مشن ،مشی گن۔۔۔۔عبید اللہ چوہدری

 امریکی ریاست مشی گن کا رقبہ پاکستان سے 15 % کم ہے اور آبادی تقریبا ً ایک کروڑ کو چھو رہی ہے۔ ریاست سے کانگریس کی 26 نشتیں ہیں۔ ریاست کےتقریبا 30ً  % رقبے پر جنگلات ہیں اور دنیا کی 5 میں سے 4 بڑی میٹھے پانی کی جھیلوں نے ریاست کو تین اطراف سے گھیر رکھا ہے۔ جھیلیں اتنی بڑی ہیں کہ اس میں 1200 فٹ لمبے اور 100 فٹ چوڑے مال بردار بحری جہاز چلتے ہیں۔ کئی جگہ پر گہرائی 500 سے 600 فٹ تک بھی ہے مگر اوسط گہرائی 250 فٹ ہے۔ دنیا کے کل میٹھے پانی کا 17% حصہ صرف انہی 5 قدرتی جھیلوں میں ہے۔ جھیلیں اتنی بڑی ہیں کہ کسی گلف کا گمان ہوتا ہے۔ ایک جھیل اور دوسری جھیل کی پانی کی سطح میں 20 سے 25 فٹ بلندی کا فرق ہے۔ ان جھیلوں کو Soo Locks سے جوڑا گیا ہے۔ یہ locks انسانی عقل کی معراج کی منہ بولتی تصویر ہیں۔

سال کے 8 مہینے شدید ٹھنڈ ہوتی ہے 4 ماہ گرمیوں کا موسم ہے۔ گرمیوں میں درجہ حرارت 30 سنٹی گریڈ اور سردیوں میں منفی 30 تک پہنچ جاتا ہے۔ پانی صاف اور شفاف ہے۔ لوگ گھر کی ٹونٹی کا پانی پیتے ہیں اور وہ بھی اتنا ہی صاف ہوتا ہے جتنا کہ بوتل کا پانی۔ ہر طرف گاڑیاں ہی گاڑیاں ہیں۔ سڑک پر پیدل چلنے والا شاید ہی کوئی ہو۔ اس ریاست کی سب سے بڑی صنعت گاڑیاں بنانا ہے۔ Detroit کو امریکہ کا موٹر سٹی بھی کہتے ہیں۔ کسی بھی شو روم پر ہر وقت 1000 – 1200 گاڑیاں کھڑی ہوتی ہیں۔ قیمت بھی بہت مناسب ہے۔ شہر میں پبلک ٹرانسپورٹ نہیں۔ شہریوں کا کہنا ہے کہ موٹر ساز کمپنیاں کوئی سسٹم بننے ہی نہیں دیتیں۔ کہیں کہیں آپ کو افریقی نسل کے غریب بھی نظر آتے ہیں۔ عربی خاصی تعداد میں ہیں مگر ان میں اکثریت عیسائیوں کی ہے۔ اس لئیے جہاں ہر عربی بولنے والے کو مسلمان سمجھنے کی غلطی نہیں کرنی چاہیے۔ انڈین ، بنگالیوں اور پاکستانیوں کی بھی آبادیاں ہیں۔ جنہوں نے اپنے چھوٹے چھوٹے “راج واڑے” بنا رکھے ہیں۔ لڑکیوں کی  خاندانی عزت کو برقرار رکھنے کی ہر ممکن کوشش کی جاتی ہے۔ خاص کر لڑکیوں کو دیسی لڑکوں سے دور رہنے کی تلقین کی جاتی ہے۔ آخر وہی تو عزت کا اشتہار لگاتے ہیں۔اس سب کا نتیجہ ایک ہی نکلتا ہے کہ ہائی سکول جاتے ہی دیسی لڑکیوں کی اکثریت غیر دیسی لڑکوں سے دوستی کر لیتی ہے۔ دیسی لڑکے بھی غیر دیسی لڑکیوں میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ اور پھر شروع ہوتی ہے کہانی گھر گھر کی۔۔۔۔۔

لوگ عموما ً ملنسار ہیں۔ بچوں، بوڑھوں اور حاملہ خواتین کا  بہت خیال رکھا جاتا ہے۔ میں نے بڑی کوشش کی کہ فحاشی نظر آ جائے مگر میں اس میں بری طرح ناکام رہا۔ ہر سٹور پر شراب کی بھر مار ہے۔ سستی شراب اور اس کی وافر دستیابی کے باوجود کوئی شراب پی کر غل غپاڑہ کرتے نہیں دیکھا۔ شاید میرے پاس ملا والی نظر ہی نہیں۔ امریکہ میں حیران کن حد تک ایک دوسرے کی ذاتی زندگی کی عزت کی جاتی ہے۔ پبلک لائف میں کوئی کسی سے مذہب، لباس، رنگ، جسم، ملازمت، انکم، ازدواجی زندگی اور عمر کے بارے میں نہیں پوچھتا اور ایسا کرنا انتہائی بدتمیزی خیال کیا جاتا ہے۔ تعلیم لازمی ہے۔ تعلیم پر بہت پیسہ خرچ کیا جاتا ہے۔ صرف ایک مثال لے لیں۔۔۔ گزشتہ سال پرائمری سکولز کیلئے اکیلی مشی گن لاٹری نے 100 ملین ڈالر کا عطیہ دیا تھا۔ خوشحال علاقوں کے سکولوں کا معیار کم خوشحال علاقوں سے زیادہ بہتر ہے۔ کچھ گورے نو آباد کاروں سے کافی جیلس نظر آتے ہیں۔ خاص کر ان آباد کاروں سے جو مالی طور پر خوشحال ہیں۔ کالج اور یونیورسٹی کی تعلیم بہت مہنگی ہے۔ ہر کوئی مقروض ہے۔ عام لوگوں کی 90 فیصد زندگی قسطوں پر چلتی ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

امریکہ کی سب سے شاندار بات لوگوں کا سچ بولنا ہے۔ کچھ عادی جھوٹے بھی ہوتے ہیں مگر 90 % سے زائد لوگ تقریباً  99% سچ ہی بولتے ہیں لوگوں کی ایک اچھی خاصی تعداد بہت موٹی ہے اور حیران کن بات یہ ہے کہ ان کے سائز کے کپڑے بھی مارکیٹ میں دستیاب ہیں۔ فاصلے بہت زیادہ ہیں۔ اشیا کے سائز بھی کافی بڑے ہیں۔ مثلاً  پیپسی کا ایک بڑا گلاس ہمارے 3 گلاس کے برابر ہوتا ہے۔ ائیرپورٹ، سڑکیں، شاپنگ مال، اور علاقہ سب ایکسٹرا لارج ہے۔ کم لوگ ایسے ہیں جن کے ذاتی گھر ہیں۔ زیادہ تر گھر 30 سالہ قسطوں پر ہیں۔ انسان کی زندگی ایک مشین ہے۔ روز صبح جلدی اٹھنا اور رات تک کام کرنا۔ چھوٹی سی غلطی اور ایک جھوٹ آپ کو آسمان سے زمین پر لے آتا ہے۔۔۔

Facebook Comments

عبیداللہ چوہدری
ابلاغیات میں ماسٹر کرنے کے بعد کئی اردو اخباروں میں بطور سب اڈیٹر اور روپوٹر کے طور پر کام کیا۔ گزشتہ18سال سے سوشل سیکٹر سے وابستگی ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply