تنقید یا تعریف کا ٹرینڈ ۔۔۔۔ عائشہ اذان

نئے ٹرینڈ بہت تیزی سے ہماری زندگیوں میں داخل ہوتے ہیں اور ہماری شخصیت پر گہری چھاپ چھوڑ دیتے ہیں۔ بغیر سوچے سمجھے ٹرینڈز کو فالو کرنا کچھ کی مجبوری بنتی ہے تو کچھ کی عادت، تاہم ٹرینڈ سیٹرز کم اور فالوورز زیادہ نظر آتے ہیں۔ اس کی وجہ ہے کہ بنی بنائی چیز کو سراہنا یا تنقید کرنا آسان ترین کاموں میں سے ایک ہے مگر خود کسی چیز کو تخلیق کرنا ایک مشکل ترین کام ہے۔

آجکل فیسبک پہ لکھنے والوں کو پڑھنے کا اتفاق ہوا تو ایک ٹرینڈ جو ہماری سوسائیٹی میں بڑی تیزی سے پھیلتا جا رہا ہے، دیکھنے کو ملا۔ بحث اور تنقید کا فن، ہاں اسے فن اس لیے کہنا ضروری ہے کہ اس کام کو کرنے کے لیے آپکو بہت محنت کرنی پڑتی ہے ۔ ہر لکھنے والا تخلیقی ذہن سے ہی لکھتا ہے، کچھ صیح، کچھ غلط۔ بہرحال لکھنے کی صلاحیت رکھنے والوں کی میں دل سے قدر کرتی ہوں کہ یہ ایک ایسا انعام ہے جو سب کو حاصل نہیں ہوتا۔ ایسے ہی جیسے ہر کوئ مصور نہیں بن سکتا۔

خیر فیسبک پر ایک نیا ٹرینڈ حوصلوں کو پست کرنے والی تنقید کرنا بھی ہے۔ حتی کہ چھوٹی موٹی بحثوں میں لوگوں کو ذاتیات پہ اترتے بھی دیکھا۔ یہ میرے لیے ایک عجیب ٹرینڈ تھا جو ہماری سوسائٹی میں تربیت کی کمی کا شاخسانہ ہے۔ ہم روزمرہ کے معمول کو دیکھیں تو ایسے لوگ بہت کم نظر آئیں گے جو آپ کی کامیابی سے خوش ہیں۔ اگر کوئی موٹا شخص دبلا ہونے کی کوشش کرے تو بجائے اس کی حوصلہ افزائی کرنے کے، ہم طنز کے تیر زیادہ استمعال کرتے ہیں۔ کسی کی اچھی بات میں سے ہم منفی رنگ تلاش کر لیتے ہیں۔

ایسا کیوں ہے؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم ایک تھکی ہوئی قوم ہیں۔ بظاہر پرجوش نظر آنے والے بھی اپنے اردگرد کے واقعات و حالات سے اتنے تھک چکے ہیں کہ ہم اندھی تقلید محض اس لیے کرتے ہیں تاکہ کوئ ہم پہ انگلی اٹھا کر یہ نہ بتا سکے کہ ہم اکتائے رویے رکھتے ہیں۔ اس کے لیے ہم خود ذمہ دار ہیں یا ہمارا ماحول؟ میرا ذاتی تجربہ ہے کہ ماحول ویسا ہی بن جاتا ہے جیسا آپ بنانا چاہتے ہیں۔

اس کے علاوہ ہم سارا ملبہ کسی اور کے سر ڈالنے کے بھی ماہر ہیں جیسا کہ ہمارے برے حالات کے ذمہ دار حکمران ، جذباتیت کے ذمہ دار ملک دشمن عناصر اور بیزاری کے ذمہ دار غلط لوگ۔ اس کا ایک آسان سا حل ہے کہ جو بھی ہو رہا اس کو ایک طرف رکھ کے ذرا اپنی ذات سے براہ راست روبرو ہو جائیں۔ جب آپ کو اپنی پہچان ہوگی اور ادراک ہوگا کہ لوگوں میں آپ سے زیادہ خوبیاں ہیں تو آپ یینی طور پر کچھ تبدیل ہونگے، سوچ مثبت ہوگی تو پیغام بھی مثبت ہوگا اور آس پاس بھی کچھ دیر کے بعد آپ جیسا ہی رنگ ہوگا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

اندھی تقلید کا ہنر اس قوم نے کس سے سیکھا، کیوں اپنایا؟ اسے چھوڑ دیتے ہیں اور تہیہ کر لیتے ہیں کہ ہمیں خود کو بدلنا ہے تو ہماری توجہ اس طرف نہیں جائے گی کہ لوگ کیا کر رہے ہیں۔ رہی بات فیسبک پہ تنقید کرنے والوں کی تو ان کے لیے بھی ایک آسان راستہ ہے کہ پورا پورا دن لوگ کیا کر رہے ہیں، کیسا کر رہے ہیں، یہ لکھنے کہ بجائے خود کو اس قابل بنائیں کہ لوگ آپ کو دیکھنے آئیں اور اگر یہ کام نہیں کر سکتے تو خدارا اس ٹرینڈ سے لکھنے والے کی تنقید و تضحیک کے بجائے اسے سراہیں۔ غلط ہے تو ضرور بتائیں لیکن بحث نہیں، مکالمہ کریں۔ کسی بھی معاشرے کا یہی حسن ہوتا ہے کہ وہ ان لوگوں کی قدر کرے جو ان کے آنے والے کل کی آواز بن سکیں۔ یہ ایک اچھا ٹرینڈ ہے اس کو فالو کریں اور زندگیوں کو آسان کریں۔ مثبت تنقید اور تعریف سے تخلیق نکھرتی ہے اگر اسکو سلیقے سے بتانے کا ہنر ہو۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply