فلسطین قضیہ کی اہم تاریخی کتابیں/منصور ندیم

استحصالی تسلط کسی بھی خطے میں تصادم کی بنیاد بنتا ہے، جو اپنی نوآبادیاتی موجودگی کو استحکام کے اظہار کے لئے کسی بھی ذریعے کو طاقت و جبر سے روکنے کی کوشش کرتا ہے اور اظہار کی ہر شکل، جیسے کتاب کا بھی استحصال کرتا ہے۔ خطہ فلسطین میں بھی استحصالی تسلط کے خلاف فلسطین کے بارے میں بہت کچھ لکھا گیا ہے۔ اسے عہد بہ عہد واقعات و حالات کے تناظر میں جدید دور تک سمجھنے میں ناول، شاعری، اور خطے کے حالات پر بہت کچھ تاریخی پس منظر کے ساتھ واقعات کے تسلسل پر کتابیں لکھی گئی ہیں۔ فلسطین کے بارے میں کچھ کتابوں کا تعارف لکھ رہا ہوں، ان میں سے بہت سی کتابوں پر شائع ہونے کے بعد پابندی لگا دی گئی تھی۔

1- النكبة الفلسطينية والفردوس المفقود
فلسطینی نقبہ اور جنت گمشدہ
The Palestinian Nakba and Paradise Lost
یہ کتاب فلسطینی مؤرخ عارف العارف کی تصنیف ہے، اس کی اہمیت نقبہ سے پہلے اور اس کے بعد آنے والے مراحل کے واقعات کے بارے میں مورخ کے اپنے ذاتی تجربے کی بنیاد پر دستاویزی شکل ہے، مورخ نے ان تمام واقعات کو قلمبند کیا۔ اس نے نقبہ کے حالات کو روزانہ کی بنیاد پر دیکھا، اس لیے اس کتاب کو ان لڑائیوں کا مفصل حوالہ سمجھا جاتا ہے، جو صہیونی افواج اور عرب سالویشن آرمیز کے درمیان ہوتی ہے، اس وقت کی عرب حکومتوں کے ناقص سیاسی جائزے، اور انہیں وہ چیزیں فراہم کرنے میں ناکام رہے، جو انہیں عسکری طور پر درکار تھیں۔
قابل ذکر ہے کہ العارف نے نقبہ میں جگہوں، ناموں، اور اعداد و شمار کا مکمل احاطہ کیا اور سالویشن آرمی میں شامل کچھ رضاکاروں کے ناموں کی دستاویز بھی شامل کی ہیں۔ العارف نے کتاب کے تعارف میں کہا، “یہ ہمارا فرض ہے کہ ہم اس کتاب کو ریکارڈ کریں۔ وہ واقعات جو پیش آئے جیسا کہ وہ پیش آئے، اور انہیں اس طرح یاد رکھنا جیسے وہ وقت سے پہلے ہیں، ان پر فراموشی کے دھاگے باندھ دیتے ہیں۔”
2 . فلسطيني بلا هوية
شناخت کے بغیر فلسطینی
“A Palestinian Without Identity”
یہ صلاح خلف کی کتاب ہے، جسے فرانسیسی مصنف ایرک رولو کے ابو عیاد صلاح خلف کے ساتھ کیے گئے انٹرویوز کا مجموعہ سمجھا جاتا ہے، اس میں فلسطینی عوام کی تاریخ میں مسلح جدوجہد کے ادوار، عرب حکومتوں نے فلسطینیوں کے ساتھ کیسے معاملات رکھے، ان پر بحث کی گئی ہے۔ سنہء 1948 کے نقبہ اور سنہء 1967 کے نقبہ کے بعد کے حالات پر یہ ایک مکمل جائزہ ہے۔ فرانسیسی مصنف ایرک رولو، جس نے صلاح خلف کا انٹرویو کیا، اس کے مطابق یہ کتاب قارئین کو فلسطینی عوام کی امنگوں، جدوجہد اور نفسیات کے ساتھ ساتھ اس دور میں فلسطینی مزاحمت کے نظریے اور تنظیم کے بارے میں روشناس کرانے کے لیے بہترین دستاویز ہے، مصنف صلاح خلف کا خیال ہے کہ فلسطینی شہریوں نے غلطی کی، جب انہوں نے عرب حکومتوں پر بھروسہ کیا، اور ساتھ ہی جب فلسطینیوں نے ملک کو آباد کاروں کے لیے خالی چھوڑ دیا، مصنف کا خیال ہے کہ انہیں ثابت قدم رہنا چاہئے تھا، چاہے اس کی کوئی بھی قیمت کیوں نہ ادا کرنی پڑتی۔ آخر میں ابو عیاد بیس سال سے فلسطینی مزاحمت کی غلطیوں اور نا اہلی کا اظہار کیا ہے۔

3- . کتاب: الثوريون لا يموتون أبدا
انقلابی کبھی نہیں مرتے
یہ کتاب فرانسیسی صحافی جارجس مالبرونوٹ کے فلسطینی کارکن حبش کے ساتھ کیے گئے ان انٹرویوز کا ایک سلسلہ ہے جو عرب خطے کے بگاڑ اور فلسطینی تقسیم کے دور میں فلسطینی جدوجہد اور اس عہد کے حقائق کے بارے میں ہے۔ اس کتاب میں حبش نے اپنی نقل مکانی اور خفیہ اقدامات کا تذکرہ لکھا ہے، جن میں ان آپریشنز کی تیاری کا احوال بھی شامل ہے، جیسے بشمول طیاروں کو ہائی جیک کرنا اور یرغمال بنانا۔ اس کتاب میں عرب حکومتوں کے ساتھ ان کے پریشان کن تعلقات کا تذکرہ بھی ہے، اور یاسر عرفات کے ساتھ ان کے اختلافات، اور عبدالناصر، حافظ الاسد، اور صدام حسین کے ساتھ ان کی ملاقاتوں کے بارے میں بھی ذکر موجود ہے، کتاب میں عرب نیشنلسٹ موومنٹ کے قیام کے بعد سے الحکیم کی جدوجہد کی تاریخ بھی بیان کی گئی ہے، اور لبنان میں جنگ کے آغاز اور کیمپ ڈیوڈ معاہدے کے ساتھ سیاسی واقعات، پھر سنہء 1982 میں لبنان پر اسرائیلی حملے کے بارے میں تفصیل سے بات کی گئی ہے۔ کتاب سے پتہ چلتا ہے کہ الحکیم اپنے آخری لمحات تک فلسطینی کاز کے ایک دیانتدار محافظ رہے، اور اس کے وفادار رہے جس کے لیے انھوں نے ساری زندگی جدوجہد کی، جو فلسطینیوں کے جائز حقوق کی پہچان تھی، اور فلسطینیوں کے جائز حقوق کا اعتراف تھا۔

4- كتاب التطهير العرقي في فلسطين
فلسطین میں نسلی تطہیر پر کتاب
یہ کتاب مصنف ایلان بابے Ilan Pappé کی تصنیف ہے، یہ کتاب ایک بالکل نئے ڈھنگ اور جرات مندانہ کتابوں میں سے ایک ہے جس نے فلسطین کے مسئلے کو بالکل ہی الگ ایک نئے انداز میں پیش کیا ہے، جو کہ نسلی تطہیر کی جنگ کے بارے میں دستاویزی شہادتوں کو ریکارڈ کے ساتھ لکھی گئی ہے، جسے اسرائیل آزادی کی جنگ سمجھتا ہے، ڈاکٹر رچرڈ فالک جو پرنسٹن یونیورسٹی میں بین الاقوامی قانون کے پروفیسر ہیں، اور فلسطینی علاقوں میں انسانی حقوق کے سابق نمائندے بھی رہے ہیں انہوں نے اس کتاب پر یہ تبصرہ لکھا ہے کہ “ایلان پاپے نے اسرائیل-فلسطینی تعلقات، اس کے حال اور مستقبل کے حوالے سے ایک حیرت انگیز کتاب لکھی ہے۔ پروفیسر پاپے نے اپنی تحقیق میں جس بصیرت سے کام لیا، اور یہ یقینا ًان کی ہمت بھی ہے کہ انہوں نے جرائم کی تفصیلات کے ساتھ اس کے اعداد و شمار کو تلاش کرنے اور ان کا ریکارڈ تک جمع کیا ہے، وہ غزہ میں ہونے والی جنگوں کو بھی عراقی صفائی کے جرائم کے نقطہ نظر سے دیکھتا ہے”۔
اس کتاب میں سنہء 1948 کی جنگ، دیہاتوں میں ہونے والے مظالم، اجتماعی پھانسیاں اور متاثرین پر ہونے والے تشدد کی دستاویزی معلومات شامل ہیں۔ ایلان پاپے کی کتاب بتاتی ہے کہ عربوں کو ان کے گھروں سے بے گھر کرنے کا خیال صہیونی رہنماؤں کے ذہنوں میں سنہء 1930 کی دہائی سے ہے۔ انیسویں صدی کے اواخر میں اس تحریک کے ابھرنے کے بعد سے خالصتاً یہودی قومی ریاست کا وژن صہیونی نظریہ میں مضبوطی سے جڑا ہوا ہے ۔ ایلان پاپے نے کتاب کا اختتام یہ کہہ کر کیا کہ اسرائیل نے بحیثیت ریاست اور ایک عوام کے طور پر فلسطینیوں کے خلاف جو کچھ کیا، اس پر اسرائیل کو افسوس نہیں ہے۔ جو چیز اس کتاب کو ممتاز کرتی ہے وہ یہ ہے کہ یہ سنہء 1947 اور سنہء 1948 میں فلسطین میں زمین کے مالکان کے خلاف ہونے والی نسلی تطہیر کی کارروائیوں کی ایک جامع تصویر پیش کرتی ہے، یہ ایک جرات مندانہ اقدام ہے جسے سائنٹیفکل انداز میں بائیں بازو کے ایک یہودی ناول نگار نے لکھا ہے۔ مورخ جس نے صیہونیت کے دعوؤں اور ان نظریات کی تردید کرنے کی کوشش کی جن کو اسرائیل نے اپنے لوگوں اور دنیا کے سامنے برسوں سے فروغ دینے کی کوشش کی، کتاب کی اہمیت اس لئے بھی بڑھ جاتی ہے کہ یہ ایک طرف صہیونی تحریک کے آرکائیوز اور فوجی آرکائیوز پر انحصار کرتی ہے اور دوسری طرف قتل عام میں زندہ بچ جانے والوں کی شہادتوں کا ذکر کرتی ہے۔

5- كي لا ننسى: قرى فلسطين التي دمّرتها إسرائيل سنة
1948 وأسماء شهدائها۔
ایسا نہ ہو کہ ہم بھول جائیں: فلسطین کے وہ گاؤں جنہیں اسرائیل نے سنہءء 1948 میں تباہ کر دیا تھا، ان کے شہداء کے نام
مصنف ولید الخالدی کی یہ کتاب فلسطین میں صہیونی کارروائیوں اور نسل کشی کی کارروائیوں کو جاننے کے لیے ایک حوالہ اور بنیاد سمجھا جاتا ہے، کیونکہ مصنف ولید الخالدی نے 418 فلسطینی دیہاتوں کی اعداد و شمار کی واقعاتی وضاحت فراہم کی ہے، جنہیں اسرائیل کی طرف سے باقاعدہ قبضے نے تباہ اور وہاں کے رہائشیوں کو بے گھر کر دیا تھا، پورے اعداد و شمار کے مطابق سنہء 1948 میں تباہی سے بچ جانے والے دیہات کی تعداد درجنوں دیہات سے زیادہ نہیں تھی، جب کہ باقی مکمل طور پر تباہ ہو گئے تھے، ان میں سے تقریباً 390,000 مغربی کنارے، غزہ کی پٹی اور پڑوسی عرب ممالک میں بے گھر ہو گئے تھے۔یہ کتاب اس وجہ سے اہمیت رکھتی ہے کہ مصنف نے 950 مرنے والوں اور زخمیوں کے نام درج کیے ہیں جو اپنے گاؤں کے دفاع میں شہید ہوئے تھے۔

6- تاريخ فلسطين الحديث
فلسطین کی جدید تاریخ
ڈاکٹر عبدالوہاب الکیالی کی یہ کتاب مسئلہ فلسطین کی تاریخ کے مطالعہ کے لیے ایک بنیادی ماخذ سمجھی جاسکتی ہے، یہ 11 سے زائد مرتبہ دوبارہ شائع ہوئی ہے،، یہ فلسطین کی تاریخ کا خلاصہ پیش کرتی ہے، اور فلسطین کی جدید تاریخ کے اہم واقعات پر ہے، جو سنہء 1881 میں پہلی صیہونی ہجرت سے شروع ہوئی، دوسری جنگ عظیم کے آغاز اور فلسطینی بغاوت کے خاتمے تک ہے، اس کتاب میں بنیادی عرب ذرائع کے علاوہ سرکاری خفیہ برطانوی دستاویزات اور خفیہ صہیونی دستاویزات پر بھی توجہ مرکوز کی گئی ہے۔

7- دليل الفصائل الفلسطينية
فلسطینی دھڑوں کے لیے رہنما
یہ فلسطینی مورخ عبدالقادر یاسین کی کتاب A Guide to the Palestinian Factions ہے، جو فلسطینی دھڑوں کی تاریخ اور ان کے ظہور کی وجوہات کے بارے میں ایک تعارفی مطالعہ ہے۔ اس کتاب کی اہمیت یہی ہے کہ یہ ہر فلسطینی دھڑے کے ظہور کی تاریخ اور اس کے نظریے کی تعریف بہت تفصیل سے فراہم کرتی ہے۔

8- الكفاح المسلح والبحث عن دولة: الحركة الوطنية الفلسطينية (١٩٤٩-١٩٩٣)
مسلح جدوجہد اور ریاست کی تلاش: فلسطینی قومی تحریک (1949-1993)
اس کتاب کے مصنف ڈاکٹر یزید صیغ، ہیں، انہوں نے سنہء 1948 میں ” ریاست اسرائیل ” کے قیام سے لے کر سنہء 1993 میں اوسلو معاہدے پر دستخط ہونے تک، معاصر فلسطینی قومی تحریک کی تاریخ کو سمیٹا ہے۔ آکسفورڈ یونیورسٹی نے اس کتاب کو اس کتاب کو فلسطینی تاریخ کی اس مسلح جدوجہد اور فلسطینیوں کی تاریخ پر سب سے اہم کام قرار دیا ہے، کیونکہ یہ یاسر عرفات کے آرکائیوز کے ساتھ ساتھ فلسطین لبریشن آرگنائزیشن تک کے تجزیئے اور اس کی تفصیلات فراہم کرتی ہے، اس کتاب میں چار سو سے زائد فلسطینی سیاست دانوں اور فوجی اہلکاروں کے انٹرویوز بھی ہیں، جس سے فلسطینیوں کے قومی کردار اور تشخص کو بحال کرنے اور فلسطینیوں کے بارے میں ایک نیا تصور پیش کرتے ہوئے ان کی مسلح جدوجہد کی اہمیت پر زور دیا گیا ہے۔

9- فلسطين أرض الرسالات السماوية
فلسطین آسمانی پیغامات کی سرزمین ہے۔
راجر گارودی کا یہ مطالعہ فلسطین اور اس کے عظیم تہذیبی کردار کو صیہونیوں کے خرافات اور ان کے نسل پرستانہ اور سیاسی عقائد سے بچا کر بحال کرنے کی کوشش کے طور پر پیش کیا گیا ہے، کہ یہ سرزمین ان کے لیے خدا کا تحفہ ہے۔ یہ کتاب صیہونی نظریے کے ظہور کی تاریخ اور نسلی امتیاز پر مبنی خطے کے مطالعہ سے متعلق ہے۔ یہکتاب سیاسی صیہونیت کو یہودی مذہب کے جوہر کے ساتھ غداری کے طور پر بے نقاب کرتی ہے۔ اس میں ثقافتی کردار کا تاریخی جائزہ ہے، جو فلسطین نے اپنی چار ہزار سال کی تاریخ میں ادا کیا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

10- “القضية الفلسطينية؛ خلفياتها التاريخية وتطوراتها المعاصرة”
“مسئلہ فلسطین: اس کا تاریخی پس منظر اور عصری پیشرفت”
اس کتاب کے مصنف ڈاکٹر محسن صالح نے مسئلہ فلسطین کو عام اور آسان انداز میں پیش کرنے کی کوشش کی ہے، تاکہ قاری کے لیے کسی بھی مرحلے کی جامع تصویر کو سمجھنا آسان ہو۔ یہ مطالعہ ایک دستاویزی سائنسی شکل میں اور آسان زبان میں لکھا گیا تھا، لیکن اس میں بالکل جذباتیت نہیں ہے بلکہ صرف انفارمیشن اور حقائق موجود ہیں۔
آخری بات، یہ کتب دراصل کسی نہ کسی طرح اس خطے سے وابستہ افراد کی تصانیف ہیں، جن میں مزہب ہر گز کلیدی کردار نہیں ہے، کیونکہ فلسطین تنازعہ کی ابتداء سے قریب ماضی تک یہ قضیہ خطے کے ہے مسیحیوں کے لئے بھی اتنا اہم رہا ہے جتنا مسلمانوں کے لئے رہا ہے، اور اس جدوجہد میں مسیحیوں کی جدوجہد میں حصہ شائد مسلمانوں سے زیادہ رہا ہے، اور اس کا ںغین ثبوت ایسی تمام دستاویزی کتابوں یا ناول لکھنے والے میں مسیحوں کی اکثریت کے علاؤہ عملی جدوجہد میں بھی ان کا اتنا کہ حصہ موجود ہے، بلکہ کچھ حقائق سے بات پور کتابیں مقامی یہودیوں نے بھی لکھی ہیں۔ یہ صرف فلسطین کی تاریخ بیان کرنے والی کتابیں ہیں جن سے اس فلسطین قضیہ کو سمجھنے میں بہت آسانی ہوسکتی ہے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply