کامریڈ زویا: ہیرو آف دی سوویت یونین۔۔۔

کامریڈ زویا؛ ہیرو آف دی سوویت یونین۔۔۔
عمر فقط اٹھارہ برس
تاریخ وفات انتیس نومبر ،1941
ہم بھولے نہیں —

برصغیر پاک و ہند میں بےشمار والدین نے اپنی بچیوں کا نام “زویا” رکھا،لیکن شاید میری ستم ضریفی سمجھیۓ کہ جن سے بھی پوچھا کہ آپ نے اپنی اولاد کا نام زویا کیوں رکھا یا تمھارا نام زویا کیوں ھ — تو کسی ایک کو بھی زویا کے بارے م کچھ پتا نہیں تھا — اکثریت نے یہی کہا کہ بس یہ نام اچھا لگا —
بہت سے ہمارے دوست بھی کامریڈ زویا کے بارے م کچھ نہیں جانتے [معافی کے ساتھ]
لیکن بقول کامریڈ جولیس فیوچک ، یہ ہمارا فرض ہے کہ “۔۔۔ جن لوگوں نے اپنی جان تمہارے کل کے لیے قربان کی ہے انکو ایسے یاد رکھو جیسے وہ تمہارے ہی جسم کا حصہ ہیں۔۔۔”
تو آج کا دن کامریڈ زویا کے نام —


سال ہے 1923۔ جب بالشوک انقلاب کے بعد سویت یونین دنیا بھرکی سامراجی قوتوں کی حمایت یافتہ “سفید فوج” کو برباد کرکے اپنے پیروں پر کھرا ہونا شروع ہو رھا تھا — 8 ستمبر کو کامریڈ زویا کی پیدائش ہوئ — اسکول کی تعلیم کے دوران ہی انھوں نے 1938 م آل یونین لیننسٹ ینگ کمیونسٹ لیگ — یعنی “کومسومول” م شمولیت اختیار کی — کچھ ہی عرصہ بعد نازی افواج نے سوویت یونین پر پیش قدمی کی — اور سویت عوام جو کامریڈ اسٹالن کی قیادت و ہدایت پر لبیک کہتے ہوۓ انکے پانچ سالہ ترقیاتی منصوبوں کو کامیابی سے پائیہ تکمیل کو پہنچا رھی تھی اب اپنے ملک کے دفاع کی خاطر سرخ فوج کے ساتھ کھری ہوگئ — 1941 م کامریڈ زویا نے بھی اپنی خدمات ایک ایسی گوریلا فورس کیلیۓ پیش کیں جو نازی فوج کے اندر گھس کر بھرپور وارکیلیۓ بنائ گئ تھی — چند ہفتوں کی بنیادی تربیت کے بعد کامریڈ زویا نے بحیثیت ایک گوریلا فائٹر اپنے کام کا آغاز کردیا — ایسے ہی ایک مشن کے دوران جسمیں انکو نازی افواج کے مواصلات اور ٹھکانوں کو تباہ کرنا تھا ، وہ ایک مخبر کی غداری کی بدولت گرفتار ہو گئیں — بے پناہ تشدد کے بعد نازیوں نے انکو قتل کردیا — چند ایک چشم دید گواہوں کے بیانات کی روشنی م جو تفصیلات جمع ہوئیں انکا خلاصہ پیش خدمت ہے —-
نازی فاشسٹوں نے پہلے انکو سخت ترین روسی جاڑے م برہنہ کرکے انپر لاتوں اور گھونسوں کی بارش کی ، بیلٹ سے پیٹا گیا ، انکے ہاتھوں کے ناخن نکال لیۓ گۓ ، انکی ٹھوری کے نیچے لائٹر رکھ کر جلایا گیا ، آڑی سے انکی کمر کا گوشت کاٹا گیا —
تم کون ہو ؟
میں نہیں بتاوں گی !
کیا وہ تم ہی تھیں جنھوں نے ہمارے اصطبل م آگ لگائ ؟
ہاں !
تمہارا مقصد کیا تھا ؟
تم سب کو برباد کرنا !
ایک نازی نے جو کامریڈ زویا پر تشدد کے دوران موجود تھا اور بعد م سرخ فوج کا قیدی بنا اپنے بیان م کہا ، “تم لوگوں کی ننھی سی ہیروئین آخر وقت تک ثابت قدم رھی — وہ شاید غداری کا مفہوم بھی نہیں جانتی تھی — سخت سردی سے اسکا جسم نیلا پر چکا تھا — زخموں سے خون رس رھا تھا — مگر ہم اس سے کچھ نہیں اگلوا سکے” —


رات بھر تشدد کے دوران ہی انکو عقوبت خانے کے باہر لے جاکر ننگے جسم ، برہنہ پا — شدید جاڑے اور برف م گھمایا گیا ، گھسیٹا گیا — اگلی صبح ہماری کامریڈ کو سرعام جب گھونسوں اورلاتوں کی بارش م پھانسی کے پھندے کی طرف لے جایا جا رھا تھا تو کامریڈ زویا نے اپنے وہ تاریخی الفاظ کہے جو آنے والے وقت تک امر ہوچکے ہیں — ” کامریڈز تم اتنے افسردہ کیوں ہو — مجھے اپنی موت کا ڈر نہیں — مجھے خوشی ہے کہ م اپنے لوگوں کیلیۓ،اپنی ماں زمین کیلیۓ جان دے رہی ہوں — بہادر بنو — جرمنوں سے لڑو ،انکو قتل کرو — تم مجھے تو پھانسی دے سکتے ہو — لیکن م اکیلی نہیں ہوں — ہم بیس کڑور ہیں اور تم ہم سبکو پھانسی نہیں دے سکتے — میری موت کا انتقام ضرور لیا جاۓ گا — آخری فتح ہماری ہوگی — الوداع کامریڈز — ڈرو نہیں — اپنی جنگ جاری رکھو — اسٹالن ہمارے ساتھ ہیں–” — پھانسی کے بعد کئ ہفتوں تک نازیوں نے کامریڈ کی لاش کو برھنہ لٹکتا رھنے دیا اور لاش کی بے حرمتی کرتے گۓ — یہاں تک کہ انکی ایک چھاتی بھی کاٹی گئ — کامریڈ اسٹالن کو جب ان واقعات کی تفصیل ملی تو وہ برملا کہہ اٹھے — ” یہ ہے ہماری ہیروئن — ایسی ہوتی ہے سویت لڑکی — ” اور انھوں نے کامریڈ زویا کو “ہیرو آف سویت یونین ” کا اعزاز عطا کیا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

 

یہ تحریر حسن ناصر عباس کی فیس بک وال سے لی گئی ہے!

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply