• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • کشمیر کی خصوصی حیثیت کے خاتمہ کے تین سال۔۔افتخار گیلانی

کشمیر کی خصوصی حیثیت کے خاتمہ کے تین سال۔۔افتخار گیلانی

بھارت کی چند مقتدر شخصیات پر مشتمل فکر مند شہریوں کے ایک گروپ، جس کی قیادت دہلی اور مدراس ہائی کورٹ کے سابق چیف جسٹس، جسٹس اجیت پرکاش شاہ اور سابق سیکرٹری داخلہ گوپال کرشن پلئے کر تے ہیں، نے کہا ہے کہ جموں و کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت ختم کرنے اور خطے کو دولخت کرنے کے تین سال بعد بھی عوام شدید عدم تحفظ کا شکار ہیں۔ اپنی ایک تازہ رپورٹ Three Years After Union Territory — Human Rights in Jammu and Kashmir میں گروپ نے کہا ہے کہ جموں کے دوردراز مسلم اکثریتی علاقوں میں حکومت نے سرکاری بندوق برداروں پر مشتمل ایک ملیشیا ولیج ڈیفنس کمیٹی کا احیا کیا ہے، جو کسی کو جوابدہ نہیں ہے اور اس قلیل عرصے میں ہی پولیس نے ان کے خلاف انسانی حقوق کی صریح خلاف ورزیوں کی پاداش میں 221معاملات درج کئے ہیں۔ ہندو دیہاتی نوجوانو ں پر مشتمل اس ملیشیا کو سن 2000کے آس پاس عسکریت پسندوں سے نمٹنے کیلئے بنایا گیا تھا۔ بعد میں اس کی طرف سے مسلم آبادیوں کو ہراساں کرنے ،ہفتہ وصولی ، راہداری اور دیگر جرائم میں ملوث ہونے کی پاداش میں ایک دہائی قبل ختم کر دیا گیا تھا۔ اس رپورٹ کو ترتیب دینے والوں ، جن میں پانچ سابق سینیئر جج، چار اعلیٰ افسران، جن میں سابق سیکرٹری خارجہ نروپما راوٗ اور چار اعلیٰ فوجی افسران ، جن میں بھارتی فضائیہ کے سابق نائب سربراہ ایر وائس مارشل کپل کاک اور فوج کی شمالی کمان کے سابق سربراہ جنرل ایچ ایس پنانگ بھی شامل ہیں نے کہا ہے کہ حد بندی کمیشن کی رپورٹ نے کشمیرکی غالب اکثریت کے حقوق پر شب خون مارا ہے اور فرقہ وارانہ بنیادوں پر اسمبلی حلقوں کو ترتیب دیکر مقامی اکثریتی آبادی کو سیاسی طور پر بے وزن کرنے کا سامان فراہم کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ حکومت کی ایما پر اس کمیشن کی رپورٹ نہایت ہی جانبدار اور One Person, One Voteکے پرنسپل کی صریح نفی ہے۔ سیٹوںکی تقسیم اس طرح کی گئی ہے کہ حکمرا ن ہندو قوم پرست بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کو سیاسی فائدہ حاصل ہو۔ مسلم اکثریتی وادی کشمیر کی آبادی 68.88 لاکھ اور ہندو اکثریتی جموں کی 53.78لاکھ ہے۔ اس کی رو سے کشمیر کو 51اور جموں کو 39سیٹیں ملنی چاہئے تھیں۔ مگر اس کمیشن نے کشمیر کو اسمبلی میں 47اورجموں کو 43سیٹیں دی ہیں۔ یعنی 56.15فیصد آبادی کو اسمبلی میں 52.2فیصد سیٹیں اور 43.84فیصد آبادی کو 47.77فیصد سیٹیں تفویض کی گئی ہیں، جو پارلیمانی جمہوریت کے اصول کی صریح نفی ہے۔ چونکہ اس کمیشن نے الگ سے کشمیری پنڈتوں اور پاکستانی علاقوں سے 1947 میں آئے ہندو ریفوجیوں کے لئے بھی سیٹیں محفوظ رکھنے کی سفارش کی ہے اور ان کی تعداد حکومت کی صوابدید پر چھوڑی ہے، رپورٹ میں بتایا گیا ہے اسکے اطلاق سے کشمیری مسلمان ایک طرح سے سیاسی اقلیت میں تبدیل ہو جائینگے۔ ان مقتدر شخصیات کے مطابق یہ قدم اس خطے کے سیاسی پاور کے مرکز کو سرینگر سے جموں کی طرف منتقل کرنے کے علاوہ کشمیری مسلمانوں کو سیاسی طور پر بے وزن اور بے وقعت بنائے گا۔ رپورٹ کے مطابق اس من مانی حلقہ بندی جس کو عرف عام میں گیری مینڈرنگ Gerrymandering کہا جاتا ہے سے بی جے پی کو سیاسی فائدہ پہنچانے کی ایک طرف سعی ہو رہی ہے ، وہیں کریکنگ اور پیکنگ Cracking and Packing کے عمل سے مقامی سیاسی پارٹیوں یعنی نیشنل کانفرنس، پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی (پی ڈی پی) اور دیگر ایسی پارٹیوں کی سیاسی بیس کو ایک سیٹ پر اسطرح محدود کیا گیا ہے کہ اسکے اردگرد کی دیگر سیٹیں بی جے پی کیلئے آسان لقمہ بن جائیں۔ ان مقتدر افراد کا کہنا ہے کہ حد بندی کمیشن کی یہ رپورٹ دنیابھر کی سیاسی تاریخ میں گیری مینڈرنگ، کریکنگ اور پیکنگ کے ذریعے ایک غالب اکثریت کو اپنے ہی علاقے میں جمہوریت کے لبادے میں سیاسی اقلیت میں تبدیل کرنے کیلئے بطور مثال پیش کی جائیگی ۔ ادھمپور حلقہ کا ایک گاوٗں جاکھایان، جہاں دلت آبادی 92.8فیصد ہے ، بی جے پی کیلئے درد سر بناہوا تھا، کیونکہ یہاں سے اس کے امیدوار کو ووٹ نہیں ملتے تھے، کو اب سزا کے بطور چینانی کے ساتھ ملایا گیا ہے۔ اسی طرح 2014میں راجوری سے بی جے پی کا امیدوار 2.86فیصد کے فرق سے ہار گیا تھا۔ راجوری میں مسلمان 70فیصد اور ہندو 28فیصد ہے۔ کمیشن کی جانبداری کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اس سیٹ سے سوہنا تحصیل کو الگ کرکے تھانہ منڈی میں شامل کیا گیا۔ سوہنا میں 91فیصد مسلمان آبادی تھی، جس کی وجہ سے راجوری کی سیٹ بی جے پی کیلئے نکالنا مشکل ہوتا تھا۔ جموں پارلیمانی حلقے کے راجوری اور پونچھ ، جو مسلم اکثریتی علاقے ہیں، اکثر بی جے پی کے امیدوار کیلئے ٹیڑھی کھیر ثابت ہوتے تھے۔ گو کہ جموں کے ہندو ووٹروں کی وجہ سے پچھلے کئی انتخابات میں بی جے پی یہ سیٹ جیت چکی ہے۔ مگر اب اپوزیشن کابالکل ہی قلع قمع کرنے کیلئے راجوری اور پونچھ کو 500کلومیٹر دور اننت ناگ یعنی جنوبی کشمیر میں ضم کردیا گیا ہے۔ اس ایک تیر سے کئی شکار کئے گئے ہیں۔ وادی کشمیر کے کوکر ناگ کے ایک مقامی لیڈر عبدالرحیم راتھر نے اس رپورٹ کے خالقوں کو بتایا کہ اس کی سیٹ کو تقسیم کرکے لرنو اور ڈورہ علاقوں میں ضم کر دیا گیا ہے ۔ سابق وزیر الطاف بخاری کی سیٹ امیرا کدل کو بھی تحلیل کیا گیا ہے۔ اس رپورٹ کے مطابق مقامی سیاسی پارٹیوںکی روایتی سیٹو ں کی ایسی حالت کی گئی ہے، کہ ان کیلئے اسمبلی میں پہنچنا ہی مشکل بنادیا گیا ہے۔ جموں کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت کے خاتمہ کے تین سال بعد جس چیز کا سب سے زیادہ ڈھونڈورا پیٹا گیا، وہ بلدیاتی اداروں اور ڈسٹرکٹ ترقیاتی کونسلوں کے قیام کی صورت میں گراس روٹ ڈیموکریسی کا احیا تھا۔ ان اداروں کے منتخب نمائندوں کا یہ حال ہے کہ ان کو سرینگر اور جموں کے ہوسٹلوں اور ہوٹلوں میں حفاظتی حصار میں رکھا گیا ہے اور ان کو اپنے علاقوں میں جانے دیا جا رہا ہے نہ ایڈمنسٹریشن ان کو کسی خاطر میں لاتی ہے۔ سابق جج صاحبان اور سینیئرسول و فوجی افسران کا کہنا ہے گرچہ ان تیس ہزار ممبران میں ہر ایک کو سیکورٹی فراہم نہیں کی جاسکتی ہے، کیونکہ اس کیلئے ایک لاکھ سیکورٹی کے افراد کی ضرورت ہوگی، مگر ان کو اپنے گھر سے دور ہوسٹلوں میں رکھنا اور اپنے ووٹروں سے الگ رکھنا اس پورے گراس روٹ جمہوریت کے عمل کے ساتھ ہی بھونڈا مذاق ہے۔ جن کمروں میں بلدیاتی اداروں کے یہ نمائندے رہتے ہیں ان کی حالت کسی جیل کی کوٹھری جیسی ہے۔ اپنے گھر والوں سے دور ایک کمرے میں کئی افراد کو ٹھونسا گیا ہے اور غسل خانوں کی حالت نا گفتہ بہ ہے۔ (جاری ہے)بشکریہ روزنامہ 92 نیوز

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply