماری داستانیں سن کر کچھ اپنوں کی طرح چند سطحی بول ہمدردی کے بول کر ہمارے دکھوں کو ہماری ہی کمزوری کی پوٹلی میں باندھتے اور حسب ضرورت اور حسب ذائقہ اس کا استعمال کرتے.

میں اپنے خیالوں کی بھول بھلیوں میں ہی گم تھا کہ سامنے اک شخص پہ نظر پڑی جو مالی کے لباس میں ملبوس تھا.اک دو دفعہ ایسے ہی سر سری نظر ملنے کے بعد وہ میری جانب ہی آ لیا. اپنا صافہ دیتے ہوئے کہنے لگا کہ صاحب یہ رکھ لیں سر کے نیچے. یہ لوہے کے تکیے بڑے ظالم ہیں. میں نے شکریہ کے ساتھ صافہ تھامتے ہوئے پوچھا کہ بزرگو۔ انڈیا سے ہیں کہ پاکستان سے؟
“بٹا ہوا ہوں”۔ اس کے جواب نے مجھے چونکا دیا.
“وہ کیسے”؟ میں نے کریدنے کی کوشش کی.
کہنے لگا کہ بچپن میں تھا تو تقسیم کے باعث ہجرت، کچھ بڑے ہوئے تو گاؤں سے شہر، نوجوانی میں قدم رکھا تو ادھر آ نکلا، بس اپنا تھوڑا تھوڑا حصہ ہر جگہ چھوڑ آیا ہوں۔ تلاش روزگار بڑی ظالم مشقت ہے صاحب۔ ابھی جوانی پھوٹنے کو ہی تھی کہ دیس نکالا مل گیا، ٹاٹ کے ہلتے پردے کو ہمیشہ کے لیے خیر باد کہہ دیا۔ یہ کہہ کے وہ خاموش ہوگیا. یوں لگا کہ جیسے یک دم کسی نے ماحول سے قوتِ گویائی چھین لی ہو. جیسے سارے منظر پہ ہجرت کا دکھ حاوی ہو گیا ہو.جیسے پرندے بھی نوسٹلجیا میں کھو گئے ہوں اور سوچ رہے ہوں کہ اپنا آدھا حصّہ کہاں چھوڑ آئے. جیسے درخت سوچ رہے ہوں کہ انہیں کہاں سے کہاں لا کے دفنایا گیا ہو.

وقت نے کیا کیا حسین ستم
تم رہے نہ تم ہم رہے نہ ہم

اس آدمی کے منہ سے نکلنے والے جگجیت کی غزل کے اس شعر نے گویا ساکت منظر میں جیسے دوبارہ سے رنگ بھرنے کی کوشش کی ہو اور سبھی کو اپنے جو حصے جہاں چھوڑے اسے بھول کے حال میں واپس آنے پہ مجبور کر دیا. وہ پھر گویا ہوا: “میں نے بہت عرصہ یہاں ایک بہت امیر عرب کے ہاں کام کیا. اس اثنا میں اپنا گھر بنا لیا، بچیوں کی شادیاں کیں. کبھی مجھ سے کسی نے یہ نہیں کہا کہ ہمیشہ کے لیے سب کچھ چھوڑ کے گھر واپس آ جاؤ. ہاں یہ ضرور کہا کہ کوئی آئے تو اس کے ہاتھ یہ بھی بھجوانا وہ بھی بھجوانا، یہ فہرست اتنی لمبی ہوئی کہ اس کے بوجھ سے اٹھ نہیں پایا. میں نے اپنی ماں کو کھو دیا، باپ کے جنازے میں نہ جا سکا، لیکن اس فہرست کا تسلسل نہ ٹوٹنے دیا.

میں چپ چاپ اس کے چہرے پہ پڑ ی شکنوں سے گئے دنوں کے آثار تلاش کرنے میں مگن تھا کہ اس نے مجھے مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ جب مدّت ہوئے اس شخص کے ہاں ملازمت کرتے ہوئے تو اک دن سوچا کہ میں نے بہت کھا لیا اس شخص کو، اپنی ذمہ داریاں بھی نبٹا چکا ہوں تو کیوں نہ واپسی کی راہ لوں. ایک دن اس کے پاس گیا اور کہا کہ صاحب مدّت ہوئی آپ کے ہاں کام کرتے۔ اس سارے عرصے میں مجھ سے جہاں بن پڑا جتنا بن پڑا میں نے اپنا آپ کھایا، اب میرے میں اور ہمت نہیں، میں واپس جانا چاہتا ہوں. پتہ ہے وہ میری بات سن کے مسکرا دیا اور کہا ایک منٹ رکو۔ وہ اندر گیا اور مری بیس سال پرانی اک تصویر اٹھا لایا اور میرے اک ہاتھ میں آئینہ اور دوجے میں وہ تصویر دے کر بولا کہ اب ان دونوں چہروں کو دیکھو اور بتاؤ کہ کون کسے کھا گیا. میں جو اپنی عمر سے بھی دس سال آگے پہنچ چکا تھا اس کا دیا آئینہ لیے اپنے سرونٹ کوارٹر میں آ بیٹھا.
مالی نے مجھ سے اپنا صافہ لینے کے لیے ہاتھ بڑھایا اور صافہ لے کے چل دیا۔ عین اسی لمحے اپنے زمانہ طالب علمی میں لکھی اپنی اک نظم کا حصّہ میرے دماغ میں گونجا .

Advertisements
julia rana solicitors london

چاک گریباں، بال بکھیرے
جب کوئی دیوانہ
یوں گلیوں گلیوں پھرتا ہے
تو سوچتا ہوں
کہ کیسے لوگ ہیں
اوروں کے غم روگ بنا کر
اپنا جیون سوگ
بنا کر
زندہ ہیں۔

Facebook Comments

راحیل اسلم
گزشتہ کئی سالوں سے یو اے ای میں مقیم ہوں.ہیومن ریسورس کی فیلڈ سے وابستہ ہوں.ادب کا اک ادنیٰ سا طالب علم ہوں اور الله کی خاص رحمت سے نثر اور شعر میں طبع آزمائی کرتا رہتا ہوں..

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply