لاپتہ

میں نے اڑھائی فٹ اونچی مٹی کی کچی چار دیواری میں جھاڑیوں کی ڈنڈیوں سے بنے دروازے پر کھڑے ہو کر آواز لگائی۔۔ تو وہ کچے احاطے میں بنی گھاس پھونس کی ایک کٹیا سے تقریباً بھاگتا ہوا آیا اور میرے سامنے ہاتھ جوڑ کر بولا،
سلام صیب سلام۔۔آپ نے کیوں جوکھ اٹھایا، مجھے بلا چھوڑا ہوتا، میں حاضر ہو جاتا۔۔ اس کی نظریں میری سبز جیکٹ پر تھیں۔وہ شاید مجھے پولیس یا فوج کا کوئی نمائندہ سمجھ رہا تھا۔ نہیں بابا آپ غلط مت سمجھو، ہم حکومت کی طرف سے بندے گنتی کر رہے ہیں۔ گوٹھ کے سب گھروں پر جا کر، یہ ہماری ڈیوٹی ہے، بس میں تم سے جو کچھ پوچھتا جاؤں اس کا جواب دیتے جانا۔
اور یہ لوگ صیب۔۔۔ اس نے کچھ فاصلے پر کھڑی فوجی جیپ کی طرف کن اکھیوں سے دیکھتے ہوۓ سوال کیا۔
یہ میرے ساتھ آۓ ہیں حفاظت کیلئے، میں نے اسے بتایا، تم تو کوئی بہت بھلے آدمی ہو جو تمہیں حفاظت بھی ملتی ہے،اس نے سادگی سے اپنے خیال کا اظہار کیا، نہیں بزرگو میں تو بس ایک سکول ٹیچر ہوں،
اچھا صیب۔۔ جو بھی ہو پر تم اندر آؤ بیٹھ کر پوچھ لو اور قہوہ بھی پی لو، میرے انکار کرتے کرتے بھی وہ اچھلتی چال میں اپنی کٹیا کے پاس گیا اور اندر سے ایک کھاٹ کھینچ کر باہر لے آیا۔۔ سنتی ہو صیبء لوگ آۓ ہیں مہمان، جلدی سے قہوہ بنا دو،
اس نے اپنے اجڑے ہوۓ سفید بالوں پر سے پگڑ اتارا اور کھاٹ کو جھاڑتے ہوۓ اندر آواز دی، میں اس کے اصرار پر احاطے کے اندر گیا اور کھاٹ پر بیٹھ کر کام شروع کر دیا،
اچھا بابا تمہارا نام کیا ہے؟ عزیز ابڑو۔
عمر؟ اٹھونجا سال ہو گئی صیب۔
تم گھر کے سربراہ ہو؟ جی صیب۔
اپنا شناختی کارڈ دو۔۔صیب وہ تو وڈیرے سائیں کے پاس ہے۔ اس کے پاس کیوں؟
بس صیبء وہ تو اس کے پاس ہی رہتا ہے،ہم کو تو صرف ووٹ والے دن بلا کر دیتا ہے اور شام کو واپس لے لیتا ہے، میں نے اس بارے میں مزید کچھ نہیں پوچھا اور سوچا کہ وڈیرے کی حویلی جا کر باقی معلومات درج کر لوں گا، اچھا یہ بتاؤ گھر میں کتنے لوگ رہتے ہیں؟ اب ہم تین ہیں صیب۔۔ میں، گھر والی اور میرا بچہ،
گھر والی کا کیا نام ہے،؟ جی بھاگ بھری۔
اس کی عمر کیا ہے؟
مجھ سے چھ سال چھوٹی تھی صیب نکاح کے وقت، اس نے سادگی سے جواب دیا۔
اتنے میں کٹیا کے اندر سے دس گیارہ سال کا ایک بچہ قہوہ کی کیتلی اور چھوٹی چھوٹی پیالیاں لے کر باہر آیا، بزرگ نے ایک پیالی میں قہوہ ڈال کر مجھے دیا اور باقی لے جا کر باہر کھڑے فوجیوں کو بھر بھر کر دے دیں، یہ تمہارا ایک ہی بیٹا ہے، وہ واپس آیا تو میں نے اس سے پوچھا۔۔ نہیں صیب، تین بڑے بیٹے اور ایک بیٹی بھی ہے،
اچھا ۔۔۔ چلو ان کے نام لکھواؤ،
سب سے بڑے کا نام۔۔ جی عزو ابڑو۔
عمر کیا ہو گی اس کی؟ میں نے فارم پر نام لکھا اور پوچھا۔۔جی اٹھائیس سال،
رہتا کہاں ہے؟۔۔ پتہ نہیں صیب۔۔۔ گم ہو گیا تھا، اس نے اداسی سے فوجیوں کی طرف دیکھتے ہوۓ جواب دیا، میں نے اس بارے کچھ پوچھنا مناسب نہ سمجھا اور فارم سے نام کاٹ کر اگلے کا نام پوچھا،
عمر ابڑو صیب۔۔ پچیس سال کا ہو گا۔اور وہ کہاں رہتا ہے؟ بزرگ نے بڑے بیٹے والا جواب دہرا دیا، میں نے اس کا نام بھی کاٹ دیا اور پوچھا اور اس سے چھوٹا؟ عمر سے چھوٹی بیٹی ہے صیب۔۔ اب بائیس کی ہو گئی ہو گی، اور وہ کہاں ہے؟
وہ تو جی جب14سال کی ہوئی تھی، تب سے وڈیرے کی کام والیوں میں بھرتی ہو گئی تھی،
تو وہ گھر نہیں آتی کیا؟میں نے تعجب سے پوچھا۔۔ نہیں صیب یہاں کی سب لڑکیاں جوان ہوتے ہی وڈیرے کی حویلی بھرتی ہو جاتی ہیں اور جب وڈیرا کوئی مناسب بر دیکھتا ہے تو خود ہی ان کی شادی کر دیتا ہے، میرے لیے جواب حیران کن تھا مگر میں نے خاموشی سے اس کا نام کاٹنے کو ہی مناسب سمجھا۔۔ اور تیسرا بیٹا؟
اس کا نام عالم ابڑو ۔۔۔۔میں نے فارم پر لکھا، اور عمر؟
اٹھارہ سال،
یہ کہاں ہے؟
یہ اپنے بھائیوں کو ڈھونڈنے پہاڑوں پر گیا تھا،پھر یہ بھی گم ہو گیا، میں نے اس کا نام بھی فارم سے کاٹ دیا۔
اور اس کا نام۔۔۔میں نے کٹیا کی دہلیز پر ٹنگے پردے کی اوٹ میں چھپ کر اپنی جانب دیکھتے بچے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے پوچھا،یہ امیر ابڑو ہے صیب،اس رمضان میں گیارہ سال کا ہو جائے گا، میں نے اس کا نام فارم میں درج کیا اور اس کی دی ہوئی پیالی میں سے قہوہ کا گھونٹ بھر کر پوچھا، بابا۔۔تم نے کبھی اپنے لاپتہ بیٹوں کو ڈھونڈا نہیں؟
صیب، تم پڑھے لکھے ہو، تمہارے پاس ڈھونڈنے کا کوئی چارہ ہے تو بتاؤ۔۔۔ ہم تو جہاں بھی گئے یہی جواب ملا کہ تمہارے بیٹے لاپتہ ہیں، ہم کو تو پتہ نہیں کہ یہ لاپتہ کا پتہ کہاں سے چلے گا۔۔۔میرے پاس اس کا بھی جواب نہیں تھا۔
میں اٹھ کر چلنے لگا تو وہ ہاتھ جوڑ کر کھڑا ہو گیا اور کہنے لگا۔۔۔ ایک مہربانی کرو صیب، میرے امیر ابڑو کا نام بھی اپنے کاغذ سے کاٹ دو۔۔۔
وہ کیوں بابا؟؟؟ میں نے حیرت سے پوچھا۔
صیب ہمارے گوٹھ میں جب بھی کوئی سرکاری گاڑی آتی ہے، ہمارے بچے گم ہو جاتے ہیں، تم جب کبھی دوبارہ آؤ گے تو امیر ابڑو گم ہو گیا ہوگا، تو یہی اچھا ہے صیب جو بعد میں لکھ کر کاٹنا ہے اسے ابھی کاٹ دو۔۔۔۔
اس نے اپنی بھنچی ہوئی آنکھوں سے میرے محافظوں کی جیپ کی طرف دیکھتے ہوۓ کہا جو اس کے دئیے ہوۓ قہوہ کی پیالیاں خالی کر رہے تھے۔

Facebook Comments

اسحاق جنجوعہ
کوئ خاص نہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply