• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • ریاستی پالیسیوں کو اہمیت دی جاتی تو یہ ظلم نہ ہوتے ۔۔گل بخشالوی

ریاستی پالیسیوں کو اہمیت دی جاتی تو یہ ظلم نہ ہوتے ۔۔گل بخشالوی

ریاستی پالیسیوں کو اہمیت دی جاتی تو یہ ظلم نہ ہوتے ۔۔گل بخشالوی/ وزیراعظم عمران خان کہتے ہیں کہ “سیالکوٹ میں مشتعل گروہ کا ایک کارخانے پر گھناؤنا حملہ اور سری لنکن منیجر کا زندہ جلایا جانا پاکستان کے لیے ایک شرمناک دن ہے۔ میں خود تحقیقات کی نگرانی کر رہا ہوں اور دوٹوک انداز میں واضح کر دوں کہ ذمہ داروں کو کڑی سزائیں دی جائیں گی۔”

لیکن عمران خان سے کوئی پوچھے کہ کیا پاکستان میں یہ اپنی نوعیت کا پہلا ظلم ہے کیا اس سے پہلے ایسے درد ناک مظالم نہیں  ڈھائے گئے؟ ۔اگر وہ نہیں جانتے تو بھارت اور کشمیر میں مسلمانوں پر ظلم و تشدد کا رونا رونے والے سب جانتے ہیں کہ اپریل 2017 میں خیبر پختونخوا میں عبدالولی خان یونیورسٹی کے طالب علم مشعال خان کو اسی یونیورسٹی کے طلبہ نے توہین مذہب کا الزام لگا کر مشتعل ہجوم کی صورت میں بہیمانہ تشدد کا نشانہ بنا کر قتل کر دیا تھا، تحقیقات میں توہین مذہب کے الزامات جھوٹے نکلے تھے ۔

2014 میں پنجاب میں مشتعل ہجوم نے ایک مسیحی جوڑے کو توہین مذہب کے الزام میں تشدد کرکے جان سے مار ڈالا اور سفاکی سے ان کی لاش کو آگ لگا دی۔

مارچ 2013 میں 7 ہزار افراد پر مشتمل مشتعل ہجوم نے بادامی باغ لاہور کی جوزف کالونی میں مسیحی برادری کے 150 گھروں، 18 دکانوں اور دو گرجا گھروں کو آگ لگا دی۔ واقعہ ایک مسیحی شہری پر توہین مذہب کے الزام کے بعد پیش آیا ،تحقیقات پر یہ واقعہ ذاتی رنجش کا نتیجہ نکلا۔

2012 میں بہاولپور میں ذہنی مسائل کے شکار ایک شخص کو مشتعل ہجوم نے توہین مذہب کے الزام میں پولیس اسٹیشن سے نکال کر سرعام آگ لگا دی۔

نومبر 2020 میں خوشاب میں بینک منیجر کو گارڈ نے توہین مذہب کا الزام لگا کر گولی ماردی۔ میڈیا رپورٹس میں بتایا گیا کہ گارڈ نے یہ قتل ذاتی رنجش کی بنا پر کیا۔

نومبر 2021 میں مشتعل ہجوم نے چارسدہ پولیس اسٹیشن کو آگ لگا دی۔ تھانے میں ایک شخص موجود تھا جس پر توہین مذہب کا الزام تھا ۔

اگست 2020 میں رحیم یار خان میں مشتعل ہجوم نے ایک مندر پر حملہ کردیا اور املاک کو نقصان پہنچایا۔

کیا ثبوت ہے کہ پریانتھاکمار توہین مذہب کا مرتکب ہوا تھا؟۔۔

فیکٹری مالک کے مطابق پرانتھا کمارا کے حوالے سے کو ئی شکایت موصول نہیں ہوئی تھی۔
پا ک فوج کے چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے اس واقعے کی شدید مذمت کرتے ہوئے اسے انتہائی شرمناک واقعہ قرار دیا اور کہا ہے کہ ایسے ماورائے عدالت اقدام قطعاً ناقابل قبول ہیں۔ قمر جاوید باجوہ صاحب  محب وطن اور دین مصطفی کے حقیقی علمبردار ناصرف آپ پر  بلکہ دین ِ مصطفٰی کی توہین  پر خون کے آنسو  بہا   رہے ہیں، آپ کس سول ایڈمنسٹریشن کو ہر ممکن مدد فراہم کر رہے ہیں اگر سول ایڈمنسٹریشن میں ظالم کو کیفر کردار تک پہنچانے کا احساس ہوتا، عدالتوں میں زندہ ضمیر جج ہوتے ،ظالم کو سزا اور مظلوم کو انصاف ملتاتو ایسے قومی مجرم کبھی سر نہ اُٹھاتے۔

واقعے کے عینی شاہد  محمد بشیر کے مطابق صبح ہی سے فیکٹری میں افواہیں گرم تھیں کہ پریا نتھا کمارا نے توہین مذہب کی ہے۔ یہ افواہ بہت تیزی سے فیکٹری میں پھیل گئی ملازمین کی بڑی تعداد نے پہلے باہر نکل کر احتجاج کیا۔  پھرواپس فیکٹری کے اندر داخل ہوئے اور پریا نتھا کمارا پر نہ صرف تشدد کر کے گھسیٹتے ہوئے سڑک پر لائے اسے قتل کیا ، لاش کو آگ لگا دی اور تماش بینوں نے ویڈیو بنا کر سوشل میڈیا پر ڈال کر اسلامی جمہوریہ پاکستان کو عالمی د نیا میں بدنام کرنے کا شیطانی فرض ادا کیا۔ اور رہی سہی کسر سکرین میڈیا کے اینکر نکال رہے ہیں۔ وہ دنیا کو بار بار بربریت کی ویڈیو دکھا کر اپنی شرمناک ذمہ داری سر انجام دے رہے ہیں۔

مریم نواز شریف نے کہا ہے کہ سیالکوٹ میں ہونے والے “دل خراش واقعے نے دل چیر کر رکھ دیا “۔

Advertisements
julia rana solicitors london

کاش تمہارا دل ماڈل ٹاؤن کے دل خراش سا نحے پر  بھی چِیرا   ہوتا تو آج سول ایڈ منسٹریشن کی آنکھیں کھلی ہوتیں ، عدالتوں میں بیٹھے جج خون کے آنسو رو رہے ہوتے در اصل لاشوں پر نمبر گیم کھیلنے والوں کی سیاست ہی کی وجہ سے وطن عزیز میں ظلم اور بربریت کا کھیل جاری ہے ۔کاش ریاست کی پالیسیوں کو اہمیت دی جاتی تو ایسے المناک  مظالم نہ ہوتے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply