جگتوں کا تاریخی مطالعہ۔۔ حسنین چوہدری

جگتوں کی تاریخ بہت پرانی ہے۔ موہنجودڑو  اور ہڑپہ کے کھنڈرات سے کھدائی کے دوران جو سلیں ملی ہیں ان پر بھی ٹھنڈی اور پھیکی جگتیں کندہ ہیں۔تاریخ میں سب سے پہلی جگت کس نے لگائی، کچھ پتا نہیں۔۔ ” سید خبط حسن ” اپنی کتاب قاضی کے مزار میں لکھتے ہیں کہ پرانے زمانے کے فراعین مصر کی لاشیں ممی فائی کر دی جاتی تھیں،ان پر ایک خاص مسالہ لگا دیا جاتا تھا، جس سے ممی محفوظ ہو جاتی ،تاریخ کی سب سے پہلی جگت تب لگی جب ایک فرعون کی لاش پر مسالہ لگایا جا رہا تھا  اور مزدور نے زیادہ مسالہ لگا دیا تو سپرنٹنڈنٹ نے سب سے پہلی جگت لگائی۔۔۔
” مریں، اینا مسالہ لا دتا اے ، فرعون فرائی کرنا اے؟؟”

دنیا  کے ہر خطے میں جگتیں ماری جاتی رہی ہیں اور اب بھی ماری جاتی ہیں لیکن ہر جگہ ان کو ایک جیسا مقام نہیں ملا۔ اگر کوئی یورپ یا امریکہ میں جگت لگائے تو اسے بلا چوں چراں ‘ جیروم  کے جیروم ‘ مان لیا جاتا ہے اور انگریز تعریف کرتے نہیں تھکتے اردو میں بھی جگت نگاروں کو خاص مقام حاصل ہے.۔پنجابی زبان میں جگتوں پر ید طولی رکھنے والے کا معاشرے میں کوئی مقام نہیں بلکہ لوگ اسے یہ جملہ کہہ کر تضحیک کا نشانہ بناتے ہوئے چل دیتے ہیں۔۔
” دفعہ کر ، بھنڈ ہیگا اے ”

جگتوں کے انسائیکلو پیڈیا سے ہم نے جگتوں کا مفصل مطالعہ کیا تو ہم پر بہت سے راز آشکار ہوئے۔ فیروز الجگتیات کے مولف لکھتے ہیں کہ جگتوں کی سب سے پھیکی قسم وہ ہوتی ہے جو ” ایدھا منہ ویکھ لو ” سے شروع ہوتی ہے۔
سکندر بھی اپنی فوج کا خوب چیزہ لیا کرتا تھا، تاریخ دانوں کے مطابق اگر اس کی ٹائمنگ ( جگتوں کی ) اچھی نہ ہوتی تو وہ کبھی یونان سے باہر کا علاقہ نہ فتح کر پاتا، سکندر کے ایک دستے کےسپہ سالار کو اپنے پاس ایک تھیلا رکھنے کی عادت تھی،اس میں وہ اپنا ضروری سامان رکھا کرتا،ایک بار سکندر دورے پر آیا،تو سپہ سالار نے کندھے پر وہی تھیلا لٹکایا ہوا تھا، سکندر نے فورا جملہ کس دیا۔۔
” مریں ! جنگ تے آیا ایں یا جنج لٹن آیا ایں “…

گستاخ احمد یوسفی نے اس جگت کو آرکیالوجیکل شواہد فراہم کر کے پھیکا ثابت کیا ہے۔۔۔بقول یوسفی یہ جگت دراصل یوں تھی،
” مریں جنگ تے آیا ایں یا برف لین آیا ایں ”
” مریں ! جنگ تے آیا ایں یا برف لین آیا ایں ”

انگریز مورخ ول ڈیورانٹ لکھتے ہیں کہ جنگ سے پہلے سکندر روایتی فوجی انداز کی بجائے ایسے صفیں درست کرواتا تھا۔۔
” بھرررر ! مولا الہی خیر ، بھاگ لگے رین “۔۔. چند ضعیف روایات کے مطابق وہ اپنے پاس چمڑے کا چموٹا بھی رکھتا تھا، دارا کی گرفتاری سے قبل سکندر نے آدھا پونا گھنٹہ  اس کا چیزہ بھی لیا،ہمارے پاکستان میں ملکہ ہانس کے علاقے میں کسی نے اسے قیمہ کریلے کھلا دیے تھے،سکندر نے ہمارے خان صاحبان کی طرح آہا کر کے منہ سے چٹخارے کا پٹاخہ مارا ۔۔ جس سے اس کی موت ہو گئی۔
حق مغفرت کرے .

اگر دو چار لوگوں میں آپکی عزت ہو تو وہاں بس دو تین پھیکی جگتیں ارشاد فرما دیں۔۔ مجھے یقین ہے آئندہ وہ آپکی عزت کا تکلف نہیں کریں گے۔
گستاخ احمد یوسفی نے تو یہاں تک دعوی کر رکھا ہے کہ یونانی شاعر ہومر کا نام ہومر اس لیے پڑا کہ اس کی سینس اف ہیومر بہت شاندار تھی،لیکن یہ دلیل بودی ہے۔ ایسے تو کوئی بھی دعویٰ  کر سکتا ہے کہ دانتے کے چالیس دانت تھے، اس لیے اس کا نام دانتے پڑ گیا۔

انٹارکٹیکا کے اسکیمورز کے متعلق خیال آتا ہوگا کہ شاید وہ علاقے کی مناسبت سے ٹھنڈی جگتیں مارتے ہوں لیکن حقیقت اس کے برعکس ہے۔۔
معروف تاریخ دان و کامیڈین امان اللہ خان سے میں نے سنا۔۔ کہ دنیا کے کسی شہر میں چلے جائیں اگر کہیں آپ گاڑی سے ٹکرا جائیں تو گاڑی والا گاڑی میں بٹھا کر ہسپتال لے کر جاتا ہے،جوس وغیرہ پلاتا ہے اور معذرت کرتا ہے جبکہ یہی گاڑی اگر لاہور میں کوئی کسی پیدل شخص سے ٹکرا جائے تو گاڑی والا بالکل شرمندہ نہیں ہوتا۔۔۔گاڑی سے نکل کر مضروب و زخمی شخص کو سہارا بھی نہیں دیتا بلکہ گاڑی سے سر نکال کر جگت کرتا ہے۔۔۔
” اٹھ کھلو ! ہن بم وج گیا اے “۔۔

Advertisements
julia rana solicitors london

سید خبط حسن نے ہی اپنی کتاب ” اقوام عالم میں جگتوں کا ارتقا ” میں ایک واقعہ لکھا ہے،یہ واقعہ 4200 قبل مسیح میں بابل سے ملنے والی لوحوں پر کنندہ تھا۔۔۔.
سومیریوں نے اس وقت نئی نئی چھری ایجاد کی تھی..ایک سومیری نے دوسرے سے کہا۔۔
” پائی جی ! کیا کمال شے بنی ا۔۔۔.بہت تیز چھری اے ! ”
دوسرے سومیری نے جواب دیا، ” اچھا ! بہت تیز اے ؟ چل انگل وڈ کے وکھا “۔۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply