میاں نواز شریف کے بوجھ سے نجات حاصل کرنے والے سب ذلیل و رسوا ہو گئے ۔ چوہدری نثار کہتا تھا کہ 34 سال نواز شریف کا بوجھ اٹھایا اور آج صوبائی اسمبلی میں اپنا تھوکا چاٹنے گیا لیکن حلف نہ اٹھا سکا ۔
میاں نواز شریف نے مالکان کے ساتھ مل کر محترمہ بینظیر بھٹو کا ووٹ بار بار چوری کیا اور بار بار اسکی قیمت بھی ادا کی ۔یوسف رضا گیلانی کے خلاف کالا کوٹ پہن کر میاں نواز شریف نے جو اخری کردار ادا کیا اسکی قیمت بھی چکانا پڑی ۔
اس ساری کہانی جو ایجنسیوں کے فخر میاں نواز شریف کو پیپلز پارٹی کے خلاف کھڑا کرنے سے شروع ہوئی اس کا اختتام ہم ایجنسیوں کی نئی سوغات کے دور میں دیکھ رہے ہیں ۔میاں نواز شریف کو جو عزت ،احترام اور وقار حاصل ہوا ہے ہم سمجھتے ہیں وہ پاکستان سے انکی محبت اور پاکستان کی ترقی کیلئے انکے اخلاص کا پھل ہے ۔
آج جھوٹ دھوکہ اور فراڈ کے زریعے پاکستان پر مسلط کردار عوام کے سامنے اس طرح ننگے ہیں کہ کوئی دن جاتا ہے کہ سر دستار سے خالی ہو جائیں گے ۔جو جو اس ملک کے ساتھ فراڈ میں استعمال ہوا رسوائی سب کا مقدر بنے گی ۔کسی کی کوئی عزت نہیں رہی بھلے وہ رو رو کر سوغات کو ریاست مدینہ کا والی بتانے والا نوسر باز مولوی طارق جمیل ہو یا کوئی ثاقب نثار یا کھوسہ ۔
چوہدری نثار تو ایک معمولی سا مہرہ ہے یہاں تو بساط پر چالیں چلنے والے شہ مات کا سامنا کر رہے ہیں ۔بے بسی کا یہ عالم ہے میاں شہباز شریف درخواست ضمانت دائر کرنے سے پہلے ٹکٹ خرید لیتے ہیں یعنی بساط بچھانے والوں نے بندوبست کیا تھا کہ “بھائی کو مناؤ ” انکار پر راستہ روک لیا جاتا ہے اور پھر آج آئی ایس آئی سیکرٹریٹ کا دورہ بھی ہو گیا ۔
مسئلہ یہ ہے عاشقی میں عزت سادات جا چکی ہے ۔خلاف آئین ریاست کی خارجہ و داخلہ پالیسوں کی ملکیت کی جو لت پڑی ہے یا جو عشق لاحق ہے وہ جان لیوا ہے ۔ اب جانا ہی ہو گا ۔ آگ کا دریا ہے اور تیر کر جانا ہے ۔ حالات جس قدر تیزی کے ساتھ ہاتھوں سے نکل رہے ہیں جعلی معاشی ترقی کے بیانات کسی صورت نہیں روک پائیں گے ۔
معاشی بحران کی وجہ سے ابھی تو امریکی خود اور عالمی مالیاتی اداروں کے زریعے گردن مڑوڑ رہے ہیں ہمیں تو خوف اس وقت سے آ رہا ہے کہ چینی قرضوں کی ادائیگی بھی تیزی سے قریب آ رہی ہیں چینیوں نے گچی مروڑنی شروع کر دی تو کہاں ہے کوئی جائے پناہ ؟سعودی عرب ،روس،ترکی ہے بساط عالم میں کوئی دوست ‘ بھارتیوں کو پر امن رکھنے کیلئے بھارتی قومی سلامتی کے مشیر سے ملاقاتیں بیرونی ذرائع بریک کرتے ہیں ۔ امریکیوں کو زمینی اور فضائی رسائی دینے کی خبریں واشنگٹن پوسٹ بریک کرتا ہے ۔یہ بے بسی نجانے کیا کیا فیصلے کرا رہی ہے ۔ملک و قوم کی قسمت کے فیصلے ہو رہے ہیں ۔ پچاس سالہ افغان اور ستتر سالہ کشمیر پالیسی کا جنازہ پڑھا جا رہے ہیں اور عوام کو خبر ہی نہیں کہ انہیں سراب کا اسیر بنایا گیا تھا ۔جو دکھایا خواب تھا جو سنایا افسانہ تھا ۔
ملک بھکاری بن گیا ۔کہیں روزویلٹ ہوٹل نیلام ہو رہا ہے ۔ پی آئی اے کی بین الاقوامی پروازوں پر پابندی ہے ۔عالمی ثالثی عدالت ریکو ڈیک کے معاملہ پر اربوں ڈالر کا جرمانہ کر چکی ہے اور ادائیگی کیلئے جیب میں ڈھیلا نہیں ۔یورپین یونین ٹیکسٹائل کوٹہ ختم کرنے کی قرارداد منظور کر رہی ہے ۔ برطانیہ مخصوص فنڈز کی ترسیل پر پابندی لگا رہا ہے ۔فنانشل ایکشن ٹاسک فورس اپنے ناخن اور دانت تیز کر رہی ہے اور یہ سوغات کے ساتھ اجلاس کر کے نواز شریف کو پیغام دیتے ہیں “ہم نہیں بدلنے والے ”
نہ بدلو۔۔۔۔ ملک اور قوم پر جو آسیب کا سایہ مسلط کیا ہے اسکی چھاؤں میں سب کے سب آئیں گے ۔ یہ دنیا ہے یہاں ہر چیز پلٹ کر آتی ہے ۔جس طرح مہذب دنیا چلتی ہے وہی راستہ اپنائیں گے تو بچیں گے ۔ہم نہیں سمجھتے کہ آصف علی زرداری ،مولانا فضل الرحمن ،شہباز شریف اور نواز شریف دیوار پر لکھے حقائق نہیں پڑھ رہے ۔ سیاستدانوں کو سب نظر آ رہا ہے کہ “دانے مک گے نے”کبھی جہانگیر ترین گروپ بنتا ہے اکثریت ختم ہو جاتی ہے لیکن پیپلز پارٹی نہ مسلم لیگ ن کوئی بھی تحریک عدم اعتماد کا دانہ چگنے کیلئے تیار نہیں ہوتا ۔
ملکی معیشت کی تباہی ،افغان اور کشمیر پالیسی کی تدفین کیلئے ایک کاندھے کی اشد ضرورت ہے خبردار جو پیپلز پارٹی ،مسلم لیگ ن یا مولانا فضل الرحمن نے جنازے میں شرکت کی ۔خود لائے تھے خود بھگتیں یا پھر ووٹ کو عزت دیں ۔ دوسری صورت یہ ہے کہ ففتھ جنریشن وار کے مجاہدین کے ذریعے جھوٹ، دھوکہ اور فراڈ کا بازار جاری رکھیں کہ ملکی معیشت ترقی کر رہی ہے ۔ درجنوں یو ٹیوبر برساتی مینڈکوں کی طرح ایک ہی وقت میں ٹرٹر شروع کر دیں کہ میاں نواز شریف پر لندن میں حملہ کی کوشش نہیں کی گئی بلکہ وہ تو ایک بیلف تھا جو کرونا کی وجہ سے منہ چھپا کر عدالتی احکامات پر عملدرامد کیلئے آیا تھا ۔
میاں شہباز شریف کی بیرون ملک روانگی کی اجازت کے خلاف سپریم کورٹ کے دو جن ججوں کا بینچ بنا ہے ان کے ناموں سے ہی پتہ چل رہا ہے کہ بائیس کروڑ پاکستانیوں کی ایٹمی ریاست میں انصاف کا معیار ریاست مدینہ ایسا ہے کہ نہیں ۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں