تھپڑ ۔۔۔۔گل ساج

مشہور زمانہ ” تھپڑ ” کو 10 دن سے زائد گزر گئے مگر ابھی تک ہنوز اسکی گونج سنائی دے رہی ہے ۔کیا یہ اتنا ہی اہم ایشو تھا کہ جسے میڈیا نے سر پہ اٹھا لیا دانشور تجزیہ کار اس تھپڑ پہ لمبی لمبی بحثیں کرتے دکھائی دئیے، کالم نگاروں قلمکاروں نے اس پہ تحریریں لکھیں، دیکھا دیکھی چیف جسٹس صاحب نے بھی سوموٹو ایکشن لے لیا غرض یہ تھپڑ بڑے قومی ایشوز پہ بھاری پڑ گیا۔اور یہ ایسے ملک میں ہوا جہاں غریب ،کمزور، محکوم ،کسی کی  کوئی عزتِ نفس نہیں۔۔صبح سے شام تک وہ ذلیل و خوار ہوتا ہے اور یہ ایسے ملک میں ہوا جسکی عالم میں کوئی عزت نہیں ،جسے تحقیر سے دیکھا جاتا ہے جس کی قومی خودداری پہ روز تھپڑ جڑے جاتے ہیں یہ ایسے ملک میں ہوا جسکے متعلق ایک معمولی امریکن وکیل نے کہا تھا کہ”پاکستانی تو پیسے کے لئیے اپنی ماں بھی بیچ دیں” اور ہم نے یہ” تھپڑ “خاموشی سے برداشت کر لیا نہ قومی غیرت جاگی نہ دانشور وں نے مضمون باندھے نہ ہی چیف جسٹس نے نوٹس لیا نہ ہی کوئی کمیشن بنا نا ہی سفارتی سطح پہ خاص احتجاج ہوا۔

اب ایک ایم پی اے جو بدقسمتی سے یا اتفاقاً “پی ٹی آئی ” سے تعلق رکھتا  ہے کے تھپڑ نے ملک کی “اخلاقی بنیادیں” ہلا دی ہیں قوم اسے اپنےسماجی معاشرتی اخلاقیات کی شکست و ریخت سے تعبیر کر رہی ہے ۔۔
جنابِ من!
یہ معاملہ اتنی اہمیت کیوں اختیار کر گیا ہے اس لئے کہ نئی حکومت کو نان ایشوز میں الجھا دیا جائے اسکا فوکس قومی سطح کے مسائل سے ہٹا کے دو اشخاص کے ” پرسنل میٹر” پہ کر دیا جائے؟۔۔۔
انکے درمیان سرِراہ ایک واقعہ ہوا ان میں سے ایک شخص ایم پی اے ہے اور ایک 18 ویں سکیل کا سرکاری آفیسر ہے(غریب غرباء اللہ راسی عام آدمی نہیں ہے )
ایم پی اے کا یہ فعل ذاتی حیثیت میں تھا مگر پھر بھی اسکی پارٹی پی ٹی آئی نے اسے اون کیا ،ایم پی اے کو نوٹس جاری کیا وہ متاثرہ آفیسر کے گھر پہنچا معافی مانگی،معافی دے دی گئی مگر افسر شاہی انا تھی معافی سے تسکین نہ ہوئی اور سوشل میڈیا پہ بیان جاری کیا ۔۔۔”میں معاف نہ کرتا تو کیا کرتا ”
معاف نہ کرتے تو اور کیا کرتے موقع پہ تھپڑ مار لیتے کہ اسلام میں آنکھ کے بدلے آنکھ خون کے بدلے خون اور تھپڑ کے بدلے تھپڑ۔۔۔
اتنی جرات نہیں تھی تو عدالت جا کے ہتکِ عزت کا دعوی کرتے ، قصاص لیتے کچھ ” رقم” لے کر معاف کردیتے،یہ خالی خولی معافی ۔۔شِٹ

اچھا جی
“معاف نہ کرتا تو کیا کرتا ”
کیونکہ مارنے والا مجھ سے زیادہ طاقتور تھا اگر برابر کا ہوتا یا کچھ کمتر ہوتا تو میں اسکی ایسی تیسی پھیر دیتا اسکا اور اسکے خاندان کا جینا محال کر دیتا اسکی جرات کیونکر ہوئی ایک آفیسر کو انگلی لگانے کی ،پر کیا کروں یہاں میرا زور نہیں چلتا۔۔۔۔۔تو اب۔۔” معاف نہ کرتا تو اور کیا کرتا”

پی ٹی آئی نے انضباطی کارروائی کا  نوٹس دیا، 5 لاکھ ایدھی سنٹر میں ڈونیشن کرنے اور 20 مریضوں کے علاج کی ذمہ داری سونپی اور آئندہ کے لئیے ایسی حرکت پہ پارٹی سے نکالنے کا الٹی میٹم اور پی ٹی آئی کیا کرے
اس سے اچھا کیا ہو
آپکے ایک تھپڑ کھانے سے بے کس بے سہارا لوگوں کی داد رسی ہوئی
مگر نہیں یہ رقم آپکو مل جاتی تو شاید۔۔۔۔۔۔
جنابِ من
یہاں ہر طاقتور شخص فرعون ہے
اپنی زندگی میں ہم نے اور اس متاثرہ آفیسر نے جانے کتنے ماتحتوں اپنے سے کمتر کتنے لوگوں کی عزت نفس مجروح کی ہوگی
کتنوں کی انا پہ “تھپڑ “جڑے ہونگے کتنوں سے  زیادتی کی ہوگی مگر کیونکہ وہ غریب ہیں انکو پڑنے والے تھپڑوں کی کیا اوقات،کیونکہ ان تھپڑوں کی تشہیر کا سامان نہیں
حیف اس چارہ گر تھپڑ کی قسمت جو غریب کے گال پہ رسید ہوا ۔۔

پارٹیشن سے پہلے انگریز میم ہندوستان کے نچلے طبقے کی غربت پسماندگی اور حالت زار کو دیکھ کے حیران و پریشان ہوتی ہے تو ساحر لدھیانوی  اپنی شہرہ آفاق نظم “مادام ” کی صورت میں اس سے مخاطب ہوتا ہے

“آپ بے وجہ پریشان سی کیوں‌ ہیں مادام ؟
لوگ کہتے ہیں تو پھر
ٹھیک ہی کہتے ہوں گے
میرے احباب نے تہذیب نہ سیکھی ہوگی
میرے ماحول میں انسان نہ رہتے ہوں گے
لوگ کہتے ہیں تو لوگوں ‌پہ تعجب کیسا؟
سچ تو کہتے ہیں کہ ناداروں کی عزت کیسی
لوگ کہتے ہیں۔۔۔
مگر آپ ابھی تک چپ ہیں مادام
آپ بھی کہیے، غریبوں میں شرافت کیسی؟
“مفلسی حس لطافت کو مٹا دیتی ہے ”

Advertisements
julia rana solicitors london

“نہ صرف حس لطافت کو بلکہ عزت نفس انا غیرت و خودداری کو بھی مٹا دیتی ہے”

Facebook Comments

گل ساج
محمد ساجد قلمی نام "گل ساج" مظفر گڑھ جنوبی پنجاب ۔۔۔۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply