زوال کے دہانے پر

تاریخ کے اوراق اگر پلٹیں اور آج تک گزرنے والی اقوام کا احوال پڑھیں تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ قوموں کو آج تک زوال آیا ہے یا عذاب الہی ٰنےآ گھیرا ہے تو اس کا سبب قوموں کی اخلاقی پستی ہی رہی ۔ وہ اخلاقی گراوٹ جنسی لحاظ سے ہو ، معاشرتی معاملات کے حوالے سے ہو ، یا معاشی و سیاسی انتظام و انصرام کی نسبت سے ہو۔ ہمارے سامنے قوم لوط ، قوم شعیب ، قوم ھود ، قوم نوحؑ کی واضح اور بہت بڑی مثالیں موجود ہیں ۔کیسے عذاب الہیٰ نے ان کو صفحہ ہستی سے مٹا دیا ۔ آج اگر دیکھا جائے تو یہ ساری اخلاقی گراوٹیں ہم میں باقاعدگی سےہر اک کے ساتھ نہ صرف موجود ہیں بلکہ دوست و احباب کی محافل میں انجوائمنٹ کی غرض سے بیان کر تے اور اتراتے ہوئے دوسروں کے سامنے پرچار بھی کر رہے ہوتے ہیں ۔

ہم یہ قطعا ًبھول گئے ہیں کہ چھوٹے گناہوں کو گناہ تسلیم نہ کرنا بھی گناہ کبیرہ میں آتا ہے ،اور صرف یہی نہیں اللہ عزوجل نے ہمیں یہ وعظ فرمائی ہے کہ اپنے گناہ ، غلطیاں اور نسیان دوسروں کے سامنے بیان نہ کرو ۔ کیونکہ اپنے گناہ ، غلطیاں اور نسیان دسروں کے سامنے بیان کرنا ان کو خود اپنے اوپر گواہ بنانا ہے اور اس پاداش میں کہیں عذاب الہیٰ نہ آ ن گھیرے۔ پر ہمیں یہ کوئی غورطلب بات لگتی ہی نہیں اور ہم بڑے آرام اور اطمینان سے اس قبیح فعل میں غرق ہوئے پڑے ہیں۔ کبھی ہم نے غور ہی نہیں کیا کہ آج ہم مسلمان ہونے کے باوجود اخلاقی پستی کا شکار کیوں ہیں؟ ہم مہذب دین کی پیروی کے باوجود بد تہذیب ، بد کردار اور بد اخلاق کیوں ہیں؟ اس کی بڑی وجہ تعلیم کا فقدان ہے۔ ہماری تعلیم اخلاقی تربیت کرنے میں ناکا م ہے ۔ ہم جتنے تعلیم یافتہ ہوتے جا رہے ہیں اتنے ہی بے لباس اور بے حیا ہوتے جا رہے ہیں۔ جیسے جیسے ہمارا تعلیمی گریڈ بڑھتا جا رہا ہے ویسے ویسے ہمارا ستر بھی عریاں ہوتا جا رہا ہے ۔

کبھی سوچا ہے کہ ایسا کیوں ہے ؟ ہم تہذیبی اور ثقافتی مضامین میں پی ایچ ڈی تو کرلیتے ہیں لیکن اس کے ساتھ ہم نے نامحرم کا ایک ساتھ گھومنا پھرنا ، گپیں ہانکنا ، چائے نوش فرمانا اور دعوت طعام اڑانے کو ناجائز و حرام کے حدود و قیود سے نکال کر آزاد خیالی اور پازیٹیوٹی میں داخل کرلیا ہوا ہے۔ جبکہ ہمارے اکابرین اور اولیاء کرام اسلام کا درس کس انداز میں فرمارہے ہیں ۔ ذرا غور تو کیجیے ،کہتے ہیں کہ شاید اک بار حضرت نعمان بن ثابت علیہ الرحمہ المعروف امام اعظم سے دریافت کیا گیا کہ حضرت کہ اک نامحرم استاد کا غیر محرم شاگرد کو اکیلے درس دینا کیسا ہے ؟ امام اعظم رحمتہ اللہ علیہ نے فرمایا کہ اگر استاد حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی المعروف پیران پیر علیہ الرحمہ ہو ، پڑھنے والی حضرت رابعہ بصری رحمتہ اللہ علیھا ہو اور درس قرآن مجید کا دیا جا رہا ہو تب بھی اکیلے میں درس دینا حرام ہے۔ کیا ہم شیخ عبدالقادر جیلانی علیہ الرحمہ اور حضرت رابعہ بصری علھیا الرحمہ کے پاؤں کی خاک کی برابری کر سکتے ہیں ۔

یقیناً نہیں ، تو پھر ہم کس جہت سے اس کو آزاد خیالی اور وسعت ذہن کا نام دے رہے ہیں۔ کیا ہم شیطان کی پیروی کرکے اپنے دین ، اللہ تعالیٰ اور اپنے محبوب نبیﷺ کے حکم اور فرمان کے ساتھ کھلواڑ نہیں کررہے؟ کیا ہمارا آج کا مروجہ نظام تعلیم ایسے اصحاب سیرت کا درس دے رہا ہے ؟ کیا ہمارا نظامِ تعلیم ہہم سے ویلنٹائن ڈے ، اور سنڈریلا کی کردار سازی نہیں کروا رہا ہے ؟ کبھی ہم نے اس جہت میں سوچا ہے ؟ ہمارا تعلیمی نظام نہ صرف اخلاقی تربیت کی پستی کا شکار ہے بلکہ سماجی اور معاشرتی گوشے میں بھی زوال کا شکار ہے۔ کیونکہ ہم نے اعلی ٰتعلیمی نظام کو گورے کے تیار کردہ تعلیمی نظام سے موازنہ کے بل پہ اس کے معیار مقر کر دیے ہیں ، اور ہم اس تقلید میں اس حد تک اندھے ہو چکے ہیں کہ ہمیں یہ ادراک ہی نہیں ہورہا کہ ہماری سمت کہاں ہونی چاہیے اور ہم جا کہاں رہے ہیں۔

ہمیں آج اک غیر مسلم ، گورے /کالے کی بات میں وزن محسوس تو ہوتا ہے ۔ ہم ان کی کوٹیشن پر محو حیرت تو رہ جاتے ہیں ، پر کبھی ان پر اپنے دلائل پیش نہیں کر تے ،اس کو من وعن تسلیم کرتے ہیں ۔کیونکہ ہمارے ذہنوں میں یہ پختہ کر دیا گیا ہے کہ اگر انگریز کسی کی تعریف و تحسین کرے تو وہ دنیا جہاں کا خوش نصیب اور واقعتا ًعقل مند اور دانا گردانا جاتا ہے ۔مگر تعجب اور دکھ کی بات ہے کہ جب دین کا معاملہ آتا ہے ۔ میرے آقا علیہ الصلوات والسلام کی سنت مبارکہ کی بات آتی ہے تو وہاں پہ ہماری زبانیں دراز ہو جاتی ہیں ۔ وہاں پر ہماری شیطانی دانست بحث و تمحیص شروع کر دیتی ہے ۔ کہ دین اسلام بہت آسان ہے یہ ویسے لوگوں نے مشکل کر دیا ہے ۔ تاویل یہ پیش کی جاتی ہے کہ ہم سر کو ڈھانپے ہوئے بغیر ، ہاف سلیوز میں اور بعض حضرات تو شارٹ میں بھی نماز کے لیے کھڑے ہوجاتے ہیں اور جب ان سے سر ڈھانپنے ، فل سلیوز اورمکمل کپڑے یا پینٹ شرٹ پہننے کو کہا جاتا ہے تو آگے سے جواب دیتے ہیں یہ سنت ہے اس سے کوئی فرق نہیں پڑھتا فرض ستر کا ڈھانپنا ہے۔

کیا ہم نے کبھی گورے کے متعارف کردہ اس فارمل اور نان فارمل ڈریس کے اسلوب پہ زبان درازی کی جراءت کی ہے؟ کیا ہم کبھی یونیورسٹی ، کمپنی پریزنٹیشن یا انٹرویو کے لیے شارٹ اور ہاف سلیوز کی سلیپنگ شرٹ پہن کر گئے ہیں ؟ نہیں، یقینا ًنہیں ،کیونکہ وہاں ہمیں انسانوں کے سامنے اپنے ظاہری حلیے کا خیال ہوتا ہے، مگر افسوس خالق کائنات کے سامنے جو اصلی پریزنٹیشن اور پاس کرنے والا ہے اپنے حلیے کا خیال ہی نہیں ہوتا ۔ یہ سب ہمیں کہاں سے سیکھنے کو ملتا ہے ہمارے تعلیمی اداروں سے ؟ یا مسجد و مدرسوں سے؟۔ اب تو ہمارے ہاں تعلیمی اداروں میں بھی یہ اصول اپنائے گئے ہیں کہ استاد تھری پیس سوٹ اور ڈیلی شیو یعنی سنت رسول کو کاٹ کر اور اچھی طرح سے کاٹ کر آنے کا پابند ہوگا ۔

