پویلئین اینڈ سے۔۔۔ایک سفر، اونچے نیچے راستوں کا/شکور پٹھان

اونچے نیچے راستوں کے اس سفر کے اگلے پڑاؤ کی باتیں کرتے ہوئے حلق میں کچھ پھنسنے لگتا ہے، زبان گنگ، ذہن ماؤف اور قلم زنگ آلود ہوجاتا ہے۔
یہ ہماری قومی تاریخ کا منحوس ترین سال تھا ۔ انتخابات کے بعد سے ہی ہر روز کچھ نہ کچھ ایسا ہوتا جو ہماری تاریخ کا حصہ بنتا لیکن اس میں کہیں کوئی اچھی، دل کو سکون دینے والی بات نظر نہ آتی، ہر خبر جو آتی، بری ہی آتی۔

قومی اسمبلی کے اجلاس پر مشرقی اور مغربی پاکستان کے رہنماؤں میں شدید تناؤ تھا۔ پھر یہی ہوا۔ قومی اسمبلی کا اجلاس ملتوی ہوا تو مارچ میں مشرقی پاکستان میں شدید ردِّعمل ہوا۔ کچھ عرصہ کے لئے مشرق اور مغرب کے مابین مواصلات بھی منقطع ہوگئے۔ خطرے کی گھنٹیاں چہار سو بج رہی تھیں کہ 23 مارچ کو عوامی لیگ نے باقاعدہ اعلانِ بغاوت کردیا اور عمارتوں پر بنگلہ دیش کا پرچم لہرادیا۔
اکثریتی صوبے اور اکثریتی جماعت کو اقتدار دینے کے بجائے یحییٰ خان نے یہ حل نکالا کہ ٹکّا خان کو مشرقی پاکستان روانہ کردیا۔ 26 مارچ کو مجیب کو گرفتار کرلیا گیا اور مغربی پاکستان سے ایک آواز آئی کہ ” خدا کا شکر ہے پاکستان بچ گیا”.

پاکستان کتنا بچا یہ بھی ہم نے بہت جلد دیکھ لیا۔

یہ روز وشب تھے کہ ہماری کرکٹ ٹیم انگلستان جا پہنچی۔ انگلستان کا دورہ ہمیشہ سے بڑا اہم مانا جاتا ہے۔ اب ہم فی الحال ملکی حالات کو ایک طرف رکھ کر کرکٹ کی بات کرتے ہیں کہ ان دنوں بھی ہم نوجوانوں کی توجہ اسی جانب تھی۔اور کیونکر توجہ اس جانب نہ ہوتی۔۔ایجبسٹن میں ہمارا ایک نوآموز، معنّک، کھلاڑی جس نے اس سے پہلے صرف ایک ٹیسٹ کھیلا تھا، میدان میں ایسا اترا کہ جانے کا نام ہی نہیں لیتا تھا۔ جی ہاں دورہ انگلستان میں اپنے پہلے ہی میچ میں 274 رنز بنا کر اس نے دنیا کو بتادیا کہ ظہیر عّباس ہونے کے کیا معنی ہیں۔
گورے بالروں کی گیندیں ظہیر کے بلے کوچھوتیں اور زمین سے چپکی ہوئی بجلی کی سی تیزی سے باؤنڈری لائن پار کرتی رہیں۔ اس بہتی گنگا میں مشتاق محمد اور آصف اقبال نے بھی ہاتھ دھوئے اور سنچریاں بنا ڈالیں۔ پاکستان نے 608رنز کا پہاڑ کھڑا کرکے انگلستان کو 353 رنز پر ڈھیر کرکے فالو آن کی ہزیمت سے دوچار کیا۔ دوسری باری میں گورے البتہ پانچ کھلاڑیوں کے نقصان پر 229 رنز بنا کر میچ بچانے میں کامیاب ہوگئے۔ کچھ ان کے موسم نے بھی ان کا ساتھ دیا۔ آصف مسعود نے اپنے منفرد انداز کے ساتھ نو گورے کھلاڑیوں کو گھر کا رستہ دکھایا۔

ایجبسٹن کا یہ میلہ ظہیر کے نام رہا اور کسی کی نظر اس چندی آنکھوں والے انگریز نما گورے سے اٹھارہ سالہ خوبصورت لڑکے پر نہیں پڑی جس کا تعارف ملکہ انگلستان سے کراتے ہوئے ، کپتان انتخاب عالم کو اس کا نام بھی یاد نہیں رہا۔
کسے معلوم تھا کہ اس میچ میں کوئی خاص کارکردگی نہ دکھانے والا اٹھارہ سالہ یہ لڑکا سینتالیس سال بعد دنیا کی  سب سے بڑی اسلامی مملکت اور واحد اسلامی ایٹمی قوت کا وزیراعظم بننے والا ہے۔

جی ہاں اس لڑکے کا نام ،عمران خان نیازی تھا، جس نے پرسوں ہی اسلامی جمہوریہ پاکستان کے بائیسویں  وزیراعظم کا حلف اٹھایا ہے اور بائیس کروڑ عوام کی امیدوں کا مرکز ہے۔

کرکٹ کے ہیڈکوارٹر لارڈز میں بارش کی وجہ سے کھیل مکمل نہ ہوسکا۔ اس بار یہ غیبی مدد پاکستان کو بچا گئی کہ ہماری کارکردگی اس میچ میں بہت بری رہی تھی.

تیسرا اور آخری میچ ہیڈنگلے میں تھا جو تقریباً برابر ہی چل رہا تھا لیکن دوسری باری میں ہم 225 رنز کے تعاقب میں پچیس رنز کی کمی سے بازی ہار گئے۔ صادق محمد نے 90 رنز کی ایک بہادرانہ باری کھیلی، کچھ ساتھ آصف اقبال نے دیا لیکن سیریز اور میچ کی شکست کو نہ ٹال سکے۔

اس کے ساتھ ہی ایجبسٹن کا خمار اور کرکٹ کا بخار دونوں اتر گئے اور ہم اپنی دنیا میں واپس آگئے جہاں تلخ حقائق کے اژدھے منہ کھولے بیٹھے تھے۔

حالات بد سے بدتر ہوتے جارہے تھے۔ اگست کے مہینے میں ٹھیک آج ہی کے دن انّیس سالہ راشد منہاس نے اپنے خون سے جرات اور بہادری کی عظیم داستان رقم کردی۔ یہ پاکستان کا سب سے نوعمر اور پاک فضائیہ کا واحد نشانِ حیدر تھا۔ ۔لیکن شہید کی یہ قربانی بھی اس قوم کا حوصلہ نہ بلند کرسکی جہاں باہمی نفرت اور کدورت دن بدن بڑھتی ہی جارہی تھی۔

لیکن جیسا کہ میں نے پہلے بھی کہا کہ ہم سخت جان قوم ہیں۔ بڑے سے بڑے حادثے کے  بیچ بھی ہم خوش ہونا اور مسکرانا جانتے ہیں۔
اکتوبر میں بارسلونا میں اسپین کو ہرا کر ہم ہاکی کے پہلے عالمی چیمپئین بن گئے۔ سیمی فائنل میں ہم نے بھارت کو ایک کے مقابلے میں دو گول سے شکست دی تھی۔ پہلا گول بھارتیوں نے کیا تھا۔
انہی دنوں مشرقی پاکستان کے سابق گورنر عبدالمنعم خان کے قتل کی خبر آئی۔ ایوب خان کے دونوں گورنروں کا ایک سا انجام ہوا۔ گورنر کالا باغ بھی اپنے بیٹے کے ہاتھوں قتل ہوئے تھے۔

نومبر کے آخری دنوں کی ایک شام تھی۔میں اپنے چچا اور مالک مکان کے بیٹے کے ساتھ تاش کھیل رہا تھا کہ ، چاچی، ہماری مکان مالکہ نے ہمیں ڈانٹ کر اٹھا دیا کہ ریڈیو پر مشرقی پاکستان پر حملے کی خبر چل رہی ہے اور تم لوگ تاش میں مشغول ہو۔
ہم فوراً    اٹھ کھڑے ہوئے۔ ریڈیو پر آغا محمد یحیٰی خان ملک میں ہنگامی حالات کے نفاذ کا اعلان کررہے تھے۔ فوجیوں کی چھٹیاں منسوخ کردی گئی تھیں۔
سردار خان، مالک مکان کا بیٹا جوفوج چھوڑ کر گھر بیٹھا تھا اسے فوج کی طرف سے فورا حاضر ہونے کے لئے خط آگیا۔ مکان مالک کا بھتیجا بلند قامت اور وجیہ سلیم خان ، آبدوز غازی میں اپنی ذمہ داری انجام دینے روانہ ہوگیا۔ سردار خان کو کہا گیا کہ کسی بھی وقت تمہیں محاذ پر طلب کیا جاسکتا ہے اگلے احکام کا انتظار کرو۔

پھر مغربی محاذ پر بھی جنگ چھڑگئی۔ ریڈیو اور ٹیلیویژن سے جوانوں اور قوم کا حوصلہ بلند رکھنے کے لئے خون کو گرمانے والے ترانے نشر کیے  جانے لگے لیکن ان میں سن پینسٹھ والا جوش کہیں نہیں تھا۔
مشرقی محاذ سے اچھی خبریں نہیں آرہی تھیں۔ ہمیں ویسے بھی کچھ زیادہ پتہ نہیں چلتا تھا کہ خبروں پر سنسر تھا۔ زیادہ انحصار بی بی سی اور وائس آف امریکہ پر رہتا۔ جہاں سے ہمیں پتہ چلتا کہ مشرقی محاذ پر گھمسان کی لڑائی ہورہی ہے اور جگہ جگہ پاکستانی فوجی اپنی روایتی بہادری کے مظاہرے کررہے ہیں۔ پھر ہم اپنے یہاں کی خبروں میں سنتے کہ سوار محمد حسین شہید، میجر شبیر شریف شہید اور لانس نائیک محفوظ شہید نے کیا کارنام انجام دیئے کہ انہیں نشان حیدر دیا گیا۔
اب ہماری خبروں میں بھی بتایا جانے لگا کہ شدید لڑائی ہورہی ہے اور ہماری افواج ” متبادل” مورچے بنا رہے ہیں۔ لیکن یہ کبھی سمجھ نہ آیا کہ یہ مورچے آگے کی جانب بن رہے ہیں یا پیچھے کی جانب۔
ہم اپنے آپ کو حوصلہ دیتے کہ بارسلونا میں بھی پہلا گول بھارت نے کیا تھا اور ہم نے دو گولوں سے اسے ہرایا تھا۔ یہ متبادل مورچے وقتی ہیں اور ہم عنقریب آگے کی جانب پیش قدمی کرینگے۔ اور یہ کہ امریکہ کا ساتواں بحری بیڑہ چل پڑا ہے اور کچھ ہی دنوں میں مشرقی پاکستان پہنچنے ہی والا ہے۔
امریکہ کا بحری بیڑہ جو آج تک اپنی منزل پر نہ پہنچ سکا، مشرقی پاکستان بھی نہ پہنچا لیکن ہمارے مشرقی افواج کے کماندار نے یہ حوصلہ افزا بیان دیا کہ چاہے ہزار سال لڑنا پڑے ہم پیچھے نہیں ہٹیں گے اور دشمن ہماری لاشوں پر سے گذر کر ہی ڈھاکہ پہنچ سکتا ہے۔

اور پھر سولہ دسمبر کی وہ منحوس گھڑی آگئی جب ہم نے اپنی قومی اور ملی زندگی کی وہ منحوس ترین خبر سنی۔ سن سینتالیس کو قائم ہونے والی اسلامی مملکت کے سپہ سالار نے ڈھاکہ کی  پلٹن میدان میں اپنی کمر سے اپنی پستول اور پیٹی اتار کر بھارتی فوج کے لیفٹننٹ جگجیت سنگھ اروڑا کے سامنے ڈال دیئے۔

ٹی وی پر یحیٰی خان کی تقریر کے بعد ہم سب گم سم اور سکتے کی حالت میں بیٹھے تھے کہ پسینے میں شرابور ایک لمبوترے سے چہرے اور لمبے بکھرے بالوں والے شاعر کی للکار سنائی دی۔

کیا اس قدر حقیر تھا اس قوم کا وقار
ہر شہر تم سے پوچھ رہا ہے جواب دو

لیکن اب ہم میں کسی میں جواب طلبی کی طاقت نہیں تھی۔ ہم سب نیم مردہ اور شکست خوردہ سے ایک دوسرے کی جانب دیکھتے۔ زبانیں گنگ تھیں اور آنکھیں ڈبڈبائی ہوئیں۔

اپنے قیام کے پچیس سال میں ہی مملکت خداداد دو نیم ہوگئی۔۔اور اب تو ہمیں یاد بھی نہیں کہ چھیالیس سال پہلے ہم پر کوئی قیامت بھی گذری تھی۔

اور پھر ایک دن میں اپنے گھر کے دروازے پر کھڑا تھا کہ ایک فوجی جیپ آکر رکی۔ نیوی کے دو نوجوان افسر جیپ سے اترے اور کیپٹن سلیم کے گھر کا دریافت کیا۔
میں نے انہیں بتایا کہ یہی گھر ہے۔

” ہم ان کی والدہ سے ملنا چاہتے ہیں’
” یہاں ان کی چچی رہتی ہیں ، وہ انہی کے پاس رہتے ہیں۔ ” میں نے بتایا اور چاچی کو آواز دی۔
چاچی اپنے گیلے ہاتھوں کو دامن سے صاف کرتی دروازے پر آئیں۔
دونوں جوانوں نے انہیں سلیوٹ کیا۔ میرا دل زور زور سے دھڑکنے لگا۔
اندر آکر دونوں نے بتایا کہ “غازی” دشمن کا پیچھا کرتے ہوئے شہید ہوگئی ہے اور کیپٹن سلیم لاپتہ ہیں ۔ لیکن اب ان کی واپسی کی امید نہ رکھی جائے۔
دونوں جوان اٹھ کھڑے ہوئے، دروازے پر پہنچ کر پھر سلیوٹ کیا

Advertisements
julia rana solicitors

اس بار دونوں نے سر سے ٹوپیاں اتار لی تھیں۔

Facebook Comments

شکور پٹھان
محترم شکور پٹھان شارجہ میں مقیم اور بزنس مینیجمنٹ سے وابستہ ہیں۔ آپ کا علمی اور ادبی کام مختلف اخبارات و رسائل میں چھپ چکا ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply