سائی بورگ(قسط 9)۔۔وہاراامباکر

نیل ہاربیسن ایک کلربلائنڈ آرٹسٹ ہیں۔ انہوں نے 2004 میں اپنے سر پر ایک آلہ لگوا لیا جو آئی بورگ تھا۔ یہ ایک سادہ ڈیوائس ہے جو ایک ویڈیو سٹریم کا تجزیہ کرتی ہے اور رنگوں کو آوازوں میں تبدیل کرتی ہے۔ یہ سگنل ان کے کان کے پیچھے ہڈی کو بھیجا جاتا ہے۔
نیل رنگوں کو سُن سکتے ہیں۔ وہ بتا سکتے ہیں کہ یہ سبز ہے یا یہ جامنی ہے! اس سے بھی آگے؟ آئی بورگ کیمرہ وہ ویولینتھ بھی ڈیٹکٹ کر لیتا ہے جو نارمل سپیکٹرم سے باہر ہیں۔ انفراریڈ اور الٹراوائلٹ سپیکٹرم کو بھی وہ “سن” لیتے ہیں۔ ویسے ہی جیسے شہد کی مکھیاں یا سانپ کر سکتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جب نیل نے پاسپورٹ بنوانا تھا تو انہوں نے اصرار کیا کہ وہ آئی بورگ نہیں اتاریں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ ان کے جسم کا حصہ ہے۔ پاسپورٹ اہلکاروں نے انکار کر دیا کہ سرکاری تصویر میں الیکٹرانک آلات کی گنجائش نہیں۔ لیکن ان کے ڈاکٹروں، دوستوں اور ساتھیوں کے لکھے گئے خطوط کے بعد ایک مہینے بعد انہیں اجازت مل گئی اور ہم کہہ سکتے ہیں کہ نیل پہلے سرکاری طور پر تسلیم شدہ سائی بورگ ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس کی ایک مثال قدرتی بھی ہے۔ عام طور پر ہم آنکھ میں تین قسم کے کلر فوٹوریسپٹر رکھتے ہیں۔ لیکن جین کے ایک اور ویری ایشن کے سبب خواتین میں سے تھوڑی سی تعداد چار اقسام کے ریسپٹر رکھتی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ایسی خواتین کے لئے رنگوں کا جو تجربہ ہے، وہ آبادی کی بڑی اکثریت کرنے سے قاصر ہے۔ یہ نئے منفرد رنگ اور ان کے مکسچر محسوس کر سکتی ہیں جو اس کے بغیر کئے ہی نہیں جا سکتے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایسا حادثاتی طور پر بھی ہو سکتا ہے۔ موتیے کے آپریشن میں کئی بار کورنیا کو تبدیل کر کے سنتھیٹک متبادل لگا دیا جاتا ہے۔ کورنیا قدرتی طور پر الٹراوائلٹ لائٹ بلاک کر دیتا ہے۔ لیکن ری پلیسمنٹ کورنیا ایسا نہیں کرتا۔ ایسے لوگوں کے لئے یہ سگنل بھی دماغ تک پہنچنے لگتا ہے اور یہ ایسا سپیکٹرم دیکھنے کی صلاحیت حاصل کر سکتے ہیں جو وہ پہلے نہیں دیکھ پائے تھے۔ ایسے ایک مریض ایلک کومارنٹسکی ہیں۔ وہ ایک انجینر ہیں جو ایسی “چمک” کا بتاتے ہیں جو دوسرے لوگ نہیں دیکھ سکتے۔ انہوں نے اپنے آپریشن کے بعد ایسا محسوس کیا۔ پہلے جو لباس انہیں سیاہ نظر آ رہا تھا اب اس پر ایک مدھم نیلاہٹ جیسی روشنی دکھائی دے رہی تھی۔ جب انہوں نے الٹراوائلٹ فلٹر آنکھ پر لگایا تو یہ دکھائی دینا بند ہو گئی۔ ان کی یہ نئی “سپرپاور” انہیں غروبِ آفتاب، چولہے اور پھولوں کو نئے طریقے سے محسوس کرنے کا تجربہ دیتی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایسا ایک تجربہ چوہوں پر 2015 میں کیا گیا جہاں پر انفراریڈ ڈیٹکٹر کو براہِ راست ان کے دماغ کے ساتھ جوڑ دیا گیا۔ چوہے اس کو استعمال کرنے کے قابل ہو گئے۔ وہ ایسے ٹیسٹ کامیابی سے کر لیتے تھے، جن کے لئے انفراریڈ لائٹ کو استعمال کرنے کی ضرورت تھے۔ اس کو سیکھنے میں انہیں چھ ہفتے لگے تھے۔ جب ایسے تین اضافی الیکٹروڈ چوہوں کے دماغ میں ڈالے گئے تو سگنل زیادہ طاقتور ہونے کی وجہ سے انہوں نے یہ کام چار روز میں ہی سیکھ لیا۔ اور اہم بات یہ کہ اس اضافی سنسر نے ان کے سوماٹوسنسری کورٹیکس کے عام فنکشن کو بالکل متاثر نہیں کیا۔ یہ نئی حس ان کے باقی حسیات کے ساتھ متصل ہو گئی۔ اس سٹڈی کو کرنے والے ایرک تھامپسن کے الفاظ میں۔
“میرے لئے یہ بہت حیرانی کا باعث تھا۔ ہاں، دماغ نئی انفارمیشن کے ذرائع کا ہمیشہ بھوکا ہوتا ہے لیکن ایک بالکل ہی الگ قسم کی انفامیشن کو اس قدر جلد جذب کر لینا ایک بہت ہی زبردست خبر ہے”۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہمارے سر میں دو آنکھیں سامنے لگی ہیں۔ ہمیں دنیا کو دیکھنے کا 180 درجے کے قریب کا زاویہ ملتا ہے۔ اس کے مقابلے میں مکھی کی کمپاوٗنڈ آنکھ تقریبا 360 درجے کا زاویہ دکھاتی ہے۔ کیا ماڈرن ٹیکنالوجی کی مدد سے ہم مکھی کے بصارتی تجربے سے لطف اندوز ہو سکتے ہیں؟
فرانس میں بالکل یہی کام کیا گیا۔ FlyVIZ وہ ہیلمٹ ہے جو یہ کام کرتا ہے۔ اس پر کیمرہ پورے منظر کو لے کر، اسے کمپیرس کر کے، سامنے کی آنکھوں کو بھجواتا ہے۔ اس کو استعمال کرنے پر متلی ہوتی ہے اور ایڈجسٹ ہو جانے کے بعد تقریباً پندرہ منٹ میں ہی ہیڈسیٹ پہننے والے اس کا استعمال کرنے لگتے ہیں۔ پیچھے سے آنے والے کو دیکھ لیتے ہیں۔ کہیں سے بھی کوئی شے اٹھا لیتے ہیں۔ عقب سے آنے والی گیند کیچ کر لیتے ہیں۔
اور حسیاتی توسیع صرف بصارت تک محدود نہیں۔ کیوں نہ سماعت کو الٹراسونک رینج تک وسیع کر دیا جائے جو صرف بلیاں یا چمگاڈر کر سکتی ہیں؟ یا انفراسونک تک، جس میں ہاتھی بات کرتے ہیں؟ ایسی کوئی وجہ نہیں کہ ایسا نہ کیا جا سکے۔
قوتِ شامہ میں بلڈ ہاونڈ وہ کچھ سونگھ سکتے ہیں جن کا ہم تصور بھی نہیں کر سکتے۔ اس کو ممکن کرنے کے لئے ٹھیک مالیکیولر ڈیٹکٹرز کی ایرے درکار ہے جو بو کی دنیا کو وسیع کر سکتی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شاید آپ کے ذہن میں سوال آئے ہوں۔ کیا صرف موجودہ حسیات وسیع کی جا سکتی ہیں؟ یا پھر بالکل ہی نئی اچھوتی حس بھی؟ اگر حسیاتی آلات کا کام کسی سگنل کا دماغ کی الیکٹروکیمیکل کرنسی میں ترجمہ کرنا ہی ہے تو پھر بالکل ہی نئی اقسام کے سگنل کیوں نہیں؟ مقناطیسی فیلڈ؟ سٹاک مارکیٹ کے ٹرینڈ؟ کیا دماغ ان کو محسوس کر کے ان کا تجربہ بھی تخلیق کر سکتا ہے؟
آپ کے یہ سوال دلچسپ ہیں۔ ان کے جواب اس سے بھی زیادہ دلچسپ۔

(جاری ہے)

قسط ایک کا لنک

Advertisements
julia rana solicitors london

https://www.mukaalma.com/114576/

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply