• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • توہین آمیز خاکوں کا مقابلہ اور ہماری اخلاقی و دینی ذمے داری ۔۔۔۔ فارینہ الماس

توہین آمیز خاکوں کا مقابلہ اور ہماری اخلاقی و دینی ذمے داری ۔۔۔۔ فارینہ الماس

معاشروں میں انسانوں کے کردار و عمل اور افکار کا تضاد ہونا کوئی انہونی بات نہیں۔ ہر انسان کے حالات اس کی دلچسپیاں و ترجیہات اور زندگی بسر کرنے کے انداز، اس جیسے ہزاروں لاکھوں انسانوں سے مختلف ہو سکتے ہیں ۔لیکن متمدن انسانی معاشرے متنوع افکار و کردار کے حامل لوگوں کو پنپنے کے یکساں مواقع فراہم کرتے ہیں۔ اس بات کا خیال رکھتے ہوئے کہ کسی بھی فرد کا عمل کسی قسم کے فساد یا انتشار کو ابھارنے کا باعث نہ بنے یا ایک فرد کا حق آزادیءرائے و آزادیءافکار کسی دوسرے فرد کے ایسے ہی حق کو مجروح نہ ہونے دے۔ اس لئے اس کی آزادی کے گرد کچھ اقداری و روایتی لکیریں کھینچی جانی ضروری ہو جاتی ہیں۔تاکہ باہمی تصادم کے ممکنہ خطرات کو روکا جاسکے۔ مثلاً اگر کسی کو آزادیءاظہار رائے حاصل ہے تو اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ وہ دوسرے فرد کے عقائدو افکار کا تمسخر اڑائے،مذہب سے وابستہ اس کے حساسیت بھرے جذبات کو آزمائے اور اگر وہ ردعمل کا اظہار کرے تو اسے جنونی، فسادی اور وحشی کے القابات دے کر دنیا کو اسے قابل نفرت سمجھنے پر اکسائے۔

دنیا کے ہر مذہب کو ماننے والا جو خواہ مذہبی عقائد پر کاربند ہے یا نہیں وہ کم سے کم اپنے عقائد اور عقائد سے وابستہ مذہبی ہستیوں پر حملہ کسی طور برداشت نہیں کرتا۔
عیسائیت پر کاربند عیسائی بھلا 1989میں شمالی کیرولینا میں منعقدہ ایک نمائش میں ایک آرٹسٹ آندرے سیرانو کی حضرت عیسؑیٰ کی ، یا 1996میں کرس اوفیلی کی بنائی گئی حضرت مریم کی قابل اعتراض پینٹنگز کو کیسے بھلا سکتے ہیں جس کے بعد عیسائیوں نے اسے مذہبی توہین قرار دیتے ہوئے شدید احتجاج کیا ۔وہ آرٹسٹوں کی طرف سے ان تصاویر میں دکھائے گئے قابل اعتراض پہلوﺅں کی بابت ان کی بیان کردہ توجیہات یا تخلیقی و علامتی پہلوؤں کی تشریحات کو ماننے سے یکسر منکر ہوئے ۔ عوامی ردعمل سے یہ بات واضح ہو گئی کہ عقیدے کو منطق کے خودساختہ دانشورانہ پہلوؤں سے پرکھنے کا حق کسی فنکار یا تخلیق کار کو نہیں۔ گو کہ آرٹ اور فنون لطیفہ سے وابستہ افراد اپنے فن کے اظہار کے لئے انسانی ثقافت و انسانی تمدن کو موضوعات بناتے ہیں۔انسان کے حالات اور اس کے ماضی و حال کے عکاس بنتے ہیں۔ انسانی تہذیب کو انتہائی خوبصورت انداز سے دکھاتے ہوئے اپنے ذہن و افکار کی حساسیت کا اظہار کرتے ہیں انہیں انسانی معاشروں کی بربادی کی تاریخ اور تاریخیٰ عوامل سے بھی غرض ہوتی ہے۔ لیکن انہیں کسی طور بھی کسی معاشرے کے تمدنی و تہذیبی یا مذہبی افکار کا تمسخر اڑانے یا ا نکے جذبات سے کھیل کر اپنے فن کے  ذریعے انتشار و فساد پھیلانے کا اختیار نہیں۔

آرٹ یا فن کے ذریعے اگر سب سے زیادہ ،کسی بھی مذہب اور مذہب کے ماننے والوں کو ”تمسخر“ کا نشانہ بنایا گیا ہے تو وہ ہے مذہب اسلام ۔ آخر اسلام ہی کیوں ؟ ہندومت ، یہودیت یا پھر بدھ مت و عیسائیت کیوں نہیں۔ جب کہ مسلمان تو وہ قوم ہیں جو کہ دنیا میں اللٰہ کے بھیجے گئے ہر پیغمبرؑ اور نبیؑ کو قابل تعظیم اور مقدس مانتے ہیں۔
اس کے دو بڑے عوامل ہیں۔ اول، یہ کہ دنیا خصوصاً مغربی دنیا اسلام کو انتہا پسندی اور بنیاد پرستی کا مذہب مانتی ہے۔ یہ مسلمانوں کو دہشت گرد اور انتہا پسند قرار دیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان کا تمسخر بھی اسی نظرئیے کے تحت اڑایا جاتا ہے۔ جس کا ثبوت 2005 میں ڈینش نیوز پیپر میں چھاپے گئے گستاخانہ خاکوں سے ملتا ہے۔ جو چارلی ہیبڈو اور بعد ازاں یورپ کے سات بڑے اخبارات میں چھاپ کر یورپ نے اسلام اور مسلمانوں سے نفرت میں اپنی یک جہتی کا اظہار کیا۔ نفرت کا اظہار کچھ اس طور بھی کیا گیا کہ جب اس سلسلے میں گیارہ بڑے مسلم ممالک کے وفد نے ڈنمارک کے وزیراعظم سے ملنا چاہا تو اس نے ملنے سے صاف انکار کر دیا۔

ایسے واقعات کے عوامل میں شامل ایک اور اہم پہلو دنیا کا وہ سیاسی منظر نامہ بھی تھا جو 2005میں یورپ اور امریکہ کے افغانستان اور عراق پر ہاتھ ڈالنے کے ساتھ ہی ابھر کر سامنے آیا ۔انہی حالات کے پیش نظر انہیں اپنی عوام کو مسلمانوں کی ایک کرخت اور ظالمانہ تصویر دکھانا مقصود تھا کیونکہ جو بجٹ وہ مسلمانوں کو ملیامیٹ کرنے پر صرف کر رہے تھے وہ اپنی عوام کو اس کے حساب کے لئے جوابدہ بھی تھے سو مسلمانوں کو دہشت گرد ثابت کرنے کے لئے جہاں ایک پوارا تھنک ٹینک کام کر رہا تھا وہیں اسی تھنک ٹینک کے سربراہان کی ان اخبارات کے ایڈیٹرز سے ملاقات اور 42 کارٹونسٹوں کو ایسے مقابلوں پر آمادہ کرنا اسی سلسلے کی کڑیاں تھیں۔ اسی طرح مسلمانوں کے جذبات کو بھڑکایا اور تڑپایا جا سکتا تھا تاکہ ان کے پر تشددردعمل کو راستہ دیا جا سکے اور مغربی دنیا کو ان کے عدم برداشت اور دہشت گردی کی کارروائیوں سے، اپنے موئقف اور کاروائیوں کے لئے قائل کیا جاسکے۔

2008 میں ہالینڈ کے کارٹونسٹ گریگوری نیکشٹ نے پھر سے ایسے خاکے چھاپ کر دبی ہوئی آگ کو پھر سے ہوا دی۔ اور محض اسی پر اکتفا نہیں کیا بلکہ اسلام کے نام سے ایک متنازعہ فلم بھی بنائی جس میں ایک برہنہ خاتون کے جسم پر قرآنی آیات لکھی ہوئی دکھائی گئیں۔
2015میں ٹیکساس میں کارٹون بنانے کا ایسا ہی ایک مقابلہ منعقد کروایا گیا جسے جیتنے والاامریکی کارٹونسٹ bosch fawstin تھا۔جس نے بدقسمتی سے البانیہ کے ایک مسلم گھرانے میں آنکھ کھولی اور جو اپنی اوائل العمری میں ہی ملحد ہو چکاتھا۔وہ شخص دراصل مسلم دشمنی کے ایسے ہی جذبات دکھاتا رہا ہے جن کا مقصد مسلمانوں اور اسلام کو پوری دنیا کے لئے ایک خطرہ قرار دینا اور جس حد تک ہو سکے انہیں قابل نفرت ٹھہرانا ہے۔ وہ اسی سال ایسی نفرت کا اظہار نبی کریمﷺ کے گستاخانہ خاکوں کی کتاب شائع کر وا کر بھی کر چکا ہے۔ اور اب وہ بننے جا رہا ہے ایک ایسے ہی مقابلے کا جج جس کا انعقاد اسی سال کے اختتام پر ہالینڈ کا ایک پارلیمنٹیرین گیرٹ ویلڈرز کر وا رہا ہے۔

گیرٹ کا تعلق ہالینڈ سے ہے اور وہ ہالینڈ کی ایک سیاسی پارٹی ”ڈچ پیپلزپارٹی فار فریڈم “ کا سربراہ ہے۔ اس کی سیاست کا مرکز روز اول سے ہی مسلم دشمنی رہی۔ اس نے 2015 میں ٹیکساس میں ہونے والے مقابلے میں شرکت بھی کی اور مسلم دشمنی پر مبنی ایک طویل تقریر بھی۔اس نے نیدر لینڈ میں اسلامائزیشن کے خلاف ایک باقائدہ مہم بھی چلائی۔ اس نے نئی مساجد کے قیام کے ساتھ ساتھ پرانی مساجد کو کھولنے کے خلاف بھی مہم چلائی۔ وہ قرآن پر پابندی لگانے کی وکالت اور مسلمانوں کے علاقوں سے ان کی یورپ ہجرت کی مخالفت بھی کرتا ہے۔ اس کا اسرائیل آنا جانا رہتا ہے اس نے 2008 میں اسرائیل میں منعقدہ ایک کانفرنس میں بھی شرکت کی جو مسلمانوں کے تصور جہاد کی مخالفت میں منعقد کی گئی۔ اس نے اس کانفرنس میں کھل کر جہاد کے خطرات پر بات کی۔ 2008میں اس نے مسلم دشمنی نبھانے کو ایک متنازعہ فلم ”فتنہ“بھی بنائی۔ جسے عالمی توجہ حاصل رہی۔ گویا نسلی امتیاز اور مسلم دشمنی اس کے خون میں رچے بسے ہیں۔ وہ اسلام کو سرے سے ایک مذہب ہی ماننے سے انکاری ہے وہ اسے محض ایک جابرانہ سیاسی آئیڈیالوجی کا نام دیتا ہے۔اسی سال کے اختتام پر وہ ایسا ہی ایک متنازعہ مقابلہ کروانا چاہتا ہے وہ اس مقابلے کا جواز یہ پیش کرتا ہے کہ وہ دنیا میں آزادیءاظہار رائے کو اہم بنانا چاہتا ہے۔ اگر دنیا سے کہنے اور بولنے کی آزادی سلب ہو گئی تو انسانی تہذیب کو خطرات لاحق ہو جائیں گے۔اس کے خیال میں اس وقت دنیا میں اظہار رائے کی آزادی کو سب سے ذیادہ مسلمانوں اور اسلام سے ہی خطرات لاحق ہیں۔

اب سوال یہ اٹھتا ہے کہ کیا دنیا کو آزادیءرائے کی اہمیت کا ادراک محض ایسے مقابلوں کے ذریعے مسلمانوں کی تضحیک و تذلیل سے ہی کروایا جاسکتا ہے۔؟

دوسرا سوال یہ کہ ایک مذہب اور اس کے نبیﷺ کی شان میں گستاخی کر کے وہ دنیا کو کس تہذیب و تمدن کا سبق سکھانا چاہتے ہیں۔؟

یہ جو آزادیءرائے کی بات کرتے ہیں کیا ان کی نظر میں احترام آدمیت کی کوئی اہمیت نہیں، دنیا کے ایک بڑے مذہب کے پیروکار وں کی عزت نفس کے ان کی نظر میں کوئی معنی نہیں۔ اورکیا اس طریقے سے دنیا کو امن اور شانتی کا سبق سکھایا جا سکتا ہے۔؟
یہ اقدام دراصل کسی اعلیٰ اخلاقی معیار کی نہیں بلکہ مغرب کے دوہرے معیار کی مثال پیش کرتا ہے۔ جو یوں تو تہذیب و تمدن کی بات کرتا ہے ۔جس کے پاس ہر بات کے لئے ضابطہءاخلاق موجود ہے ۔ جو اپنی قومی شخصیات کی کردارکشی برداشت نہیں کرتا۔ جس سے ہولوکاسٹ کی بے حرمتی برداشت نہیں ہو تی۔ برطانیہ جہاں ملکہ برطانیہ یا تاج کے خلاف بات نہیں کی جاسکتی۔ جہاں اداروں کے خلاف بولنا جرم ہے۔ جہاں اپنے سپاہیوں اور اپنے فوجیوں ،اپنے ججوں تک کی تضحیک برداشت نہیں کی جا سکتی۔2012 میں برطانیہ میں ایک مسلمان اظہر احمد کو صرف اس لئے سزا دی گئی کہ اس نے افغانستان میں مارے جانے والے برٹش فوجیوں کے بارے لکھا کہ ”تمام فوجیوں کو جہنم واصل ہو نا چاہئے“۔ان معاملات میں تو آزادیءرائے کی حدود قائم ہو جاتی ہیں تو پھر یہ کونسا اظہار ہے جو پیغمبر اسلام کی توہین میں جائز ہو جاتا ہے۔ حالانکہ احترام مذاہب کے حوالے سے یورپی کنونشن موجود ہیں۔ جس پر خود مغرب کے دستخط موجود ہیں۔ مغربی ممالک کے قوانین میں کسی بھی مذہب کے خلاف توہین آمیز تحریر یا مواد کی اشاعت پر قید یا جرمانہ کی سزا بھی رکھی گئی ہے۔

ایسی اقدار کی پاسداری کرنے والے ممالک پیغمبر اسلام کی توہین پر خاموش رہتے ہیں کیوں ؟ کیونکہ وہ عالم اسلام کے لئے اپنے دلوں میں تعصب اور نفرت رکھتے ہیں ۔ یہ نفرت ان کے مسلمانوں اور اسلام سے خوف کی ترجمانی بھی کرتی ہے۔
ایسے مقابلوں کا مقصد مسلمانوں کو نفسیاتی اور جذباتی طور پر شدید قسم کے احساس کمتری میں مبتلا کرنا بھی ہے ۔ لیکن یہ بات طے ہے کہ اس طرح کے حملوں کے بعد اگر مغرب مسلمانوں سے ردعمل کی توقع نہیں کرتا تو یہ اس کی خام خیالی ہے کیونکہ یہ تو فطری اصول ہے کہ جسے دبانے کی کوشش کی جاتی ہے وہ اتناہی ابھرتا ہے۔ اور جب آپ دبانے کے ایسے گھٹیا طریقے اپنائیں گے جو محض نفرت اور عداوت و ظلم کے سوا کچھ بھی نہیں تو پھر آپ کا دنیا میں امن کی توقع کرنا ایک دیوانے کے خواب کے سوا کچھ نہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

عالم اسلام کی طرف سے کسی قسم کے ردعمل کے اظہار کے باوجود اگر مغرب اس اقدام سے باز نہیں رہتا تو پھر ہمیں سوچنا چاہئے کہ مسلم دنیا کی اوقات مغربی دنیا کی نظر میں کچھ بھی نہیں ۔ ہمیں چاہئے کہ ہم مغرب کے اس نفسیاتی حملے کے جواب میں فکری اور جذباتی طور پر متحد ہونے کے اقدامات کریں۔ عالمی سطح پر مغرب کے ایسے ناپاک اقدامات کے ردعمل کے طور پر قلمی جہاد کی تیاری کریں۔ ہم اور کچھ نہیں تو ہالینڈ اور اس کے شریک کار ملکوں کی مصنوعات کا بائیکاٹ کریں بلکل اسی طرح جس طرح ماضی میں ڈنمارک کی مصنوعات کا بائیکاٹ کیا گیا ۔ اور اسے روزانہ کی بنیاد پر 1.6ملین یوروکا نقصان پہنچایا۔یہاں تک کہ چھ ماہ میں اس کی برآمدات نصف رہ گئیں۔ اور اگر ہم کچھ بھی نہیں کر سکتے تو ہمیں سمجھ لینا چاہئے کہ ہم مجموعی طور پر غیرت و ہمیت سے دستبردار ہو چکے ہیں۔ اور آئندہ کے لئے نبی اکرمﷺ سے محبت کے کسی دعوےٰ یا کسی اقرار سے بھی دستبردار ہو جائیں۔

Facebook Comments

فارینہ الماس
تعلیم سیاسیات کے مضمون میں حاصل کی لیکن اپنے تخیل اور مشاہدے کی آبیاری کے لئے اردو ادب کے مطالعہ کو اہمیت دی۔لکھنے کا شوق افسانے اور ناول لکھ کر پورا کیا۔سال بھر سے کالم نگاری میں مشق جاری ہے ۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply