سعودی عرب میں موجود چند قدیم قلمی مخطوطات۔۔منصور ندیم

سعودی عرب کے دارالحکومت شیر ریاض میں الملک عبدالعزیز پبلک لائبریری (King Abdulaziz Public Library) نے ایک نیا شعبہ سنہء ۱۹۸۸ میں قائم کیا تھا جو قدیم و جدید قلمی نسخوں کے لئے مختص ہوا تھا، اس شعبے کے قیام کے بعد سے یہ شعبہ اسلامی عرب ورثے کے تحفظ کے لیے نایاب قلمی نسخے جمع کرنے کا کام کر رہا ہے اور یہ پوری دنیا میں موجود محقیقین سکالرز اور قلمی نسخوں میں۔ دلچسپی یا تحقیق کا کام کرنے والوں کے لئے استفادے کا ذریعہ بن چکا ہے۔ اس وقت اس لائبریری کی ایک منفرد شناخت یہ ہے کہ یہاں سعودی عرب کی تاریخ پر نایاب قلمی نسخے اور ۳۲۰۰ کتابیں موجود ہیں- ان میں جو چند قلمی مخطوطات موجود ہیں یہ انتہائی نادر و نایاب ہونے کے ساتھ ساتھ قلمی شکل میں اپنے عہد کی زبردست کاوشیں ہیں ۔

1- تاریخ افریقہ من ابراہیم بن القاسم القیروانی المعروف ابن رقیق:

یہ کتاب افریقہ کی تاریخ پر ہے جسے آپ اس وقت دنیا کا واحد قلمی نسخہ کہہ سکتے ہیں جو افریقہ کی تاریخ پر دنیا میں کہیں محفوظ ہو، اس قلمی نسخے پر ساتویں صدی ہجری کے شروعات کی تاریخ لکھی ہوئی ہے۔ یہ مشہور مورخ اور ادیب ابراہیم بن القاسم القیروانی المعروف “ابن رقیق” کی تصنیف ہے۔ ابراہیم بن القاسم قیروان سے تعلق رکھنے والے مورخ اور ادیب تھے۔ کئی کتب کے مصنف تھے۔ بعد میں یہ سنہ ھجری ۳۸۸ میں مصر میں مقیم ہوگئے تھے کئی سال رہنے کے بعد پھر القیروان چلے گئے ان کا انتقل القیروان میں ہی سنہ ھجری ۴۲۵ میں ہوا تھا، ممکن ہے کہ اصل تصنیف کے بعد یہ ساتویں صدی میں دوبارہ لکھی گئی ہو، اس کتاب کی بعض سرخیاں سونے کے پانی سے لکھی ہوئی ہیں اور بقایا نیلے رنگ کی دوست سے ہیں۔ اس قلمی نسخے کا ابتدائی اور آخری حصہ کچھ کٹا ہوا ہے۔ اور بعض اوراق کو دیمک بھی چاٹ چکا ہے، اس لئے کئی عبارات کا پڑھنا مشکل ہے، ویسے آسانی کے لئے ترمیم شدہ نسخے میں حاشیے میں اصلاحات اور آسان زبان میں تخلیص و تبصرے موجود ہیں۔ اس کتاب کا تحریری رسم الخط اندلسی ہے۔ یہ قلمی نسخہ افریقہ کی تاریخ کا اہم کتاب ہے، جسس میں عقبۃ بن نافع کے ہاتھوں اسلامی فتوحات کے آغازسے لے کر القیروان شہر کے قیام تک اور زھیر بن البلوی اور حسان بن نعمان اور موسی بن نصیر کے ہاتھوں فتوحات کی تاریخ سے لے کر چوتھی صدی  ہجری تک مصنف کی زندگی کے عہد تک کی تاریخ کا تذکرہ ہے۔ ابن خلدون نے بھی اپنے مقدمہ ابن خلدون میں ابن رقیق کا تذکرہ کیا ہوا ہے۔

2- المریب شرح کتاب القوافی للاخفاش من ابو الفتح عثمان بن جنی الموصلی

یہ نسخہ بھی ایک قدیم نادر قلمی نسخہ ہے، جو قریب ہزار برس سے بھی زیادہ قدیم ہے اور جس میں عربی قواعد پر مباحث ہے ۔ اصلا یہ نسخہ عربی گرائمر کے قواعد پر قدیم ترین نسخوں میں سے ایک نسخے القوافی کی تفصیلی وضاحت پر ہے جسے اس عہد کے ماہر لسانیات “الاخفاش الاکبر” نے لکھا تھا۔ اور بعد میں اس کتاب کے مصنف ابو الفتح عثمان بن جنی الموصلی تھے۔ ابو الفتح عثمان بن جنی الموصلی کا یہ اصل فن پارہ اس وقت ریاض شہر کی ملک عبدالعزیز لائبریری میں موجود ہے جسے بعد میں نویں صدی میں نقل کیا گیا ، اس کا رسم الخط مراکشی عربی خطاطی ہے، اور اپنے عہد کا یہ ایک اہم سائنسی، تاریخی اور ثقافتی فن پارہ سمجھا جاتا ہے ، خصوصا اس کے مصنف لسانیات، گرامر اور علم الاشکال کا اپنے عہد کے ایک مشہور ماہر سمجھے جاتے تھے۔

یہ نسخہ بکری کی کھال سے بنے تقریباً ۵۸ اوراق پر مشتمل ہے، اور ایک ہی جلد پر ہے، یہ کتاب ذی الحجہ سنہ ہجری ۴۰۶ میں مکمل ہوئی تھی۔ کتاب کے لکھے جانے کے کئی برس تک مسلم دنیا، عرب دنیا میں اسے ایک کمال حیثیت کا درجہ رہا، ابو الفتح عثمان بن جنی الموصلی نے شاعری، ادب اور عربی گرامر و لسانیات پر قریب ۵۰ کتابیں لکھیں جن میں سب سے مشہور ابوالطیب المتنبی کی نظموں کے مجموعے “الخصائص” بھی ہے ۔ ابو الفتح عثمان بن جنی الموصلی نے اپنے حلب کے سفر میں سیف الدولہ الحمدانی کی عدالت اور شیراز میں عضد الدولہ کی عدالت میں ابو الطبیب المتنبی سے ملاقات بھی کی۔ ابو الطبیب المتنبی نے ان کی عزت برھاتے ہوئے کہا تھا کہ

“یہ وہ شخصیت ہیں جن کی قدر بہت سے لوگوں کو معلوم نہیں۔”

ابو الطبیب المتنبی سے جب ان کی شاعری کی بابت پوچھا جاتا تھا تو ابو الطبیب المتنبی کہتے تھے کہ

“یہ تو ابوالفتح سے پوچھیں۔ میری شاعری کے بارے میں ابو الفتح عثمان بن جنی الموصلی ہی ہے جو میری شاعری کو مجھ سے زیادہ جانتے ہیں۔”

ابو الفتح عثمان بن جنی الموصلی وہ پہلے شخص تھے جنہوں نے ابو الطیب المتنبی کی نظموں کے مجموعے کا “الخصائص” کے نام سے تجزیہ کیا تھا۔ اس کے علاوہ ابو الفتح عثمان بن جنی الموصلی

کی دیگر مشہور کتب میں “ال لامہ فی العربیہ”، “علم العروض”، “المنصف” اور “التنبیہ فی شرح مشکلات الحماسہ” کے تجزیوں پر مبنی کتب ہیں۔

3- الایضاح المرشد من الغی علی حدیث حبب من دنیاکم الی من تالیف عالم شمس الدین السخاوی

سنہ ہجری ۹۰۲ میں وفات پانے والے شیخ عالم شمس الدین السخاوی کی تالیف کا ۲۵۰ برس پرانا قلمی نسخہ بھی سعودی عرب کی عبدالعزیز لائبریری میں موجود ہے، اتفاق سے یہ نسخہ دنیا میں کہیں بھی اور موجود نہیں ہے، یہ علم حدیث کا نسخہ ہے، اس قلمی نسخے پر سنہ ھجری ۱۱۹۰ کی تاریخ موجود ہے، علم حدیث کی قلمی کتاب سیاہ روشنائی سے تحریر ہے، اس کی سرخیوں میں اور بعضے الفاظ کو نمایاں کرنے کے لئے سرخ روشنائی کاستعمال ہوا ہے یہ خط نسخ میں لکھا گیا ہے ، اس کے اوراق کی تعداد ۱۴ اور ہر ورق پر ۳۱ سطریں موجود ہیں۔ شمس الدین السخاوی کا تعلق شمالی مصر کے علاقے “سخا” سے تھا۔ شمس الدین السخاوی اپنے عہد کے مشہور مورخ، محدث، مفسر اور ادیب تھے۔ شمس الدین السخاوی کی عمر کا بیشتر حصہ مصر کے شہر قاہرہ میں گزرا اور انتقال مدینہ منورہ میں ہوا، شیخ شمس الدین السخاوی نے لگ بھگ ۲۰۰ کے قریب کتب تصانیف کیں۔ ان تمام قلمی مخطوطات تک شائقین تک رسائی با آسانی ممکن ہے ۔

Advertisements
julia rana solicitors

نوٹ : عرب جرائد کی مدد سے لکھا گیا مضمون

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply