تحریک رجوع الی القرآن

تحریک رجوع الیٰ القرآن
ڈاکٹر شعیب حمید
شیخ الہند مولانا محمود حسن رحمہ اللہ نے مالٹا کی اسارت کے بعد دارالعلوم دیوبند میں علماء کے ایک بڑے مجمعے سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ میں مالٹا کی قید میں امت مسلمہ کے زوال کے اسباب پر غور کرتے ہوئے اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ امت کی ذلت و رسوائی کی وجہ قرآن مجید کو چھوڑ دینا اور آپس کے اختلافات ہیں۔ اسی وجہ سے میں وہیں سے یہ فیصلہ کرکے آیا ہوں کہ اپنی باقی ماندہ زندگی قرآن مجید کی دعوت، اس کی نشر و اشاعت اور تعلیم و تدریس پر صرف کرونگا اور عوامی دروس قرآن کے حلقے جگہ جگہ قائم کرکے لوگوں کو ایک بار پھر قرآن سے جوڑنے کی تحریک شروع کرونگا اور جہاں تک آپس کے اختلافات کی بات ہے تو اسے کسی صورت برداشت نہیں کیا جائیگا۔
شیخ الہند رحمہ اللہ نے اپنی عمر کے آخری ایام میں اس منصوبے پر کام شروع بھی کیا لیکن زندگی نے وفا نہ کی اور رجوع الیٰ القرآن کی یہ تحریک جم نہ سکی ۔آپ کی وفات کے بعد آپ کے شاگردوں اور دیوبند کے کئی علماء نے دروس قرآن کے حلقے جگہ جگہ قائم بھی کیے لیکن اسے ایک تحریک کی شکل نہ دے سکے۔آج جب میں نظر دوڑاتا ہوں اور یہ معلوم کرنے کی کوشش کرتا ہوں کہ کیا رجوع الی ٰالقرآن کو صحیح معنوں میں عوامی تحریک کی شکل کہیں دی جا چکی ہے یا نہیں اور صرف تحریک ہی نہیں بلکہ کیا اس سے لوگوں کی زندگیاں بھی بدل رہی ہیں یا نہیں اور کیا لوگ اللہ، اس کے رسول ص اور قرآن مجید اور دین سے جڑ رہے ہیں یا نہیں، لوگوں کی زندگیاں سنت رسول ص اور صحابہ کے نقش قدم پر چل رہی ہیں یا نہیں تو بے ساختہ میری نگاہ ڈاکٹر اسرار احمد رحمہ اللہ اور ان کی برپا کردہ تحریک رجوع الی القرآن پر پڑتی ہے۔
ڈاکٹر اسرار احمد صاحب کے بارے میں یہ کہنا بالکل غلط نہ ہوگا کہ انہوں نے شیخ الہند رحمہ اللہ کی خواہش کو برعظیم میں عملی جامہ پہنانے کی ایک کامیاب کوشش کی ہے ۔ آپ نے ساٹھ کی دہائی میں لاہور سے اس تحریک کا آغاز انفرادی سطح پر جگہ جگہ حلقہ ہائے دروس قرآن سے کیا جس کا دائرہ وقت کے ساتھ ساتھ بڑھتا چلا گیا۔ 1972 میں مرکزی انجمن خدام القرآن لاہور کی بنیاد رکھی جس کا مقصد اعلیٰ علمی سطح پر قرآن حکیم کی نشر و اشاعت رکھا گیا تاکہ اس کے ذریعے سے اسلام کی نشاۃ ثانیہ کی راہ ہموار ہو سکے۔ آج ملک بھر میں اس ادارے کی کئی شاخیں موجود ہیں جس کے تحت جگہ جگہ یعنی کراچی، اسلام آباد، لاہور، جھنگ، فیصل آباد وغیرہ میں قرآن اکیڈمیز قائم ہیں جس میں جدید تعلیم یافتہ حضرات ایک سالہ اور دو سالہ کورسز کے ذریعے دین کے بنیادی علوم حاصل کررہے ہیں اور اب تک سینکڑوں کی تعداد میں لوگ یہ کورسز کر چکے ہیں جس سے ایک طرف ان جدید تعلیم یافتہ لوگوں کی دینی علوم کی بنیادیں بھی پختہ ہوجاتی ہیں، دوسری طرف ان کی زندگیوں میں ایک نمایاں تبدیلی واقع ہوجاتی ہے، جسے ہر شخص محسوس کر سکتا ہے اور تیسری جانب یہ لوگ قرآن اور دین کے ایک اچھے داعی بن کر سامنے آتے ہیں جنہیں بیک وقت جدید و قدیم علوم سے مناسبت ہوتی ہے۔
ڈاکٹر اسرار احمد صاحب نے اسی کی دہائی میں رمضان المبارک میں نماز تراویح کے ساتھ پورے قرآن مجید کا ترجمہ اور مختصر تفسیر کا آغاز بھی کیا جو اپنی مثال آپ ہے۔ اسی دورہ قرآن کا یہ اعجاز ہے کہ ایک طرف 1998 میں آپ کا ریکارڈ کردہ پورا دورہ ترجمہ قرآن نہ صرف مشہور و مقبول ہوا بلکہ ہزاروں لوگوں کی زندگیاں بدلنے کا سبب بنا اور آج بھی اس کے اثرات و برکات قائم و دائم ہیں۔دوسری جانب ڈاکٹر صاحب کے رمضان میں اس دورہ قرآن نے تحریک کی شکل اختیار کی اور آج بھی آپ کے بیشمار شاگرد اور آپ کی قائم کردہ قرآن اکیڈمیز کے فارغ التحصیل حضرات ملک بھر میں ہر رمضان المبارک میں دورہ ترجمہ قرآن مع نماز تراویح کا یہ عظیم کام انجام دے رہے ہیں جس سے ایک طرف لوگ بڑی تعداد میں قرآن اور دین سے متعارف ہو رہے ہیں تو دوسری جانب ایک بڑی تعداد لوگوں کی ایسی ہے جن کے فکر و عمل میں مثبت تبدیلی آرہی ہے۔
ڈاکٹر صاحب کی اسی تحریک رجوع الی القرآن کے بطن سے 1975 میں اعلائے کلمۃ اللہ کیلئے تنظیم اسلامی بھی وجود میں آئی جس کے وابستگان کی تعداد اب ہزاروں میں ہے۔اس کے علاوہ بھی ڈاکٹر صاحب کی قرآن مجید اور دین کے ضمن میں بیشمار خدمات ہیں جو کسی تعارف کی محتاج نہیں لیکن سب سے بڑی بات یہ ہے کہ آپ نے رجوع الی القرآن کو ایک تحریک کی شکل دے کر ایک عظیم کارنامہ سرانجام دیا ہے جس کی عصر حاضر میں دوسری مثال نہیں۔ گو کہ ڈاکٹر صاحب کی برپا کردہ یہ تحریک رجوع الی القرآن تاحال اپنے اثرات بڑے پیمانے پر ظاہر نہیں کر چکی ہے اور اس کیلئے ابھی مزید بہت محنت، جدوجہد اور جانی و مالی قربانیاں درکار ہیں لیکن اب تک کی کارکردگی تسلی بخش ہے جس سے یہ امید کی جا سکتی ہے کہ وہ وقت دور نہیں جب گھر گھر گلی گلی گاؤں گاؤں اور شہر شہر میں عوامی دروس قرآن اور دورہ ترجمہ قرآن وغیرہ کے ذریعے سے ایک عظیم انقلاب لوگوں کی انفرادی و اجتماعی زندگی میں برپا ہوگا اور پاکستان اور دنیا بھر میں دین کی دعوت اور دین کے غلبے کی راہ ہموار ہوگی انشاءاللہ۔

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply