عقیدہ اور عقیدت کے خوارج

دوستوں میں اکثر سوچتا رہتا تھا کہ یہ برصغیر پاک و ہند میں خالص اسلام کب ناپید ہونا شروع ہوا اور یہ دیگر اسلامک برانڈڈ مسالک کب اور کیوں وجود میں آئے؟کیوں عقیدہ کی جگہ عقیدت کو داخل مذہب کرکے ابہام و تشکیک پیدا کیئے گئے؟میں نے موجودہ سبھی مسالک اور مذہبی جماعتوں میں وقت گزارا ہے,ہر کسی کے پاس اپنی سچائی بیان کرنے اور دوسرے کو جھوٹا ثابت کرنے کو کافی مواد اور اپنے مسلک کے اکابر کا تحقیقی مواد موجود ہوتا تھا۔میں نے اپنا پہلا قرآن پاک تین الگ مسالک تبلیغی دیوبندی, بریلوی اور دعوت اسلامی کے اساتذہ سے پڑھ کر مکمل کیا تھا۔ تب مجھے دیوبند اور بریلوی اساتذہ تک یہی پتہ تھا کہ ہم سبھی مسلمان ہیں لیکن پہلی دفعہ لفظ فرقہ اور مسلک سے واقفیت مجھے دعوت اسلامی والوں نے کروائی اور بتایا گیا کہ بعد میں آنے والے اکابرین کی تحقیق میں فرق نے مسالک اور فرقوں کی بنیاد رکھی اور یہ کہ 70 سے زائد فرقے ہونگے اور ایک ہی سچا اور جنتی ہوگا۔(واللہ علم)
چونکہ میرا بچپن نیول ڈالمیاں کالونی کراچی میں گزرا ہے تو فوجی تنظیم اور میرٹ کی وجہ سے وہاں بھانت بھانت کی نسل, صوبے, شہر, زبان اور مسلک کے لوگ ایک ہی جگہ دستیاب تھے۔ہمارے فلیٹ میں 16 گھر تھے اور وہاں تقریباً سبھی مسالک اور زبانوں والے مقیم تھے۔شیعہ, اہل حدیث, اہلسنت دیوبندی, اہل سنت بریلوی, دیوبندی تبلیغی اور دعوت اسلامی والے سبھی خاندان وہاں رہتے تھے۔یہ بات میں 1992ء سے 2002ء تک کی بیان کررہا ہوں۔ہم 16 گھروں کی سوچ اور مذہبی افکار بالکل جدا تھے لیکن ہمارا رابطہ بے مثال تھا۔اس فلیٹ کی طرح باقی 199 فلیٹس میں بھی یہی صورت حال تھی۔ہماری سوچ صرف پاکستانی اور فوجی مگر اسلام کی مشترک چیزوں کی عکاس ہوا کرتی تھی۔محرم سے لیکر ذوالحج تک ہر اسلامی ماہ میں منعقد ہونے والے اسلامک ایونٹس میں سبھی پیش پیش ہوتے تھے۔خواہ اس موقع اس تہوار کا تعلق کسی بھی مسلک سے کیوں نا ہو لیکن ہر گھر اس میں فراخدلی سے شامل ہوتا تھا۔تب ہر شخص دوسرے کے عقیدے او مسلک کا احترام کرتا تھا اور اس دس گیارہ سالہ دور رہائش میں میرا کسی بھی مسلکی یا سیاسی بحث سے سامنا نہیں ہوا۔نہ ہی کسی دو مسلک والوں کا میں نے کبھی کوئی فروعی جھگڑا دیکھا۔
مسلکی اور سیاسی بنیادوں پر بے چینی کی لہر 911 کے واقعات کے بعد آہستہ آہستہ پروان چڑھنی شروع ہوئی۔اس سے پہلے اگر عقائد یا عقیدتوں کا اختلاف تھا بھی تو وہ کہیں دلوں میں بہت گہرائی میں تھا ۔ پھر رہی سہی کسر آزاد میڈیا نے اختلافات کو ہوا دے پوری کردی ۔بریکنگ نیوز کی نحوست نے اس قوم کو کراچی کے شیعہ سے لیکر خیبر کے دیوبندی تک کے ظلم و زیادتی اور مظلومیت دونوں سے آگاہ کردیا اور پھر جو اپنے عقیدتی و مسلکی بہن بھائیوں کی مظلومیت کا بدلا لینے کا سلسلہ شروع ہوا وہ تھمنے کا نام ہی نہیں لے رہا۔بات اس سے بڑھ کر امت کا درد غلط انداز میں پیش کرنے اور سمجھنے تک چلی گئی۔پھر خود ساختہ جہاد نے دلوں اور ذہنوں کو جکڑ کر ایسا قید کیا کہ اسلام جو بہت تھوڑی مقدار میں مسلکی لبادے میں لپٹا ہوا دلوں میں موجود تھاوہ بھی جاتا رہا۔پھر تاریخ کی کتابوں میں درج اصلاحات خوارج اور خارجیت سے ملک کا ہر بوڑھا جوان اور بچہ واقف ہوئے۔صرف واقف ہی نہیں ہوئے بلکہ ان اصلاحات کے عامل اور ان سے متعارف کرانے والوں کے بے جا غیض وغضب کا شکار بھی ہوئے۔پھر قوم دوراہے پر آکر پھنس گئی کہ کون مردار ہے اور کون شہید؟کون مسلمان ہے اور کون کافر؟
صاحبو! بات غور طلب ہے کہ جب دہشت گردی اور خوارجیت کی اس جنگ کو لڑنے کا نعرہ لگا تو بات مسلمان اور خارجی کی ہوئی۔کسی فورم پر صاحب علم اور صاحب ایمان لوگوں نے مسلک یا عقیدہ و عقیدت کے خارجیوں کا تذکرہ نہیں کیا۔خوارج وہی کہلائے جنہوں نے برائے نام اسلام والے مسالک یا خالص اسلام دونوں سےروگردانی کی۔مجھے آج تک سمجھ نہیں آئی کہ عقیدے پر اور عقیدتوں پر لڑنے مرنے والے آج کے اکابرِ مسالک و جماعت اور گزشتہ اکابرین جنہوں نے ان فروعی جھگڑوں کی بنیادرکھی اس طرح اسلام کی کونسی خدمت کی اور کر رہے ہیں اور کس خدمت کی دعوت عام کررہے ہیں؟ کیا انہی فروعی و اجتہادی جھگڑوں نے اسلام کو پس پشت نہیں ڈال دیا؟کیا جانے انجانے الحاد کی بنیاد بھی ان عقیدہ و عقیدت کے فرق کو پیدا کرنے والوں نے تو نہیں رکھی؟کیا قرآن و حدیث اور فقہ کو غلط انداز میں سمجھ کر تکفیر اور تشکیک کا سہارا لیکر قتل و غارت گری کرنے والے ہی خوارج ہیں؟کیا مذہب بلخصوص اسلام بلکہ اسلامک برانڈڈ مسالک کو چھوڑ کر الحاد کی راہ لینے والے ہی ملحد ہیں؟مشرق وسطی میں کتنے مسلک اور جماعتیں ہیں با نسبت بر صغیر پاک وہند کے؟ماسوائے شیعہ سنی اور سلفی کے؟کتنے الحادی و دہریے ہیں عرب ملکوں میں؟دونوں طرح کے سوالات کا جواب صرف ایک ہی ہے۔اور وہ ہے اسلام۔
یا یوں کہہ لیں اسلام کی اصل شکل اور اصل حالت۔۔یعنی دونوں خطوں میں مسئلہ اور حل یکساں ہی ہے؟اگر مشرق وسطی یا عرب میں فروعی جھگڑے کم یا ناہونے کے برابر ہیں تو اس کا کریڈٹ بھی اسلام کا وہاں اصل حالت میں حدوداﷲ کےساتھ نافذ العمل ہونا ہے اور اگر برصغیر پاک و ہند میں مذہب ایک مسئلہ بن کر رہ گیا ہے تو اسکی وجہ بھی اصل اسلام کا یہاں حدودا ﷲ کے ساتھ نافذالعمل نا ہونا ہی ہے۔میں نا کسی مسلک کو صحیح کہہ رہا ہوں نا غلط بلکہ میری مجموعی اور عمومی رائے یہی ہے کہ اگر فرقہ واریت کو ختم کرنا ناممکن یا مشکل ہے اور ایک عقیدہ توحید یا اسلام پر اجماع نہیں کرنا تو کم از کم ایک دوسرے کی عقیدتوں کا ہی احترام کرنا شروع کردیں اور مل کر ایک قوم ایک پر امن معاشرے کی بنیاد تو رکھی جا سکتی ہے کہ وہ بھی عبث ہے؟ہم کیوں بریکنگ نیوز کلچر اور عدم برداشت کے اجتماعی کلچر کو پروموٹ کررہے ہیں؟کیوں غیروں کو سازشی توے پر روٹیاں سینکنے کا موقع فراہم کرہے ہیں؟کیوں کلبھوشنوں کو دعوت عام دے رہے ہیں ان نفرتوں کی آبیاری کرکے کہ آؤ اور ہم میں سے مشعال نکال کر الگ کرلو, احسان اﷲ احسان کی پشت پناہی کرلو, مولوی اور ملحد کا تماشہ لگالو, سلمان حیدر و وقاص گورایہ کو سنبھال لو, ایازنظامی کی خدمات لے لو اور تباہی مچاتے پھرو۔ہزاروں خداؤں کو ماننےوالے ہمارے مقابلے پر ایک مٹھی کی مانند ہیں اور ہم ایک ا ﷲ کو ماننے والے عقیدہ اور عقیدت کے خوارج بنے ہوئے ہیں۔آخر کب تک اور کیوں؟ہمارا یہ من حیث القوم خوارجیت سے کب پیچھا چھوٹے گا؟آخر کب ہم اپنی اصل شناخت مسلمان اور پاکستانی کو حاصل اور قبول کریں گے؟آخر کب ہم یہ عقیدہ اور عقیدت کا فرق سمجھیں گے؟آخر کب ہم اسلام اور پاکستانیت میں پورے پورے داخل ہوں گے؟آخر کب؟اس سوال کا جواب ضرور تلاش کریں قبل اس کے کہ آپ عقیدہ اور عقیدت کے خوارج بن کر دنیا چھوڑ جائیں۔

Facebook Comments

بلال شوکت آزاد
بلال شوکت آزاد نام ہے۔ آزاد تخلص اور آزادیات قلمی عنوان ہے۔ شاعری, نثر, مزاحیات, تحقیق, کالم نگاری اور بلاگنگ کی اصناف پر عبور حاصل ہے ۔ ایک فوجی, تعلیمی اور سلجھے ہوئے خاندان سے تعلق ہے۔ مطالعہ کتب اور دوست بنانے کا شوق ہے۔ سیاحت سے بہت شغف ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply