توازن اور عدل ہی دو ایسی قدریں ہیں ، جو قوموں کی ترقی و بقا کی ضامن ہیں۔ افسوس ہم دونوں ہی کھو چکے۔ یا شائد ابھی اسکی جانب سفر بھی شروع نہیں کر پائے۔
بظاہر یوں لگتا ہے، یا لگا دیا جاتا ہے کہ پاکستانی معاشرے میں دو طبقات پائے جاتے ہیں۔ ایک وہ جو انتہائی کٹر مذہبی، قدامت پرست، اور جنونی ہیں۔ اور دوسرے وہ جو انتہائی آزاد خیال، جدیدیت پرست، اور جنونی ہیں، جی ہاں جنون پرستی دونوں میں مشترک ہے۔ مگر حقیقت کچھ اور ہے۔ ایسا کہیں بھی نہیں ہوتا کہ کسی بستی کے سب انسان ایک ہی ڈھنگ پر سوچنے اور جینے لگیں اور جب تک رب کائنات کا پیدا کردہ انسان بستیوں میں موجود ہے، وہ کبھی بھی یک رخا نہیں ہو سکتا۔
تو حقیقت یہ ہےکہ ان دو جنونی طبقہ فکر کے علاوہ پاکستان میں اپنے اپنے علاقے، روایات، تعلیم اور تبدیلی کی صلاحیت کے لحاظ سے معاشرتی سوچ کے بہت سے ایسے زاویے ملتے ہیں جن کو کسی ایک خانے میں فٹ کرنا کسی بھی طرح سے قرین انصاف نہیں ہے۔ مگر ہو یہ رہا ہے کہ کوئی بھی معاشرتی یا سماجی مسئلہ سامنے آتا ہے ، یہ دونوں سرخیل گروہ خم ٹھونک کر آمنے سامنے آ جاتے ہیں، اور ایک دوسرے پر طعن و تشنیع، الزام و دشنام کی ایسی بارش شروع کر دیتے ہیں کہ اکثر اوقات مسئلہ پیچھے رہ جاتا ہے اور بیانیے کا کیچڑ سب کو لت پت کردیتا ہے۔
آج کل جو مسئلہ زیر بحث ہے وہ ایک یونیورسٹی کے ممتحن کا ایک ایسا سوال پوچھنے سے متعلق ہے جس کا کوئی سر یا پیر نہیں۔ سوال یہ تھا کہ اپنی بہن پر مضمون لکھیے، اور اسکی عادات و اطورا ور جسمانی ساخت کی تفصیل دیجیے۔ اب اس سوال پر جن زاویوں سے بحث ہونا چاہیے تھی وہ یہ تھے کہ آیا ایسا سوال طالبعلم کی تعلیم و تربیت کے لیے ناگزیر تھا، یا یہ کہ سوال اپنے ماحول اور معاشرے سے ہم آہنگ تھا، یا پھر یہ کہ اس سوال کا انداز ابہام و تشکیک پیدا کر رہا تھا یا نہیں؟َ۔
مگر جونہی یہ سوال اور اس سے متعلق مسئلہ “اہل جنون” کے ہاتھ لگا وہ اسکو اپنے اپنے نقطہ نظر کے دھاگے سے باندھے اڑائے لیے پھرے۔ اور ایک ایسا مسئلہ جو یونیورسٹی کے امتحانی پرچوں کو ترتیب دینے کے نظام، ملکی نظام تعلیم، اور نااہلوں کی بھرتیوں پر تنقید و اصلاح کی طرف لے جاتا، وہ قوم کو ایسے مورچوں میں بانٹ گیا جو اپنی اپنی کمین گاہ میں چھپے دوسروں پر الفاظ و افکار کی گولہ باری کر رہے ہیں۔
اس سوال کا حمائتی طبقہ اس بات پر اپنا سارا زور صرف کرتا رہا کہ عورت کی عزت و آزادی کی سارا دارومدار اس بات پر ہے جب معاشرے میں عورت کے بارے میں ہر بات کو بالکل اسی طرح لیا جائے جیسے کہ باقی روزمرہ کی باتیں ہوتی ہیں۔ اور عورت کو انسان سمجھنے کی شرط اس بات پر انحصار کرتی ہے کہ اسکے جسم و کردار کو بھی برسر عام زیر بحث لانے کی آزادی ہو۔ سوال چونکہ بہن کا تھا، تو اس بات کا خیال بھی کیا گیا کہ وزیرستان کے آخری گاؤں سے لیکر کراچی کے ساحل تک ، کسی بھی بہن سے ہونے والا ظلم اسی دلیل کے لیے استعمال کیا جائے۔ اس طبقے کا خیال یہ ہے کہ جو لوگ اس سوال کو غیر مہذب سمجھ رہے ہیں، وہ انتہائی جاہل، اور ایسے خیالات کے مالک ہیں، جو اپنی بہن اور ڈھارے میں بندھی بھینس میں کوئی فرق روا نہیں رکھتے۔ آپ غور کیجیے، ہمارا دانشور ایک سوال کی حرمت کو ثابت کرنے کے لیے ان کروڑوں بھائیوں کی بہن کو خود حیوانیت کا درجہ عطا کر دیتا ہے، جو محض اپنی بہن کے بارے میں ایک اوچھے سوال کا جواب نہیں دینا چاہتے۔
اب دوسری جانب آ جایئے، جہاں روایت و اسلام کی خدمت ہو رہی ہے۔ حیرت ہونا تو نہیں چاہیے کہ ہمارے ہاں مذہبی روایت کے تحفظ کی خاطر منبر و محراب سے ایسی گفتگو روا سمجھی جاتی ہے جو شائد کسی قحبہ خانے میں بھی معیوب ہو، کہ وہاں بھی باپ کے رشتے کا نہیں تو ماں کے رشتے کا احترام ہوتا ہے۔
مگر مجھے پھر بھی حیرت ہے کہ اس سوال کے مخالف طبقے نے، اسلام و معاشرتی رویوں کے تحفظ کی خاطر ایسی دلیلیں اختیار کیں جو کم سے کم الفاظ میں بھی بہن کے بارے میں سوال کے جواب میں بہن کی گالی بن گئیں۔ مجھے بتائیے کہ جو اس سوال کی حمائت کر رہا ہے، اس کا رد کرنے کے لیے اگر آپ اس سے اسکی بہن کے خدوخال اور بدنی ساخت کے بارے میں ، ایک اوچھے کی طرح سوال کرتے ہیں، تو اس کو اور میں کیا نام دوں؟ اگر آپ اس طبقے کے سرخیل ہیں جو بہنوں کی عزت کروانا چاہتا ہے تو کسی بھی دوسرے کی بہن کے بارے میں ننگے الفاظ آپ کی نوک زبان سے ادا ہو کر صحیفہ و دلیل کیسے بن گئے؟
پاکستانی معاشرے کا وہ ذہن ،جو نہ تو مذہب کے نام پر کسی دوسری تہذیب کی عادات کو سنت سمجھتا ہے، اور نہ ہی ترقی کے نام پر مغرب کی ہر بات پر اپنا سر زانو سے جوڑ دیتا ہے، ان دونوں طبقات کی اس تبریٰ بازی کو کسی بھی انداز میں سنجیدہ نہیں لیتا۔ یہی وجہ ہے کہ آج بھی پاکستانی معاشرے کی اپنی ایک شناخت ہے اور اپنی روایات ہیں۔
سادہ دلوں کے لیے مثال کے ساتھ بتانا چاہتا ہوں کہ اگر کوئی شخص اپنی بہن کے بارے میں کسی سوال کا جواب نہیں دینا چاہتا تو اسکا ہرگز مطلب یہ نہیں کہ وہ اپنی بہن کو طویلے میں باندھتا ہے، بلکہ ہو سکتا ہے، اگلی مرتبہ آپکی آزاد خیال بیوی کا سالانہ چیک اپ وہی خاتون ڈاکٹر کر رہی ہے، جو اس بھائی کی وجہ سے میڈیکل کی تعلیم حاصل کر سکی۔ اور اسکا قدامت پسند بھائی اسکو روزانہ پانچ سال تک پک اینڈ ڈراپ دیتا رہا، تاکہ وہ بغیر کسی “گھٹیا سوال” کے اپنی تعلیم جاری رکھ سکے۔
اسی طرح اگر کوئی شخص یہ رائے رکھتا ہے کہ بہنوں کے بارے میں دوست احباب یا عام محفل میں زیادہ کھلی ڈلی بات چیت ہونے سے بہنوں یا عورتوں کو ایک درجہ آزادی و برابری کا احساس ہوتا ہے، تو اسکا ہرگز یہ مطلب نہیں، کہ اس شخص کی بہن کے بارے میں آپ قحبہ خانے سے بھی گری زبان میں گفتگو کر سکتے ہیں۔ یا وہ شخص اپنی بہن کو بغیر نکاح کے کسی کے ساتھ بھی رہنے کی اجازت دینے پر بھی آمادہ ہے۔ ایسا کہہ یا سوچ کر محض آپ اپنی تربیت کی خامی بیان کر رہے ہوتے ہیں۔
یاد رکھیئے، بحث و تکرار میں جب بھی بات ایک دوسرے کی بہن تک پہنچے تو نقصان اس عورت کا ہوتا ہے جس کی عزت کی جنگ آپ دونوں لڑرہے ہیں۔ میری اور تیری بہن میں فاصلہ ایک عورت کا ہے۔
اور اب آخر میں میں اس سوال کی جانب آتا ہوں اور مختصراً عرض کرتا ہوں کہ راقم کو عرب ممالک اور مغربی ممالک میں جانے اور رہنے کا اتفاق ہوا ہے۔ اور خاص طور پر یورپی لوگوں کے ساتھ گھریلو اور خاندانی معاملات کو دیکھنے اور پرکھنے کا موقع ملا ہے۔ یہ بات دھیان میں رہے کہ یوروپی ممالک خصوصاً یونان، فرانس، اٹلی وغیرہ معاملات جنس و محبت میں باقی مغربی اقوام سے بھی کہیں زیادہ بے باک و بے شرم ہیں۔ میں نے ان کے درمیان رہ کر جو کچھ دیکھا ہے، اس کی روشنی میں پوری دیانت داری سے عرض کرتا ہوں کہ ایسا سوال وہاں کی کسی محفل میں کسی کی بہن کے بارے میں نہیں پوچھا جا سکتا۔ یہ کم سے کم الفاظ میں بد تہذیبی کہلائے گی اور پوچھنے والا محفل سے راندہ کردیا جائے گا۔
دوستو! چاہے آپ کا رجحان دائیں ہے یا بائیں، چاہے آپ اس سوال کو جائز سمجھتے ہیں یا ناجائز، یہ آپ کا حق ہے کہ آپ ایک رائے رکھیں اور اسکی ترویج بھی کریں۔ مگر ایسا کرتے وقت ایک توازن، ایک عدل ، اور ایک شائستگی ۔
افسوس، ہم توازن والی بات کہیں بھی نہیں کر پا رہے۔ ہم پورے اخلاص کے ساتھ صرف اپنا سمجھا ہی سچ سمجھ رہے ہیں۔ کالے اور سفید کے درمیان پوری قوس قزح بکھری ہے، مگر ہم نا آشنا ہیں۔
رب کائنات ہمیں توازن فکر عطا کردے۔ آمین۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں