شہزاد کی شہزادیاں۔۔۔۔ثنا اللہ خان احسن

شہزاد نے کپڑے کی آخری لاٹ کا پیٹرن کاٹا اور اس کو اسٹچنگ ڈپارٹمنٹ کے حوالے کر کے گھر جانے کے لئے تیار ہوگیا۔ رات کے آٹھ بج چکے تھے اور بلدیہ ٹائون کی اس گارمنٹ فیکٹری سے اپنے نیو کراچی میں واقع گھر تک جانے کے لئے ابھی ایک گھنٹہ مزید دو بسوں میں خوار ہونا تھا۔ اس نے پینٹ کی جیب سے گٹکا ماوے کی پڑیا نکال کر اس کی پنی کو دانتوں کے بیچ دبا کر کھینچا تو پنی کے اندر موجود ماوے کی کچھ مقدار اس کی زبان پر منتقل ہوگئی، باقی پڑیا کو ربڑ بینڈ سے لپیٹ کر اس نے واپس جیب میں رکھ لیا۔ انگلیوں کو بالوں سے پونچھا۔ منہ میں اس کتھے، چونے، تمباکو، کمیلے سے جمع کئے گئے خون اور گلی سڑی چھالیہ کے ملغوبے سے پیک بناتے ہوئے اس نے فیکٹری کے مین گیٹ کی جانب رخ کیا۔ شہزاد کو اس ماوے تمباکو کی لت چھ ماہ سے لگی تھی- اس فیکٹری میں کام کرتے ہوئے اس کو چھ ماہ ہو چکے تھے۔ کام اچھا چل رہا تھا اور اب وہ سوچ رہا تھا کہ جلد نواب شاہ سے بیوی بچوں کو واپس بلالے۔
شہزاد کی شادی کو آٹھ برس ہو چکے تھے۔ تقسیم کے وقت اس کے والدین انڈیا کے شہر کان پور سے ہجرت کر کے پاکستان آئے تھے۔ پاکستان آکر شہزاد کے باپ نے کچھ عرصہ سائیکل رکشہ چلایا لیکن جب ایوب خان نے ان رکشوں پر پابندی لگادی تو اس نے اپنے ہی محلے میں ایک چھوٹی سی کریانے کی دکان کھول لی تھی جو اتنی چل پڑی کہ گزر بسر ہونے لگی۔ بیس سال کے عرصے میں تین بیٹے اور دو بیٹیاں ہوئیں۔ واجبی تعلیم کے بعد لڑکیوں کی شادی کردی جبکہ شہزاد سمیت باقی دو بھائی میٹرک سے آگے نہ پڑھ پائے اور اس کے بعد چھوٹے موٹے کاموں میں لگ گئے۔ شہزاد سب سے چھوٹا تھا۔ بیس سال کی عمر سے اس نے گارمنٹس فیکٹری میں کام سیکھنا شروع کیا تھا۔ نوے کی دھائ میں کراچی کے حالات اچھے تھے اور بے شمار گارمنٹ فیکٹریاں شہر میں ایکسپورٹ مال بنا رہی تھیں۔ اسی دوران شہزاد کے والدین کا انتقال ہو گیا۔ والد کے بنائے ہوئے دو کمروں کے چھوٹے سے گھر میں پہلے ہی دو بڑے بھائ اپنے بیوی بچوں کے ساتھ بمشکل فٹ تھے۔ شہزاد کا کام اچھا چلا تو پانچ سال کے عرصے میں ہی اس نے اچھے خاصے پیسے جمع کرلئے اور پھر بھابھیوں کے کہنے پر شادی کی تیاری شروع کردی۔ اس کی بڑی بھابی کے ایک رشتے کے چچا نواب شاہ میں رہتے تھے جن کی سب سے چھوٹی بیٹی ثمینہ حال ہی میں انٹر کر کے فارغ ہوئ تھی۔ تیکھے ناک نقشے والی کھلتی ہوئ گندمی رنگت اور متناسب بدن ثمینہ شہزاد کو بہت پسند آئ اور اس نے جھٹ پٹ ایک کرائے کا مکان لے کر شادی کی تاریخ طے کردی۔ سن 2000 میں اس کی شادی ہوگئی اور یہ نیا جوڑا ہنسی خوشی اپنی زندگی کی ڈگر پر چل پڑا۔ ثمینہ ایک سلیقہ مند اور وفا شعار بیوی ثابت ہوئ۔ شوہر کی تنخواہ میں خوش۔ جو دلا دیا وہ ہنسی خوشی لے لیا۔ ہنس مکھ۔ شکوہ نہ شکایت۔ دو سال بعد اللہ نے ان کو گول مٹول گلابی گل گوتھنی سی بیٹی سے نوازا جس کا نام ثمینہ نے اقرا رکھا۔ اب گھر میں ننھی اقرا کی قلقاریاں گونجنے لگی تھیں۔ماں باپ کی آنکھوں کا تارا۔۔۔۔ وقت گزرتا گیا۔ اقرا چھ سال کی ہوئ تو ان کے یہاں ایک دوسری پری کی آمد ہوئ۔ وہی گلابی سی نازک سی بڑی بڑی آنکھوں والی ننھی سی مورت جس کا نام شہزاد نے ثوبیہ رکھا۔ اقرا اب اسکول جانے لگی تھی۔
اسی دوران کراچی کے حالات خراب ہونا شروع ہو چکے تھے۔ آئے دن بھتے اور قتل و غارتگری نے شہر کی رونقیں چھین لی تھیں۔ بیشتر گارمنٹ فیکٹری کے مالکان بھتے اور قتل کی دھمکیوں سے خوفزدہ ہو کر یہ کام بند کر چکے تھے یا پھر دبئی، بنگلہ دیش اور ملائشیا شفٹ ہو چکے تھے۔ جو بچی کھچی فیکٹریاں جیسے تیسے کام کر رہی تھیں وہ ہزاروں بے روزگار ہونے والے افراد کو روزگار دینے سے قاصر تھیں۔ شہزاد اب پہلے کے مقابلے میں آدھی تنخواہ پر کام کر رہا تھا۔ لیکن ثمینہ جیسی بیوی اور اقرا اور ثوبیہ جیسی بیٹیوں کے ہوتے اس کو کبھی بھی زندگی سے شکایت نہ ہوئی. روزانہ جب وہ رات کو کام سے واپس آتا تو اس کی دستک سنتے ہی ننھی ثوبیہ اپنے ننھے ننھے پیروں پر دوڑتی ہوئی ابو ابو کہتی گرتی پڑتی دروازے تک جا پہنچتی۔ دروازہ کھلتے ہی وہ شہزاد کی ٹانگوں سے چمٹ جاتی۔ شہزاد اس کو اٹھا کر گود میں لیتا اور اس کی گردن اور گالوں کے بیچ اپنے ہونٹ رکھ دیتا۔ ننھی سی پونی باندھے چھوٹی سی فراک میں ملبوس ثوبیہ کی مہک اور نرم گرم گردن کا لمس شہزاد کی ساری تھکن دور کردیتا۔ ثوبیہ کو گود میں لئے اور اقرا کے کندھے پر ہاتھ رکھے یہ باپ بیٹی کمرے میں داخل ہوتے۔ ثوبیہ کو پلنگ پر بٹھا کر شہزاد کپڑے بدلتا اور پھر صحن میں رکھے پلاسٹک کے ڈرم سے پانی نکال کر منہ ہاتھ دھو کر کمرے میں ۔آجاتا جہاں ثمینہ کمرے میں بچھی پلاسٹک پر دسترخوان بچھا چکی ہوتی تھی۔ شہزاد ثوبیہ کو اپنی گود میں بٹھا لیتا پھر چاروں ہلکی پھلکی باتوں کے دوران کھانا کھاتے۔ کھانے کے بعد شہزاد ثوبیہ کو گود میں لے کر اور اقرا کی انگلی پکڑ کر گھر کے قریب واقع بازار کا رخ کرتا۔ ناشتے کے لئے دودھ، پاپے یا بن لینے کے بعد ثوبیہ اور ثمینہ کو دس دس روپے کے چپس اور ٹافیاں دلاتا ۔ کبھی موڈ ہوتا یا پیسے زیادہ ہوتے تو ثمینہ کے لئے ایک مرنڈا کی بیس روپے والی بوتل لیتا کہ ثمینہ فرمائش تو نہ کرتی تھی لیکن اس کو مرنڈا بہت پسند تھا۔ اس شاپنگ کے بعد باپ بیٹی گھر آجاتے۔ اب بچیوں کی نظر ماں کی مرنڈا پر ہوتی۔ ثمینہ کو بہت اچھی طرح پتہ تھا کہ یہ بیس والی بوتل چار افراد میں کس طرح پوری کرنی ہے۔ وہ بوتل کو جگ میں انڈیلتی پھر اس میں ایک گلاس برف والا پانی ڈال کر دو چمچ چینی گھولتی ۔ پھر چار گلاسوں کو آدھا آدھا بھر کر یہ گھرانہ کولڈ ڈرنک کی عیاشی سے محظوظ ہوتا۔ ثوبیہ گو چھوٹی تھی لیکن کولڈ ڈرنک میں اس کو سب کے برابر کا حصہ درکار ہوتا تھا ورنہ وہ ناراض ہو کر بستر پر اوندھی لیٹ جاتی اور اپنا منہ تکیے میں چھپا لیتی۔ یہ منہ اسی وقت تکیے سے نکلتا تھا جب تک کہ ثمینہ اس کے سامنے دونوں گلاسوں میں مرندا کی برابر کی مقدار نہ دکھا دیتی۔مرنڈا پی کر یہ خاندان فرش پر بچھی صاف ستھری توشک اور چادروں کے بستر پر لیٹ جاتا۔ اب ثوبیہ کا پسند کھیل شروع ہوتا۔ شہزاد اپنے گھٹنے موڑ کر ثوبیہ کو اپنے پیروں پر گھوڑے کی سواری کی طرح بٹھا لیتا اور پھر جھولا جھلاتا ہوا ننھی ثوبیہ کو اوپر نیچے جھونٹے دیتا۔ اقرا باپ کے سر کے پاس بیٹھی باپ کے بالوں میں انگلیاں پھیرتی جاتی۔ جھلانے کے ساتھ ساتھ شہزاد ایک مخصوص لے کے ساتھ گاتا جاتا-
‎شہزاد کی شہزادیاں
‎دودھ جلیبیاں کھاتیاں
‎شہزاد کی شہزادیاں
‎دودھ جلیبی کھاتیاں
‎ہر اتوار کی صبح شہزاد اپنی بیٹیوں کو لازمی دودھ جلیبی لا کر دیتا۔ ایک پائو دودھ اور ایک پائو جلیبی۔۔۔ دونوں بہت شوق سے کھاتی تھیں۔ابھی کئ روز سے اقرا شہزاد سے طوطے کی فرمائش کر رہی تھی۔ اللہ ابا ہم کو ایک طوطا لادو نا۔۔۔ برابر والی شمو خالہ کا طوطا اتے مزے سے بولتا ہے۔ پھر وہ طوطے کی آواز میں طوطے کی نقل اتار کر باپ کو بتاتی۔۔۔۔ مٹھو بیٹا۔۔۔ مٹھو۔۔۔۔ چوری کھائو گے۔۔۔۔۔۔ ٹیوں ٹیوں تیوں۔۔۔۔۔۔ شہزاد بے اختیار قہقہہ مارتا اور پھر اس نے وعدہ کیا کہ اس مرتبہ جب طوطوں کے بچوں کا سیزن آئے گا تو وہ ضرور ایک بولنے والے طوطے کا بچہ لا کر اقرا کو دے گا تاکہ وہ بولنا سیکھ جائے۔

‎ شہر کے حالات بے انتہا خراب ہو چکے تھے ہر پانچ چھ ماہ بعد فیکٹری بند ہونے کی وجہ سے شہزاد کو نیا کام ڈھونڈنا پڑتا ۔ لیکن ثمینہ کی کفایت شعاری اور سلیقہ مندی کی وجہ سے جیسے تیسے گھر چل رہا تھا۔ ثوبیہ اب تین سال کی ہو چکی تھی اور اقرا نو سال کی۔۔ اس مرتبہ ایسا ہوا کہ شہزاد کو چھ ماہ تک کام نہ مل سکا۔ گھر کا کرایہ تو درکنار دیا ہوا ایڈوانس بھی کرائے کی مد میں پورا ہو گیا۔ مکان مالک نے گھر خالی کرنے کا نوٹس دے دیا۔ شہزاد کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ کیا کرے. یار دوستوں سے جتنا قرض لے سکتا تھا لے چکا تھا۔ لیکن اس مرتبہ تو کام تھا کہ مل ہی نہیں رہا تھا۔ سینے پر پتھر رکھ کر دونوں میاں بیوی نے ایک مشکل فیصلہ کیا۔ طے یہ پایا کہ ثمینہ کچھ عرصے کے لئی بچوں سمیت اپنے میکے نواب شاہ چلی جائے۔ شہزاد کام تلاش کرے اور جیسے ہی کام ملے تو کچھ پیسے جوڑ کر مکان کرائے پر لے اور پھر بیوی بچوں کو واپس کراچی بلا لے۔شہزاد نے ثمینہ کو ایک پرانا موبائل فون لے دیا تاکہ کم از کم فون پر تو رابطہ قائم رہے۔ شہزاد نے بھاری دل سے بیوی اور روتی چیختی ثوبیہ کو نوابشاہ کی بس میں بٹھایا۔ ننھی ثوبیہ باپ کو ساتھ نہ جاتا دیکھ کر مستقل ننھے ننھے بازو پھیلا کر ابوشاتھ جانا ابو شاتھ جانا چلا رہی تھی۔ اقرا بھی منہ بسور رہی تھی۔ شہزاد نے بھری آنکھوں سے ثوبیہ کو پیار کیا اور پھر تیز تیز قدموں سے چلتا بس سے دور چلتا گیا۔ اس کی پیچھے مڑ کر دیکھنے کی بھی ہمت نہ تھی کہ گویا پیچھے مڑ کر دیکھا تو پتھر کا بن جائے گا۔
‎مکان خالی کر کے ایک دوست کی چلی نما کھولی میں بمشکل گھر کا سارا سامان ٹھونسا۔ سامان بھرنے کے بعد بمشکل ایک چادر بچھانے کی جگہ بچی تھی جس پر یہ رات کو ٹانگیں سکیڑ کر سو جاتا۔ بچوں کے نوابشاہ جانے کے دو ماہ بعد اس کو بلدیہ ٹائون کی ایک فیکٹری میں کام مل گیا۔ فیکٹری بہت بڑی تھی۔ کام بھی اچھا چل رہا تھا۔ شہزاد نے ڈبل شفٹوں میں کام شروع کردیا۔ اسی دوران اس نے ایک اچھی نسل کے بولنے والے طوطے کا بچہ بھی خرید لیا تھا اور رات کو اپنے بستر پر لیٹ کر اس کا پنجرہ اپنے برابر رکھ لیتا اور نہ جانے کیا کیا باتیں کرتا اور سکھاتارہتا۔
‎چھ ماہ بیت گئے۔ شہزاد نے دوسرا گھر کرائے پر لے لیا ، سامان وغیرہ سیٹ کرنے کے بعد اب وہ بیوی بچوں کو بلانے کے لئے تیار تھا۔ اس نے نوابشاہ فون کردیا کہ کل کراچی آجائو۔ ادھر ثمینہ اور بچوں کا بھی برا حال تھا۔ بھاوجوں کے طعنے سہتی اور دن بھر ماسیوں کی طرح کام کرتی تو دو وقت کی روٹی اور سر چھپانے کا ٹھکانہ ملا ہوا تھا۔ ثمینہ اور اقرا کا بھی ماموں زاد بھائ بہنوں نے ناطقہ بند کیا ہوا تھا۔ جس دن شہزاد کا فون آیا کہ کراچی آجائو وہ دن گویا اقرا اور ثمینہ کے لئے عید کا دن تھا۔ عید بقرعید کو بھی ایسی خوشی نہ ہوتی تھی جو آج ثمینہ اور اقرا کو تھی۔
‎دوسرے دن صبح گیارہ بجے ثمینہ بچوں کو لے کر کراچی پہنچ گئی۔ شہزاد اس کو لینے بس اسٹاپ پر موجود تھا۔ ثمینہ کو دیکھ کر شہزاد بہت دکھی ہوا کیونکہ چھ ماہ میں ہی وہ بہت کمزور ہو گئی تھی۔ بچیاں بھی بہت کمزور لگ رہی تھیں۔ اقرا باپ سے لپٹ گئی۔ ثوبیہ پہلے تو شہزاد کو اجنبی نظروں سے دیکھتی رہی پھر نہ جانے کیا یاد کر کے ہمک کر ماں کی گود میں مچلنے لگی۔ شہزاد نے بے اختیار اس کو گود میں بھر کر اس کے گال اور گردن کے بیچ اپنے ہونٹ رکھ دئے۔
‎گھر آکر بچوں کی خوشی کا کوئ ٹھکانہ نہ تھا۔ طوطے کو دیکھ کر بچیاں بہت خوش ہوئیں۔ لیکن اقرا کو یہ شکایت بھی تھی کہ طوطا کچھ بول نہیں رہا تھا۔ شہزاد نے کہا کہ اب تم اس کو بولنا سکھا دینا۔ شہزاد تو بیوی بچوں کو گھر چھوڑ کر فیکٹری چلا گیا۔ ثمینہ گھر کی صفائی اور ستھرائ میں جٹ گئی۔ بچیاں اپنے کھلونوں سے کھیلنے میں مگن ہو گئیں۔ کھلونے بھی کیا تھے۔ سگریٹ کے خالی پیکٹ۔ پنیاں۔ تین چار چکنے پتھر اور ایک ٹانگ ٹوٹی باربی نما گڑیا جس کی ٹوٹی ٹانگ کی جگہ اقرا نے ناریل کی جھاڑو کی تین چار تیلیوں کو ٹانگ کے سائز کا کاٹ کر ٹھونس دیا تھا اور س پر سگریٹ کے خالی پیکٹ کی پنی لپیٹ دی تھی۔ دونوں بچیاں سگریٹ کے خالی پیکٹوں سے ایک گھر نما چار دیواری بنا کر اس میں گڑیا کو پنیوں سے بنے بستر پر لٹا دیتیں اور پھر اس کو لوری دینے لگتیں۔
‎شام ہو چلی تھی۔ شہزاد کے آنے کا وقت ہونے والا تھا۔ ثمینہ نے جلدی سے دال پر لہسن اور زیرے کا بگھار لگایا۔ جلدی جلدی روٹیاں ڈالیں۔ پھر بچیوں کو نہلا دھلا کر صاف کپڑے پہنائے۔ بچیوں کو بھوک لگی تھی. دونوں کو فرش پر بٹھا کر ایک پلیٹ میں دال اور ٹرے میں دو روٹیاں رکھ کر بچیوں کو دیا۔ ثوبیہ بھی اب روٹی کھانا سیکھ چکی تھی کہ ماموں کے گھر دودھ زرا کم کم ہی نصیب ہوتا تھا۔ اقرا ایک نوالہ خود کھاتی پھر ایک ننھے سے نوالے کو دال میں بھگو کر بہن کے منہ میں ڈال دیتی۔
‎شاید دال میں مرچیں زیادہ تھیں اس لئے ننھی ثوبیہ ہر نوالے کے بعد پاس رکھے اسٹیل کے گلاس سے پانی کا ایک گھونٹ پیتی۔ دونوں کو بہت دنوں بعد سکون سے بلا شرکت غیرے کھانا نصیب ہوا تھا۔

‎ اچانک ثمینہ کے موبائل فون کی گھنٹی بجی۔ ثمینہ نے فون اٹھایا۔ دوسری طرف شہزاد کا دوست مقصود تھا۔ اس نے روتے ہوئے بتایا کہ بھابھی فیکٹری میں آگ لگ گئی ہے۔ کچھ لوگ تو بچ کر نکل آئے ہیں لیکن اکثر اندر ہے گھٹ جل کر مر گئے ہیں۔ اس نے رندھی ہوئ آواز میں بتایا کہ ابھی فائر برگیڈ والوں نے شہزاد کی لاش نکالی ہے۔ ثمینہ اس سے آگے کچھ نہ سن سکی۔ اس کے منہ سے ایک گھٹی گھٹی چیخ نکلی اور فون ہاتھ سے گر پڑا۔ ماں کا حال دیکھ کر اقرا کھانا چھوڑ کر ماں کی طرف لپکی۔ ادھر ثوبیہ سب سے بے خبر کھانے میں مگن تھی. اس کی ننھی ننھی انگلیوں سے نوالہ تو نہ ٹوٹا لیکن روٹی کا ایک بڑا ٹکڑا دونوں ہاتھوں کی مدد سے توڑ کر دال کی پلیٹ میں ڈبو دیا۔ لقمہ اٹھا کر اس کا ایک ٹکڑا دانتوں سے کاٹا۔ پھر باقی لقمہ دوبارہ دال میں ڈال کر دونوں ہاتھوں سے گلاس اٹھا کر پانی کا گھونٹ لیا۔ ہاتھ چکنے ہونے کی وجہ سے گلاس پھسل کر دال کے پلیٹ میں جا گرا۔ دال میں پانی مل گیا اور روٹی اس پر تیرنے لگی- اب وہ مزے سے دال پانی میں ڈوبی روٹی کھا رہی تھی کہ شاید اب اسے مرچیں نہیں لگ رہی تھیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

‎ اچانک صحن میں کپڑوں کی الگنی سے لٹکے پنجرے سے بالکل شہزاد کے انداز سے ایک باریک آواز گونجی۔اور پھر بار بار ایک ہی بات گونجتی گئی۔
‎شہزاد کی شہزادیاں
‎دودھ جلیبی کھاتیاں
‎شہزاد کی شہزادیاں
‎دودھ جلیبی کھاتیاں

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست ایک تبصرہ برائے تحریر ”شہزاد کی شہزادیاں۔۔۔۔ثنا اللہ خان احسن

Leave a Reply