کیا وجہ ہے کہ ہمارے ہاں استاد نے اپنا اصل مقام کھو دیا ہے جو آج سے اک صدی پہلے تک اساتذہ کرام کو ہمارے معاشرے میں حاصل تھا۔ ہمارا استاد ہر جہت سے چاہے اخلاقی ہو ، سماجی یا معاشرتی اپنے شاگرد کے لیے اک مکمل و اکمل رول ماڈل ہوتا تھا ۔ اتنا معتبر اور قابل عزت ہوتا تھا کہ شاگرد استاد کو دیکھ کر احتراما ًاس کے ساتھ چل پڑتا اور گھر تک چھوڑ آتا مگر ادب و احترام کا یہ حال ہوتا کہ وہ اپنا اک جوتا پہن لیتا اور دوسرا پہننا بھول جاتا لیکن استاد کے احترام میں زک آنے نہیں دیتا تھا ۔ کوئی اس کے استاد کے متعلق پوچھتا تو جواب میں فرماتا میں ہی اپنے استاد کی تصنیف ہوں ۔ جی ہاں یہ حضرت علامہ اقبال علیہ الرحمہ ہی تھے اور تب ہی تو میرحسن جیسے عظیم النفس شخصیت کی بنائی ہوئی کیاریوں میں سے اقبال جیسے انمول پھول کِھلا کرتے تھے۔ لیکن آج وہ استاد کا وہ مقام کہاں گیا ؟

کبھی ہم نے اس بابت غور کیا ہے ؟ آج ہمارا استاد عصری تعلیم میں ہو یا دینوی تعلیم وہ اپنے شاگردوں کے لیے علم کا مشعل نہیں بلکہ محبت کا مشعل بنتا ہے۔ خود اپنے ہی کسی شاگردہ یا شاگرد کے ساتھ عشق بازی لڑا رہا ہوتا ہے۔ میں ہزاروں عینی شاہدین دکھا سکتا ہوں اپنے سمیت کہ ہمارے تعلیمی ادارے عصری اور دینوی تعلیم میں بھی آج علمی نہیں عشق و معشوقی اور کہیں کہیں پہ تو جنس پرستی کا پرچار کر تے ہیں۔ ۔ ایسے میں معاشرے ترقی نہیں کرتے بلکہ ڈوب جایا کرتے ہیں۔ تو جب استاد کا یہ حال ہوگا ،وہ خود اخلاقی ، سماجی اور معاشرتی اسلوب سے لاچار و بیزار ہوگا تو وہ اپنے شاگردوں کوکیا دے گا۔ آج ہمارا استاد سب سے زیادہ ہوس ، حرص اور لالچ کا مارا ہوا ہے ۔ میرا استاد خود دوسروں کے حق مارنے ، نا انصافی اور حسد و تعصب سے ابر آلود ہے تو آنے والے ننھے ننھے معصوم بچوں کے سینوں پہ کیا اخلاق ، کردار سازی کے پھول اگائے گا۔

تبھی تو حضرت داتا گنج بخش المعروف داتا صاحب نے اپنی تصنیف کشف المحجوب میں فرمایا” برتن سے نکلے گا وہی جو اس میں ڈالا گیا ہو”۔جو کردار و اخلاق استاد کے پاس خود نہیں ہوتا وہ دوسروں کو کیا دےگا۔آج ہم بحیثیت قوم ، شخص ، طالب علم ، استاد ،خاندان ومعاشرہ اور دوست و احباب سب کے سب زوال کے دہانے پہ کھڑے ہیں۔ اگر ہم وقت پر نہ سنبھلے تو مجھے یہ کہنے میں کوئی عار نہیں کہ صرف بربادی ہی ہمارا مقدر ٹھہرے گی۔ اللہ پاک نے قرآن میں فرمایا ہے کہ”میرے لیے نئی قوم پیدا کرنا مشکل نہیں ، تمہاری جگہ میں نئی قوم پیدا فرما لوں گا ٹھیک اسی طرح جیسے تم سے پہلے قوموں کو تباہ کر کے تم کو پیدا فرمایا”(مفہوم)۔

Advertisements
julia rana solicitors

آؤ آج مل کر عہد کر لیں کہ آج کے بعد نافرمانی رب کائنات ، اور نافرمانی رسول پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ارتکاب سے اجتناب کریں گے ۔ اور ایک سچے مسلمان اور سچے محب وطن کا اعلیٰ نمونہ آنے والی نسلوں کے لیے چھوڑیں گے ۔ کیونکہ یاد رکھیں دین کی تبلیغ میرے حبیب پاک نے باتوں سے نہیں ڈیمونسٹریشن یعنی کردار مبارک سے کی ہے۔ تو ہمیں بھی ڈیمونسٹریشن سے کر کے دکھانا ہے۔اللہ ہم سب کو آسانیاں اور عمل کرنے کے توفیق عطا فرمائے اور آسانیاں تقسیم کرنے کا شرف عطا فرمائے۔ آمین

Facebook Comments

سلمان اسلم
طالب علم

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply